ریلوے کیبن سے

جمعہ 14 نومبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

یوں تو ہر شخص ہی ریل گاڑی اور ریل کے سفر سے آشنا ہے بچے کیا، بوڑھے کیا، جوان کیا ، مرد ہو یا عورت سبھی اس حیرت انگیز ایجاد سے واقف ہیں۔ بہت سے لوگ ریل کا سفر معمولات میں شامل کیے ہیں ۔ بیشتر ایسے ہیں جو فقط عید شب برات پر اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے دور افتادہ مقامات کے سفر کے لیے ریل گاڑی کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں لیکن ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی موجود ہے جن بیچاروں نے ریل گاڑی کو کتابوں ، رسالوں یا ٹیلی وژن پر ہی دیکھا ہے مگر اس کے سفر سے محروم ہی رہے ۔

مشہور مقولہ ہے ؛ ”جیہنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا نئیں “ ایسے ہی جس شخص نے ریل گاڑی کے سفر کا نظارہ نہیں کیا وہ بھی ایک دلچسپ سفر کی لذت سے بعید رہا ۔
ریلوے انجن کے بانی ”جارج سٹیفن سن “ نے جب سٹیم انجن ایجاد کیا ہوگا تو اس کے ذہن میں اس وقت یہ ہرگز نہ ہو گا کہ ایک دن ریلوے کے جنکشن وغیرہ بنیں گے۔

(جاری ہے)

کانٹا کا نظام رائج ہوگا اور یہ ریل اپنی تدریجی سٹیج سے بہت آگے نکل کر بُلٹ ٹرین تک جا پہنچے گی ۔

لیکن وقت کے پہیے نے یہ ثابت کر دیا کہ سائنس کی ترقی کسی مقام پر جامد نہیں ہو سکتی ، ہاں انسان اپنے فانی جسم کو منوں مٹی کی نذر کر کے عالم ارواح میں واپس جا سکتا ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ریل کی رفتار سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے وہاں یہ سفر اتنا ہی مقبول عام ، آرام دہ اور محفوظ ہوتا ہے ۔ آپ ٹرین کے ڈبے میں کیا بیٹھے گویا آپ ڈرائینگ روم میں دوستوں کے ساتھ گفتگو فرما رہے ہیں اور چائے کا کپ ابھی ہاتھ میں ہے ، آخری چسکی باقی ہے کہ آپ کا سٹیشن آگیا اور آپ چل دیئے قربا ن جائیے وطن عزیز کے ریلوے سسٹم پر کہ جہاں مسافر پریشان ، اپنے سامان کے چوری ہوجانے کے خدشات و خطرات اور جیبوں کی صفائی ہونے کا خوف دامن گیر رہتا ہے ۔

اوپر سے ڈبوں (بوگیوں ) میں مسافروں کا ایسا ہجوم کہ الامان ___ دھکم پیل اور شور شرابے سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے کسی احتجاجی جلوس میں شامل ہو کر نعرہ بازی کی جارہی ہو ۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ رہے فرش ، کوری ڈور اور گیٹ گویا جان ہتھیلی پررکھ کر میدان کار زار میں اتر گیا ہو اور کسی منچلے نے بوگی کی دیوار پر کچھ اس انداز میں لکھا ہوتا ہے ۔

”ذکر خدا میں مشغول رہیئے، ہو سکتا ہے کہ یہ سفر آپ کا آخری سفر ہو “ ۔
ذکر خدامیں مشغول رہنا تو رب ہر مسلمان کو نصیب کرے لیکن ذکر خدا کروانے کا طریقہ کس قدر دلچسپ ہے کہ موت کو سر پر منڈلاتے دکھایا گیا ہے ۔ یقین کریں کہ میں تو جب بھی ایسا جملہ پڑھ لیتا ہوں تو سب سے پہلے سفر کی دعا ، پھر ایت الکرسی اور کچھ مزید قرآنی سورتیں اور آخر میں کلمہ طیب پڑھ کر اپنے آپ کو سپردِ خدا کر دیتا ہوں کیونکہ کیا معلوم کب ہمارے ڈرائیور صاحب ٹرین کا رخ کسی شہر کی جانب جانے والی بند پٹڑی پر کر دیں ، کب کوئی پھاٹک والا لاپرواہی کا مظاہر کر دے اور کب کوئی کانٹا غلط بدل کر کسی بڑے حادثے کا سبب بن جائے ۔


وطن عزیز کی ریل گاڑی میں سفر کرنے کے لیے مسافروں کو ”زادِ راہ “ ضرور ساتھ لینا چاہیے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر آپ کی رہنمائی کو مد نظر رکھتے ہوئے گزارش ہے کہ اگر موسم سرما میں ریلوے کے سفر کا لطف اٹھانا ہو تو آپ کے پاس اپنی رضائی ہونی چاہیئے ، اگر دستی ہیٹر بھی ساتھ ہوتو سونے پر سہاگہ ، نمونیہ وغیرہ کی ادویات سفر سے قبل کسی مسند ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ساتھ لینا نا گزیر ہیں ۔

اگر موسم گرما ہوتو ہاتھ والا جھالر لگا پنکھاہمراہ ہو کیونکہ بوگی میں موجود پنکھے اس لیے نصب کیے گئے ہیں تا کہ مسافر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصاویر اتروا سکیں ۔ پانی کا ایک کولر ساتھ ہونا ناگزیر ہے ۔ اورتما موسموں میں محمدی بستر پر سونے کی عادت اپنانا از بس ضروری ہے کیونکہ کسی بھی وقت انجن فیل ہوسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں چند دن کا راشن ساتھ رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

انجن فیل ہو جانے کی صورت میں ”سرکاری بریانی “ سے لطف اندوز ہونا بھی بسا اوقات ریل کے سفر کا ایک حصہ بن جاتا ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل جو کام انگریزوں نے کیا ، ہم آج تک اسی پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ۔ پھاٹک کا نظام جو لیور سسٹم تھا اب ناکارہ ہو چکا ہے اور پھاٹک والا بھاگ بھاگ کر پٹ کھولتا اور بند کرتا ہے ۔ کانٹا بدلنے کا کیبن اپنی تاریخی داستان دہراتے ہوئے اسی نظام کے رحم و کرم پر ہے جو ” پتھر کے دور “ میں رائج تھا ۔

سگنل کے لیے وہی پرانی لالٹین نما لائیٹ جسے ماچس کی تیلی کے ساتھ روشن کیا جاتا ہے ۔گو کہ اس نظا م کو بہتر بنانے کے لیے حکومت نے L.E.Dلائیٹ کا ٹیسٹ بھی کیا لیکن وہ ”چائنہ کا مال“ ہونے کی وجہ سے جلد ہی فیل ہو گئیں ۔وطنِ عزیز ناکارہ انجنوں میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے البتہ ریلوے کے نظام کو بیساکھی پر کھڑا تو کیا ہے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ریلویز کے ذمہ داران ریلوے کو وقت کا پابند کریں اور سہولیات کی مناسب فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ عوام الناس ریلوے میں سفر کرنے کو ترجیح دیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :