بچہ دشمن کا بھی ہولخت جگر لگتا ہے

ہفتہ 22 نومبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

برسوں پہلے بابائے تھل فاروق روکھڑی نے ایک شعر کہاتھا
پھول کلیوں سے محبت میری فطرت لوگو
بچہ دشمن کابھی ہو لخت جگر لگتا ہے
بچوں سے انس انسانی فطر ت میں شامل ہے چاہے بچے کسی کے بھی ہوہوں انہیں کائنات کے گلشن کا حسین پھول تصور کیاجاتاہے ۔ کہاجاتاہے کہ اگر بچے نہ ہوں تو یہ دنیا اجاڑ‘ ویران گلستاں کا منظر پیش کرنے لگے تبھی تو دنیا بھر کے ممالک میں ان معصوم کلیوں کی حفاظت کا اس قدر اہتمام ہوتاہے کہ جس کی سوچ بھی ہمارے ذہن میں نہیں آسکتی ۔

بچوں کی پیدائش سے لیکر نوجوانی تک ‘ بچوں کو ہرقسم کے وسائل ‘ضروریات ‘سہولیات فراہم کی جاتیں اور حکومتی سطح پر کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں وبائی امراض سے نہ صر ف محفوظ کیاجائے بلکہ ایسا ماحول بھی میسر ہو جو ہرقسم کی آلائشوں سے محفوظ ہو ۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں کسی ایک ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیلاہوا ہے تاہم اگر اپنے ہاں کی بات کریں تو افسوس ہوتاہے کہ بحیثیت قوم ہم ابھی ان مراحل تک پہنچنے سے کوسوں دور ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھرمیں کم عمربچوں کی موت کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق پاکستان پہلے تین ممالک میں شامل ہے جہاں بیماریوں کے علاوہ بھوک افلاس کی بدولت بھی بچے موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

دوسری بات کہ پاکستان میں زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے بھی صورتحال انتہائی مخدوش ہے‘ یہاں ایک اورافسوسناک پہلو کاذکرضرور کرینگے کہ دنیا میں آنے سے پہلے موت کے منہ میں پہنچ جانے والے معصوم بچوں کی شرح کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے ۔
یہ حقائق انتہائی تلخ ہیں اور دنیابھر میں پائے جانیوالے تصور کے مطابق پاکستان ”گندے “ ممالک کی فہرست میں اول نمبروں پر ہے تو ”بیمار شہریوں “ کی فہرست میں پہلے نمبروں پر رہنے کا اعزاز بھی پاکستان کے پاس ہے ۔

رہی سہی کسر ہماری حکومتیں پوری کردیتی ہیں۔ اس ضمن میں اگر سندھ کے صحرائی علاقہ تھر کا ذکر کیاجائے یا پنجاب کے چولستانی علاقوں کی بات ہو ‘ دونوں کانام سامنے آتے ہی بھوک افلاس سے پژمردہ چہروں کاتصور ذہن میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ اول الذکر یعنی تھر ایک عرصہ سے دنیا بھر کے میڈیا کی نظروں میں اس لئے بھی ”کھٹک “ رہا ہے کہ یہاں دوبرسوں کے دوران سینکڑوں معصوم بچے بھوک افلاس ‘ بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔

چاہئے تو یہ تھا کہ سندھ حکومت اس صورتحال پرقابو پانے کے حوالے سے عملی اقدامات کرتی الٹا ”سائیں“فرماتے ہیں کہ نومولود بچوں کی موت کااصل سبب دائیاں ہی ہیں‘ انہوں نے بھوک افلاس کے ضمن میں اٹھائے گئے سوالات کو سرے سے ہی رد کردیا ان کے مطابق ایساکوئی ایشو موجود نہیں ۔ شاید اسے ”سائیں“ کی ناواقفیت سے منتج کیاجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں پائے جانیوالے تصور کے مطابق سندھ حکومت جانتے بوجھتے ہوئے بھی بچوں کی بڑھتی شرح اموات کو روکنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اور اب الٹا میڈیا کے ذریعے عجیب وغریب دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔


صاحبو! سندھ کے صحراؤں سے اگر پنجاب کے شہری علاقوں کاسفرکرتے ہوئے سرگودھا کا ذکر کیاجائے تو یہاں بھی اب تک 9نومولود بچے موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ‘اس کی بنیادی وجہ انکوبیٹر ز کی قلت بتائی جاتی ہے قبل ازیں پانچ بچے وقفے وقفے سے موت کے منہ میں چلے گئے مگر وائے افسوس کہ سندھ کے ”سائیں “ کی طرح پنجاب کے ” خادم “ بھی کچھ نہ کرپائے۔

گو کہ سرگودھا کے ہسپتال کو انکوبیٹرز کی فراہمی ”میگاپراجیکٹس “ میں شامل نہیں ہوتی مگر کم ازکم معاملہ انسانی جانوں کا ہے ۔ ابتداً پانچ بچوں کی رحلت کے بعد حکومت کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایاگیا جو اس کی بچوں سے محبت کا ثبو ت ہوتا الٹا طرح طرح کی دلیلیں پیش کرکے اپنی اس غفلت پر پردہ ڈالنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
صاحبو! پاکستان میں بچوں کی شرح اموات کا ذکر کیاجائے تو ان میں نمونیہ کامرض بھی نمایاں دکھائی دیتاہے کہ پاکستان کے شدید ترین موسمی حالات کی وجہ سے بچوں میں نمونیہ کا مرض زیادہ ہے اور پھر طبی سہولیات کے فقدان نے رہی سہی کسر پوری کردی‘یہ مرض عموماً سردیوں میں عام ہوتاہے اور اس کی بدولت شرح اموات بڑھ جاتی ہے پھر موسم گرما میں اسہال ‘قے کے امراض عام طورپر زیادہ ہوتے ہیں ان پر بھی اسی طرح سے زبانی طورپر ”قابو“ پایاجاتاہے جس طرح سے ڈینگی کے بارے دعوے کئے جاتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ڈینگی مہموں کے ذریعے عام آدمی سے زیادہ فائدہ محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہی ہوا ہے اور اب تک خرچ ہونیوالے کروڑوں روپے انہی محکموں کے کارپردان کی جیبوں میں چلے گئے۔ خیر اب تک صوبائی حکومت اور اس کے متعلقین اسی خوش فہمی کاشکار ہیں کہ ”ڈینگی “ پرقابو پالیاگیا دیکھناہوگا کہ ان دوبرسوں میں خرچ ہونیوالے قومی خزانے کے اثرات کس حدتک ہونا چاہیں تھے اورکس قدر سامنے آسکے ہیں۔


ذکر بچوں کی شرح اموات کا جاری تھا تو اس ضمن میں عرض کرنامقصود ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی پولیو کیو جہ سے دنیا بھر میں حزیمت کاسامنا ہے ایسے میں رہی سہی کسر بچوں کی اموات نے پوری کردی‘ عالمی ادارہ صحت دنیا بھرمیں صحت کی سہولیا ت پر زور دیتاہے اس ضمن میں مختلف پراجیکٹس کے ذریعے نہ صرف پسماندہ ‘ترقی پذیر ممالک آگہی کی مہمیں چلائی جاتی ہیں بلکہ اس ضمن میں وہ باقاعدہ صحت کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے تاہم اگر اس کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ پائیں تو قصور وار عالمی ادارہ صحت کو نہیں ٹھہرایاجاسکتا ۔ یہ ہماری مس مینجمنٹ کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ سہولیات عام آدمی تک نہ پہنچ پائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :