معا شرتی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان!!

منگل 18 نومبر 2014

Muhammad Usman Haider

انجینئر عثمان حیدر

وطنِ عزیز گزشتہ چھ دہائیوں سے مختلف النوع تعصبات، متشدد نظریات اور اشتعال انگیز رجحانات کی آگ میں جلتا چلا آ رہا ہے۔ لِسانی تعصبات سے لے کر علاقائی مخاصمتوں تک، قبائلی دشمنیوں سے لے کرگروہی صعوبتوں تک ، مسلکی عناد سے لے کر مذہبی منافرت تک ہر ناسور اس مملکتِ خداداد کے نحیف بدن پراپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ کبھی لسانیت کی بنیاد پر انسانیت کی حرمت پامال کی جاتی ہے تو کبھی مسلک کی بنیاد پر دینِ اسلام کی روح لہو لہان کر دی جاتی ہے۔

کبھی وطنیت کے نام پر معصوم جانوں کو تہہِ تیغ کیاجاتا ہے تو کبھی مذہب کی آڑ میں اشرف المخلوقات کی تقدیس کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر پاسبانِ ملک و ملت کی سیاسی و اداریاتی بغض پر مبنی سرد جنگیں پوری کر دیتی ہیں ۔

(جاری ہے)

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ خود کو سیاسی ،معاشرتی اور مذہبی اقدار کا نگہبان کہنے والا طبقہ بھی گزشتہ ساٹھ سالوں سے بس یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ سماجی و مذہبی اقدار کا اگر کوئی محافظ ہے تو وہی ہے لیکن آج تک یہ مقدس طبقہ عملی صورت میں اس کا ثبوت دینے میں اکثر ناکام رہا ہے۔


اس مقدس طبقے کے مختلف روپ ہیں، کبھی یہ پارلیمان کی راہداریوں میں عزت مآب سیاستدانوں کے روپ میں نظر آتا ہے تو کبھی وردی میں ملبوس ایوانِ صدر پر قابض آمر کی صورت میں۔ کبھی یہ طبقہ تھری پیس سوٹ زیب تن کیے ہوئے یبورو کریٹس کی شکل میں نظر آتا ہے تو کبھی ایوانِ عدل کی مقدس مسند پر براجمان جج صاحبان کی صورت میں! کبھی یہ طبقہ عصری تعلیمی اداروں کی وسیع و عریض درسگاہوں میں ”دانشور “ کا تمغہ سینے پر سجائے نظر آتا ہے تو کبھی مذہب کے نام پر سجائے گئے اسٹیج پر جبہ و دستار والے مقدس راہنماؤں کے روپ میں! لیکن ان میں سے کوئی ایک روپ بھی ایسا نہیں جس میں یہ طبقہ حقیقتاََ اپنا کردار صحیح سمت میں ادا کر پایا ہو۔

بس ایک لفاظی کا میدان ہے جس میں ہمیشہ یہ طبقہ فتح یاب ٹھہرا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستان بے شماراقسام کی سماجی و مذہبی نفرتوں کا شکار اورمعاشرتی عدم برداشت کی لپیٹ میں ہے۔
آج اس ملک میں تقریباََ ہر شخص خود کو تنقید سے بالا تر اور دوسروں پر تنقید کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ ہر طبقہ اس بات کا تو متقاضی ہے کہ اس کے جذبات و نظریات کا احترام کیا جائے لیکن وہ خود دوسروں کے جذبات و نظریات کے احترام کا روادار نہیں۔

ہر گروہ اپنی مذہبی و سماجی اقدار کی حرمت کا احترام تو چاہتا ہے مگر فریقِ مخالف کی سماجی و مذہبی اقدار کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ ہر فرد اپنی عزتِ نفس کے تحفظ کا خواہاں تو ہے لیکن دوسروں کی عزتِ نفس مجروح کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی رک کر یہ نہیں سوچتا کہ وہ اپنے لیے کیا پسند کرتا ہے؟ دورانِ گفتگو ہر خود ساختہ تجزیہ نگارآزادیِ اظہار کو اپنا حق سمجھتا ہے مگر سامنے والے کو یہی حق دینا اسے قبول نہیں۔

سوشل میڈیا پر ہر شخص خود کو عقلِ قُل سمجھتے ہوئے فرقہِ ملامتیہ کا روپ دھارے نظر آتا ہے۔ سیاسی سٹیج پر کھڑا ہر لیڈر خود کو معصومِ اعظم اور باقی سب کو خبیثِ اعظم ثابت کرنے پر بضِد ہے۔ کہیں ایک مبہم سے شبہ کی بنیاد پر خود ہی مدّعی ، خود ہی منصف اور خود ہی جلّاد بن کر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے جواں سال میاں بیوی کومذہب کے نام پر بھٹے میں جلا دیا جاتا ہے تو کہیں اشتعال انگیز تقریر کا الزام لگا کر اقلیتی گروہ کا جلوس مدرسے میں گھس کر درجنوں کمسن طلباء کو ذبح کر ڈالتا ہے۔

کبھی چوری کا لزام لگا کر دو نو عمر بھائیوں کو ڈی پی او کی موجودگی میں ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو کبھی کھیت میں بکریاں چھوڑ دینے کے جرم میں غریب مزارع پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
درحقیقت ہم مجموعی طور پر معاشرتی عدم برداشت کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ رجحان مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اخلاقی تعلیم و تربیت پر توجہ نہ دینے کے سبب ہم سماجی بگاڑکی انتہا کو جا پہنچے ہیں۔

اب ہمیں سوچنا ہے کہ کیاہم اس بھیانک فکری انحطاط کا تدارک کر سکتے ہیں؟؟ ہم یقیناََ ان دلخراش رویوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں اگر ہم کرنا چاہیں تو! لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو سکے گا جب یہ سارے”مقدس طبقات“ اپنے اپنے حصے کا کردار صحیح معنوں میں ادا کرنے پر تیار ہو جائیں ۔ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی تیاری سے وابستہ افراد ایک معیاری، معتدل، جدید اور اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نصاب کی تیاری سے اس عدم ِ برداشت کے رجحان کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں اساتذہ اور والدین کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اساتذہ قوم کے حقیقی معمار ہوا کرتے ہیں۔ ایک اچھا استاد ہی معاشرے کو اچھے اور قابل افراد مہیا کر سکتا ہے۔اساتذہ کو محض امتحانی نقطہِ نگاہ کو مدِ نظر رکھنے کی بجائے اپنے طالبعلموں کی معتدل اور معیاری تربیت کر کے ان کے اند ر عدم برداشت کے رجحان پر قابو پانے میں اپنا بنیادی کردار اداکرنا چاہئے۔

مگر اساتذہ اور والدین کی یہ کوششیں بھی اس وقت تک بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک قانون کی عملداری و حکمرانی ، انصاف کی بر وقت فراہمی، مذہبی رواداری کا فروغ اور معاشرتی تعلیم و تربیت کے بہترین نظام کو عملی صورت میں نافذنہ کر دیا جائے ۔ کیونکہ جب تک معاشرے میں انصاف کا بول بالا نہ ہو اس وقت تک امن کا خواب شرمندہِ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس مسلسل بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے عفریت پر قابو پا لیں لیکن اگر ہماری قومی سوچ کے دھارے اب بھی ان بھیانک رجحانات کے تدارک کیلئے صحیح ڈَگر پر واپس نہ آئے تو مستقبل قریب میں اس آگ کے بجھنے کی امید لگانا تجاہلِ عارفانہ کے مترادف ہو گا!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :