اقلیت بھی پاکستان کے شہری ہیں

اتوار 16 نومبر 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

نجی گرجاگھروں سے لے کرآئزک ٹی وی چینل تک کسی بھی سطح پرمشاہدے سے ادراک ہوتاہے کہ مسیحی برادری کسی طور سے کسی بھی مسلمان پاکستانی شہری سے پاکستان کی محبت رکھنے سے پیچھے نہیں۔ اِن کی ہرتقریب میں پاکستان کی عوام اور ملک کی سلامتی کی دعا فرض ہے۔ مسیحی برادری اسلامی اصولوں کو اسی طرح محترم ادراک کرتی ہے جس طرح ایک سچامسلمان عقیدہ رکھتاہے وہ کبھی مذہبی اختلافات کاحصہ نہیں بنتا۔

اُسے اپنے روزمرہ کے کاموں اور اپنے اقلیتوں کے احساس کی بدولت ہرقدم محتاط اٹھاناپڑتاہے بلکہ اپنی اولادوں کوبھی میل جول مذہبی اختلافات سے دوررہنے کی بزرگ نصیحت کرتے ہیں۔ میراذاتی مشاہدہ ہے کہ اگردوسرے مذاہب کے لوگ عیسائی مذہب کو علم کے طور پر جاننے کی خواہش رکھتے ہوں تو مسیحی برادری خوشی سے ناصرف اُس شخص کیلئے اپنے دل کے دروازے ہی نہیں بلکہ گرجا گھرکی چوپٹ بھی اُس کے لئے کھول دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

یسوع کاپیغام راست بازی اورگناہگاروں کے قصورکودرگزر کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے محبت رکھنے کاپیغام دیتے ہوئے کہتا ہے ”جوتم پر لعنت کرے اُس کے لئے برکت چاہو ، جوتمہاری تحقیرکرے اُن کے لئے دعاکرو، جو تیرے ایک گال پرطمانچہ مارے دوسرابھی اُس کی طرف پھیردے اور جوکوئی تیراچوغہ لے اُس کو کرتا لینے سے بھی منع نہ کر“ مگر اس کے باوجود باربار نہ جانے کیوں ہم اپنے ذاتی جھگڑوں میں اقلیتوں پر مذہبی الزامات لگاکرموت کے گھاٹ اُتار دینے میں دیرنہیں لگاتے، ذراغورکریں اس بات پر ہرگزدورائے نہیں کہ گستاخ رسول کی سزا موت سے کم نہیں اور نہ ہی اسلامی شقوں سے متعلق پاکستانی قوانین میں تبدیلی کے مطالبے کوتسلیم کیاجاسکتاہے مگر سوال یہ ہے کہ ایساالمناک واقعہ پیش بھی آیاہے یانہیں۔

یہ سوچے سمجھے بغیر صرف سنی سنائی من گھڑت کہانیوں سے کسی اقلیت کونقصان پہنچانے والا بھی سخت سزاکامستحق ٹھہرانا ضروری ہے ۔ کیونکہ اقلیت نہ صرف ہمارے ملک کے شہری ہیں بلکہ اسلام میں ان کے حقوق اداکرنے پر بھی زوردیا گیا ہے لہذا اس پس منظرمیں کوٹ رادھاکشن میں بھٹے پر کام کرنے والے عیسائی جوڑے کوجلانے والے واقعہ پر الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔

ایک دکھ کی ٹھیس سارے بدن میں بے چینی پھیلادیتی ہے کہ کیسے اُن کے معصوم بچوں کی نظروں کے سامنے اُن کے والدین کوزندہ جلادیاگیا۔ یہ کیسے معاشرے کے بے حس بے ضمیر لوگ ہیں جو اتنا بھی ادراک نہیں رکھتے کہ اس طرح اپنے ذاتی جھگڑوں کا بدلہ لینے کی خاطر مذہب کااستعمال کرنا کس طرح پورے معاشرے میں انتشارپھیلانے کاباعث ہونے کے علاوہ اپنے مذہب کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اسلام تو اپنے مردوں کوبھی جلانے کی اجازت نہیں دیتا توپھر زندہ انسانوں کو آگ کی نظرکرنا کس طرح گواراکرسکتا ہے۔

یقینا اس طرح کی بربریت کرنے والا شخص مسلمان ہونے کا دعویدارنہیں ہوسکتا۔ کاش یہ فعل کرنے سے پہلے جان لیاہوتا کہ ایک اسلامی ریاست میں اقلیت شہری کی کیسے حقوق ہیں۔ ایک حدیث ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا جوشخص کسی غیرمسلم شہری کے ساتھ ظلم کرے تو ایسے شخص کے خلاف اور ذیادتی کے شکار غیر مسلم شہری کے حق میں قیامت کے دن خود حضرت محمد ﷺ مقدمہ لڑیں گے۔

گویا غیر مسلموں سے غیراسلامی سلوک کرنا آخرت میں کس قد ر خسارے کا کام صادرہوسکتاہے۔ اتنا واضح حکم ہونے کے باوجود بار بار نہ جانے کیوں ہم اپنے ذاتی جھگڑوں میں اقلیتوں پر مذہبی الزامات لگاکرموت کے گھاٹ اتارنے کومذہب کی خدمت سے تعبیر کرنے لگتے ہیں لہذا اس سانحہ میں ملوث جوبھی مجرم ہیں اِن پرمقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایاجائے اور انہیں قرارواقعی سزادی جائے تاکہ آئندہ کسی فرد کو مذہب کاغلط استعمال کرنے کی ہمت نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :