احساس کا قحط

جمعرات 20 نومبر 2014

Qasim Ali

قاسم علی

صحرائے تھر میں گزشتہ تین سال سے اپنی تمام تر حشرسامانیوں کیساتھ جاری موت کاخونی رقص سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 31اکتوبر2014تک 1600سے زائد بچوں کو نگل چکا ہے ایک بار پھر پڑھ لیجئے کہ یہ تعداد صرف بچوں کی ہے اس میں دیگر مردوزن اور وہ ہزاروں مویشی شامل نہیں جن کو بھوک کے باعث موت نے آن دبوچااور یہ بھی یاد رہے کہ یہ تعداد محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس کے بارے میں غالب گمان ہے کہ اصل جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے مگر حسب روائت ''وسیع تر ملکی مفاد''میں ان حقائق کو چھپایا جارہاہے۔

مگر اس کے باوجود اگر ان اعدادو شمار کو ہی درست تسلیم مان لیا جائے اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور بیشمار سہولیات سے آراستہ اکیسویں صدی کے تناظر میں ان خوفناک حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بدترین انسانی المیہ تو ہے ہی مگر اس کیساتھ ساتھ ایک اور تلخ حقیقت بحیثیت ایک قوم جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا ملک 20کروڑ انسانوں کا نہیں بلکہ جانوروں پر مشتمل ایک ایسی وسیع چراگاہ بن چکا ہے جس کی نگہبانی چند ایسے نااہل چرواہوں کے سپرد ہے جس کو ان بھڑبکریوں کے گھاس پھوس کی تو فکر نہیں البتہ ان کے لذید گوشت اور خون کا چسکا ان کے منہ کو ایسا لگا ہے کہ67سال گزرنے کے باوجودچھٹنے میں ہی نہیں آرہا ۔

(جاری ہے)

اگر یقین نہیں آتا تو ایک نظر 22000مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر کی گہرائی میں گیس ،بلیک گولڈ یعنی کوئلہ ،چینی مٹی اور گرینائٹ جیسے چھپے ہوئے ان انمول خزانوں پر ایک نظر ڈال لیجئے جو قدرت نے اس سرزمین کو ودیعت کئے ہیں جن کو اگر بہتر حکمت عملی کیساتھ استعمال میں لایا جائے تو نہ صرف صحرائے تھر دوسرا دوبئی بن سکتا ہے بلکہ یہ وسائل وطن عزیز کوایک دہائی میں ہی اس مقام تک پہنچا سکتے ہیں جہاں آج چین،جاپان اور یورپی یونین کے ممالک کھڑے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ آج تک اسی سونے سے بھی قیمتی سرزمین کے سینے پر بسنے والوں کو زندہ رہنے کیلئے درکارصحت ،تعلیم ،خوراک اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں اور حد تو یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب انسان حقیقت میں ستاروں پر کمندیں ڈال رہاہے ایسے میں یہاں کے مکین آج بھی اٹھارویں صدی کے باشندوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو پانی کی ایک ایک بوند کیلئے آسمان سے ابررحمت کے منتظر رہتے ہیں کہ ان پر مسلط زمینی خداوٴں کو اتنی بھی توفیق نہیں کہ ان کیلئے کنویں کھودکر ان کا پانی کا مسئلہ ہی مستقل بنیادوں پر حل کردیں۔

اس کے علاوہ اس خطے کو جو ایک دوسری خاصیت حاصل ہے وہ یہ کہ یہاں پر مختلف قدیم مذاہب مثلاََ بدھ مت،ہندومت اورجین مت کی بیشمار سمادھیاں،مندر اور دیگر عبادت گاہیں آج بھی موجود ہیں لہٰذا اگر حکومت ان علاقوں میں جدید سہولتوں سے آراستہ مواصلاتی نظام قائم کرکے اس کو سیاحوں کیلئے کھول دے تواس سے نہ صرف اس علاقے میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے بلکہ پاکستان سیاحت کی مد میں ہرسال کروڑوں ڈالر کمابھی سکتا ہے ۔

مگر افسوس صد افسوس کہ اب بھی جب کہ ہزاروں جیتے جاگتے انسان ان چند وڈیروں کی غفلت،کرپشن اور ڈھٹائی کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں یہ لوگ اب بھی ان زندہ لاشوں کیلئے کچھ کرنے کو تیار نہیں بلکہ یہ لوگ الٹا کبھی ان کا یہ کہہ کر ٹھٹھا اور مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ سارا شور شرابا میڈیا کا اٹھایا ہوا ہے پورے ملک میں روزانہ600بچے مرتے ہیں مگر میڈیا کو صرف تھر میں مرنے والے ہی نظر آتے ہیں اورکبھی کسی'' دانشور'' کی جانب سے یہ موشگافی چھوڑی جاتی ہے کہ تھر میں بھوک سے کوئی بچہ جاں بحق نہیں ہوا بلکہ یہ اموات غربت کی وجہ سے ہوئیں ہیں سبحان اللہ ۔

مگر کیا کیجئے کہ ان عقل کے اندھوں سے یہ بھی کوئی نہیں پوچھنے والا کہ حضور ان کی غربت کا ذمہ دار کون ہے ؟اپنے تو تاحیات تحفظ اور آسائش کیلئے آپ راتوں رات قانون سازی کرکے کروڑوں کا فنڈ مختص کروالیتے ہیں مگر ان جیتے جاگتے انسان نما کیڑے مکوڑوں کو جینے کا حق بھی نہیں دیا جارہا ۔اگر حکومت کی جانب سے ان کیلئے پانی اور خوراک بھیج بھی دی جائے تو افسر شاہی کی بدانتظامی کے باعث اس کو مناسب طریقے سے تقسیم ہی نہیں کیا جارہااور متاثرین کیساتھ انتہائی تحقیر آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے ۔

اسی ضمن میں چار نومبر کو اس وقت انتہائی شرمناک صورتحال بھی سامنے آئی جب بدعنوانی کی شکائت پرایک خوراک کے مرکز چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے 295بوریاں ایسی برآمد ہوئیں جن میں گندم کی بجائے مٹی بھری ہوئی تھی کیا ہم بطور انسان اس حد تک گر سکتے ہیں کہ اپنی نظروں کے سامنے بھوک سے تڑپتے اور مرتے انسانوں کو دیکھ کر بھی ہمارے دل نہیں پسیج رہے اور ان مصیبت زدگان کیساتھ دھوکہ کرنے سے بھی ہم باز نہیں آرہے ؟
یہ ماجرا تو حکومت اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت کا تھالیکن احساس کا یہ قحط یہاں پرہی آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ امداد اور رقوم کے تقسیم کارکارندوں کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں بھی کسی کو گندم کی بوری بغیررشوت نہیں دے رہے اور اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے پندرہ سو تک فی کس وصول کئے جارہے ہیں اب گزشتہ تین ماہ سے دھرنوں اور جلسوں سے پورے ملک کو بند کردینے اور اس احتجاج پر اربوں روپے اڑادینے والوں کی بھی سنئے کہ انہوں نے بھی اس انسانی المیے کی شکل اختیارکرتے حادثے پر اپنے لب سی لئے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان دھرنوں نے آئی ڈی پیز اور تھرکے ایشو سے توجہ ہٹادی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

آخر میں خود تھر کے باسیوں کے اپنے اوپر ظلم کی داستان بھی پڑھیے کہ تھر کے ڈومیسائل پر ایم بی بی ایس کرنے والوں کی تعداد تو ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے مگر یہ لوگ خود اپنے علاقے میں خدمات سرانجام دینے کو تیار نہیں اور تھر میں ڈاکٹروں کی 166آسامیاں خالی پڑی ہیں اور تھر کی 6تحصیلوں میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر دستیاب ہے۔ ان تمام تلخ حقائق کو جاننے کے بعد میں یہ کیوں نہ کہوں کہ تھر اور شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی مشکلات اور اموات کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ اس کی وجہ انسانیت ،ضمیر اور احساس کا وہ قحط ہے جو ہماری رگ و پے میں بری طرح سرائیت کرچکاہے۔اللہ ہم پر رحم فرمائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :