یہاں سب چلتا ہے

منگل 18 نومبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پرانے دور کی انڈین اور پاکستانی فلموں کے نغمات اس قدر رسیلے ہیں کہ بد ذوق سے بد ذوق آدمی بھی سن کر وجد میں آجاتا ہے۔جذبات سے عاری انسان بھی جذباتی ہو جاتا ہے۔بیمار سن لے تو اُس کا بیماری کا ڈپریشن دور ہو جاتا ہے،پریشان سن لے تو اُس کی پریشانی دور ہو جاتی ہے، بے زار سن لے تو اُس کی بے زاری دور ہو جاتی ہے۔انسان سوچ کے فلک پر پرندوں کی مانند پرواز کرنے لگ جاتا ہے۔

وہ کمرے میں بیٹھا سبزہ زاروں میں گھوم رہا ہوتا ہے،بستر علالت پر پڑا سرسبر پہاڑوں پر گھوم رہا ہوتا ہے۔یہ اُس موسیقی کا جادو ہے کہ چاہے گانے کے بولوں کی سمجھ آئے یا نہ آئے، تخیل کی دنیاسر سبزو شاداب ہو جاتی ہے۔راہ چلتے ہوئے بھی ان گانوں کے بول کانوں میں پڑ جائیں تو وہیں کانوں میں رس گھول دیتے ہیں، گردو غبار، شور کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے زاری کو خوش گوار احساس میں بدل دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


اُن نغمات کی شاعری اتنی معیاری ہے کہ چند الفاظ کے تال میل سے شاعر نے وہ تااثر پیدا کر دیا ہے کہ جذبات میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔
ردیف قافئے کی بندشوں کے باوجود شاعر وہ کچھ کہہ جاتا ہے کہ منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔یہ شاعری خشک سے خشک انسان کے دل و دماغ کو زرخیز بنا دیتی ہے۔اکھڑ مزاج کو نرم مزاج بنا دیتی ہے۔تھور زدہ کلراٹھی سوچ میں محبت کے پھول کھلا دیتی ہے۔

ان نغمات میں ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ سننے والے تھوڑی دیر کے بعد اِن نغمات کو خود بھی گنگنانے لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپ میں ایک انجمن سی سجالیتے ہیں جس کے وہ خود ہی گلوکار اور خود ہی سامع ہوتے ہیں۔ ان نغمات کے موسیقاروں نے ان نغمات کی دھنیں تخلیق کرنے کے لئے زچگی کی سی تکلیف اٹھائیں، راتوں کو کروٹیں بدلیں،خیالوں کی دنیا کے صحراؤں میں بھٹکتے پھرے پھر جا کر یہ لازوال شاہکار تخلیق ہوئے۔

برسوں بیت گئے ہیں لیکن ان کا جادوئی اثر نہیں ٹوٹا۔ان کی مٹھاس، ان کی لذت،ان کی تازگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نئی پود انگریزی موسیقی اور انگریزی گانوں کی طرز پر کی گئی شاعری اور پھر بنائے گائے نغمات پر محض اس لئے سر دھنتے ہیں کہ انہیں یہی کچھ میسر ہے لیکن جب یہ نوجوان بھی کہیں سے ان پرانے گانوں کے چند بول سنتے ہیں تو اُن کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔

اُن کے زبان سے بے ساختہ اس طرح کے جملے نکل جاتے ہیں، واہ کیا جادوئی شاعری ہے اور کیا جادوئی موسیقی ہے۔پرانے لوگ اب یہ نغمات اتنی دفعہ سن چکے ہیں کہ اب صحیح لے اور تان میں خود بھی گنگناسکتے ہیں۔ پرانے نغمات، نئی موسیقی کی طرح ہرگز غیر اسلامی نہیں لگتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ذہن کے لوگ بھی انہیں سن کر ضمیر پر گناہ کا کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے ۔

ان نغمات کی پلیدی دور کرنے کے لئے بعض نعت خوان شعراء نے انہیں نعت کے قالب میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ ان کی یہ کاوش بہت کامیاب رہی۔ ابتدا میں کچھ لوگوں نے اس پرلے دے کی لیکن پھر ان کی آواز بھی دبتی چلی گئی۔ اب بہت کم کسی میلاد میں نعت کی طرز پر نعت سننے کو ملتی ہے ورنہ زیادہ تر کسی نہ کسی نغمے کی طرز پر نعتیں سننے کو ملتی ہیں اور یہ غیر شرعی فعل بھی نہیں سمجھا جاتا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ فتویٰ صادر کرنے والوں نے موسیقی کو حرام سمجھتے ہوئے اُن انڈین گانوں کو نہیں سنا ہوتا ورنہ نعت خوان سے کہہ دیتا کہ یہ نعت تو فلاں گانے کی طرز پر ہے اس لئے کوئی اسلامی طرز پر تیار کی گئی نعت سنا ؤ۔ ایک وقت تھا کہ موسیقار نعتوں کی طرز پر گانے تخلیق کیا کرتے تھے لیکن اب کوئی تخلیقی کرب برداشت کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ اس سہل پسندی کا نتیجہ ہے کہ پرانے گانوں کی طرز پر نعتیں گائی جا رہی ہیں اور پرانی نعتوں کی طرز پر گانے گائے جا رہے ہیں نہ وہ غیر شرعی ہیں اور نہ یہ سرقہ نویسی ہے ۔یہ سائنسی دور جو ہوا ۔ بس جی: یہاں سب چلتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :