سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی شمولیت

جمعہ 14 نومبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے رحیم یار خان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی زیر نگرانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ کمیشن میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ممبران کو بھی شامل کیا جائے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے اس مطالبے کے بعد مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اس مطالبے کو غیر آئینی اور غیر سیاسی قرار دیا ہے۔

سیاسی قیادت کا کہنا ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں شامل نہیں کرنا چاہئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سماج میں رہائش پذیر ہیں جو دور نگی اور منافقت کا شکار ہے۔یہاں مفادات کے حصول کی خاطر نظریات و خیالات کو تغیر سے ہمکنار کرنامعیوب خیال نہیں کیا جاتا بلکہ ڈھٹائی سے اپنے سابقہ موقف اور طرز عمل کے برعکس استدلال پیش کئے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

کیا مضحکہ خیزی ہے کہ عسکری اداروں کو سیاسی معاملات میں شامل نہ کرنے کی تلقین وہ سیاسی زعما کر رہے ہیں جن کے اپنے سیاسی وجود کی ابتدا کسی نہ کسی فوجی جرنیل کی مرہون منت ہے ۔

کیا یہ زیبا ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں شامل نہ کرنے کی بات اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کریں؟۔ اور اگر وہ پھر بھی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کو معیوب خیال کرتے ہوئے اس کی مذمت کریں تو کیا انہیں اپنے قائد جناب ذولفقار علی بھٹو اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب کے مابین مراسم کا جائزہ نہیں لینا چاہئے ؟۔ جس پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہیں اسی پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذولفقار علی بھٹو فوجی آمر جنرل ایوب خان کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے بلکہ وہ اپنے اس تعلق کو باپ بیٹے کا تعلق کہا کرتے تھے ۔

بعد ازاں اسی آمر کی کابینہ میں جناب ذولفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے ۔ جب جنرل ایوب عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے سبب اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر گئے تو جناب بھٹو جنرل یحییٰ خان کے قریب ہوگئے ۔ بلکہ پیرزادہ کے بقول جنرل یحییٰ خان کے اکثر اخباری بیان بھی بھٹو ہی لکھا کرتے تھے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے بیان پر اگر کسی بھی حروف تہجی کی حامل مسلم لیگ کا کوئی کارکن یا قائد معترض ہے تو اسے چاہئے کہ وہ وطن عزیز کے سب سے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب کے ساتھ مسلم لیگ کی ”لو سٹوری“کو مدنظر رکھے ۔

جی ہاں یہ اس دور کے مسلم لیگی ہی تھے جنہوں نے 1966میں سیاسی جماعتوں کی بحالی کے بعد وجود میں آنیو الی کنونشن مسلم لیگ میں دھڑا دھڑ شمولیت اختیار کی اور 1970تک جنرل ایوب کواس مسلم لیگ کا صدر بنائے رکھا۔کون نہیں جانتا کہ اس جماعت کا منشور جنرل ایوب کی آمرانہ حکومت کی بلاسوچے سمجھے حمائت کرنا تھا ۔ مسلم لیگ کی سیاسی قیادت کی فوجی جرنیلوں کے ساتھ تعاون کی دوسری مثال پاکستان مسلم لیگ قیوم میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

قیوم خان پاکستان کے قیام کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے ۔ بعد ازاں وہ وفاقی کابینہ میں شامل ہوگئے ۔ 1958ء میں مارشل لاء لگا تو قیوم خان مسلم لیگ کے صدر تھے اور ان کو فوجی عدالت نے قید کر دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے معذرت کر کے رہا ہوئے تھے ۔ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاستدانوں کا فوج کے ساتھ ”رومانس“ کے حوالے سے ہماری قومی سیاسی تاریخ پیر پگارا کو کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتی ۔

مسلم لیگ کے پیر پگارا کے جنرل ضیاء الحق سے گہرے مراسم قائم تھے ۔1983میں مسلم لیگ پگارا گروپ نے اے آر ڈی کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی ۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جن کے نتیجے میں 1973کے دستور کو کافی حد تک بحال کر دیا گیا ۔ ملک کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کی بحالی اور تشکیل کا عمل شروع کیا تو سرکاری مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جسے پاکستان مسلم لیگ کے نام سے موسوم کیا گیا ۔

یہ ایک طرح سے وہی گروہ تھا جس کی اکثریت کبھی پیر پگارا گروپ سے متعلق تھی ۔ خود محمد خان جونیجو بھی پگارا مسلم لیگ کے رکن تھے اور بقول پیر صاحب انہوں نے اپنا مرید حکومت کو ادھار دیا تھا ۔ دوسری جانب ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفی ٰچلانے والے تمام سیاسی قائدین جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہوگئے اور وزارتیں قبول کیں۔

میاں طفیل محمد جو اس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے ان کے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ خوشگوار مراسم قائم رہے ۔ پیر پگارا تو جماعت اسلامی کو فوج کی بی ٹیم کہا کرتے تھے ۔ فوجی جرنیلوں سے تعاون اور مناصب قبول کرنے میں نواب زادہ نصراللہ بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے بھی پاکستان جمہوری پارٹی کے چودھری ارشد کو جنر ل ضیاء الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر بنا لیا۔

عسکری اداروں اور فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے ضمن میں اے این پی کی بیگم ولی خان کا یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے جس میں بیگم ولی خان کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں جب نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان بھٹو کے زیر عتاب آئے تو وہ جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگا کرتی تھیں کہ فوج آئے اور انہیں بھٹو سے نجات دلائے ۔

اسی طرح آج جو صاحب اقتدار ہوئے پھرتے ہیں شائد فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں وہ پاکستان مسلم لیگ کے پنجاب کے صدر تھے اور جنرل ضیاء الحق کے اشارے پر ہی انہوں نے مسلم لیگ ہاؤس لاہور پر قبضہ کر لیا اور یوں مسلم لیگ (ن) وجود میں آگئی ۔ تحریک انصاف ایک نئی سیاسی جماعت ہے اس کی سیاسی زندگی میں ایک ہی مارشل لاآیا اور وہ اس کی حمائت میں اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔

یوں تحریک انصاف بھی فوجی آمروں کو سیاسی حمائت فراہم کرنے کے ”جرم“میں براہ راست ملوث رہی ۔
اس میں چنداں تردد نہیں کہ معاملاتِ سیاست میں فوج یا عسکری اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہئے یہ ایک غیر آئینی اور غیر سیاسی طرز عمل ہے مگر جو سیاسی زعما اس فعل کی مذمت کررہے ہیں کیا وہ خود کبھی اس کے مرتکب نہیں ٹھہرے یا مستقبل میں کبھی ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے ؟۔ مکرر عرض کرتا ہوں ہم اس سماج میں رہائش پذیر ہیں جو دور نگی اور منافقت کا شکار ہے۔یہاں مفادات کے حصول کی خاطر نظریات و خیالات کو تغیر سے ہمکنار کرنامعیوب خیال نہیں کیا جاتا بلکہ ڈھٹائی سے اپنے سابقہ موقف اور طرز عمل کے برعکس استدلال پیش کئے جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :