کیونکہ ہم اکثریت ہیں

اتوار 16 نومبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

قرار دادِ مقاصد 7مارچ 1949 کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی جانب سے منظوری کے لیے پیش کی گئی۔ اس قرار داد کو قانون ساز اسمبلی نے بحث مباحثے کے بعد12 مارچ 1949 کو 21 کے مقابلے میں 10ووٹوں سے منظور کیا۔ اس قرار دادکی مخالفت میں ڈالے گئے تمام ووٹ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان نیشنل کانگریس کے تھے۔پاکستان نیشنل کانگریس مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے گیارہ ہندو اراکین پر مشتمل سیاسی جماعت تھی۔

اس جماعت نے پیش کردہ قراردادِ مقاصد پرپر مغز اعتراضات اٹھاتے ہوئے متن میں ردوبدل کے حوالے سے کئی معتدل اور قابلِ قبول اصلاحات پیش کیں پر جنہیں پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے یکسر مسترد کر دیا گیا!!قائدِ حزبِ اختلاف چندرا چترپاتیہ نے اس اہم موقع پر اپنے اعتراضات ایوان کے سامنے رکھتے ہوئے قرار دار سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا۔

(جاری ہے)

ذیل میں درج اس تقریر سے چند اقتباسات پاکستان کے موجودہ حالات کی درست ترجمانی کرتے ہیں اور انتہائی قابلِ غور بھی ہیں:
”ریاست سے متعلق میری سمجھ بوجھ یہ ہے کہ ریاست ایسی جگہ ہے جہاں متنوع مذاہب کے پیروکار افراد مل کر رہتے ہیں اور مذہب ریاستی امور میں غیر جانب دار مقام کا حامل ہے۔ ریاست کسی بھی مذہب کے واسطے کوئی تعصب نہیں رکھتی۔

اگر انتہائی ضرورت آن بھی پڑے تو ریاست کو تمام مذاہب سے برابری کی سطح پر معاملات رکھنے چاہییں۔ ریاست کے لئے کسی بھی مذہب سے رعایت برتنا، مراعات دینا یا برداشت کا سلوک روا رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے احساسِ کمتری کو جنم دینے کے مترادف ہے۔ ریاست پر واجب ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کرے۔ کسی ایک کے لئے مسکراتا چہرہ اور دوسرے کے لئے مشکوک نظریں ریاست کا شیوہ نہیں۔

ماضی کے تلخ واقعات ہمارے انتباہ کے لئے بہت کافی ہیں کہ انہیں نہ دہرایا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔“
مزید یہ بھی کہا’ ’یہ قراردادا پیش کر کے مستقبل میں آئینی طور پر یہ مقصود کیا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو مذہبی اکثریت کی جانب سے جتنی بھی خیر خواہی ملے اس کا شکر بجا لائیں اور اپنے خلاف کسی بھی حد تک بد اندیشی کے خلاف کوئی حرفِ شکایت زباں پر نہ لائیں۔

یہ مذہبی اقلیتوں سے نمٹنے کا ان کا پیش کردہ حل ہے۔“
آئینی طور پر مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے قوم کی تقسیم کے بعد باقاعدہ طور پر ’اکثریت‘ اور ’اقلیت‘ کا وجود قائم ہوتا ہے۔ایسا وجود جو ریاست کی بنیاد پر قومیت کا وجود زندہ د در گور کر دیتا ہے۔ وہ افراد جو ریاست کے شہری ہونے کے ناطے برابر کے حقوق رکھنے کے مستحق ہوتے اور ریاست کی جانب سے مساوی حقوق و معاشرتی رتبہ مہیا کیے جانے کی صورت میں ریاست اور قوم کی مضبوطی کا سبب بنتے محض سرکاری مذہب کے پیروکار نہ ہونے کے باعث ’اقلیت‘ قرار پاتے ہیں۔

سرکاری طور پر تصدیق شدہ ’اکثریت‘ Herrenvolk کے روپ میں ابھرتی ہے پھر غیر واضع قوانین اور ریاستی کمزوری کے باعث اپنے ہی بوجھ تلے شکست و ریخت کا شکار ہو کر فرقہ بندی، مذہبی منافرت، مذہبی تصورات اور نظریات کے توضیحی اختلافات کا شکار ہوتے ہوئے درحقیقت نچلی سطح پر ایسے گروہوں میں بٹتی چلی جاتی ہے جہاں ہر گروہ اپنے آپ کو Super Herrenvolk گروہ گردانتا ہے۔

ریاستی قانون سازی کے عمل کا اختلافات کے شکار ایسے Herrenvolk Super گروہوں کی خواہشات اور نظریات کے مرہونِ منت ہوجانا مذہب کو امورِ ریاست سے جوڑنے کا منطقی انجام ہے جس کے سبب ایسے متفقہ معتدل قوانین کا تخلیق پانا جو عملی طور پر اقلیتوں کوتحفظ اور حقوق فراہم کریں خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔
اقلیتی برادری کے سجاد مسیح اور شمع بی بی کو بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا ڈالنے کا واقعہ’ اکثریت‘ کی جانب سے بربریت اور زیادتی کا تازہ ترین لیکن پہلا واقعہ ہر گز نہیں ہے۔

یہاں فہرست طویل ہے جس میں اقلیتوں کی آبادیوں کی آبادیاں جلا کر خاکستر کر دینے کے اندوہ ناک واقعات بھی شامل ہیں۔ ایسی ریاست جہاں’ اکثریت‘ کو ’اقلیت‘ پر ریاست کی عطا کردہ نفسیاتی برتری کے ہمراہ اس کے ظلم و جبر کو بھی نہ صرف ریاستی قوانین کی پشت پناہی حاصل ہو بلکہ رائج قوانین انسانیت سوز جرائم میں ملوث ’اکثریت‘ کے لئے نجات دہندہ کے فرائض بھی سر انجام دیں تو ایسے میں ’اقلیت‘ کا ہر صورت ’اکثریت‘ سے خوف اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنے وجود کی بقا و سلامتی اور عزت و ناموس کی حفاظت کرنا ہی زندگی کا اولین مقصد قرار پاتا ہے۔

’اقلیت‘ کے لئے زندگی ’اکثریت‘ کے موڈ اور درندگی سے بچ بچا کر سانسیں چلاتے رکھنے کا تکلیف دہ عمل بن جاتی ہے۔
آج پاکستان بطور ایک نظریاتی ریاست اور منقسم معاشرے کے چندرا چترپاتیہ صاحب کے ان تمام خدشات کو درست ثابت کر رہا ہے جن کا اعادہ انہوں نے قرار دادِ مقاصد کے پیش و منظور کیے جانے کے موقع پر کیا تھا۔ صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ سجاد مسیح اور شمع بی بی کے قاتلوں کو واقعی کسی جرم کا مرتکب بھی قرار دیا جائے گا جبکہ سزا تو بہت دور کی کوڑی ہے۔

آزادی کے ۶۷ برس بعد ایک Herrenvolk اکثریت کے طور پر ہماری نفسیات اپنی عالمی و کائناتی برتری پر مکمل قائل ہے تو ہم اپنے اقلیتی بھائی بندوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ہماری جانب سے جتنی بھی خیر خواہی انہیں ملے اس پر شکر بجا لائیں ! شکایت کی بھی کوئی خاص گنجائش موجود نہیں! کیونکہ ہم اکثریت ہیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :