لمیٹڈ کمپنی

بدھ 12 نومبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

حکمران جماعت پر آج کل یہ الزام تواتر سے لگایا جا رہا ہے کہ یہ وطن عزیز کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ چلا رہے ہیں اور اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کا کم و بیش پورا خاندان اس وقت کسی نہ کسی عہدے پر ہے۔ سمدھی وزیر خزانہ ہیں۔ بھائی سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ایک صاحب پانی و بجلی کے وزیر مملکت۔ بھتیجا اہم اختیارات کے ساتھ اہم فیصلوں تک میں شامل(ڈپٹی وزیر اعلیٰ)۔

بیٹی ایک بڑے سرمائے کی نگران (کم و بیش 100 ارب روپے کی سکیم کی چیئر پرسن)۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے عہدے جن کا ذکر اس کالم کی طوالت کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن میں اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا کہ حکمران جماعت اس ملک کو کسی بھی طرح لمیٹڈ کمپنی یا نجی ملکیت ادارے کے طور پہ چلا رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں لوگوں کے اندازے مکمل طور پر غلط ہیں۔ بلا وجہ حکمران جماعت اور ان کے کرتا دھرتا نمائندوں کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔


کسی بھی کمپنی کی کامیابی کی ضمانت اس میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ کمپنی کو صف اول کی کمپنیوں میں شامل کرنے کے لیے ہر شعبے میں ماہر افراد کا تقرر کرے اس سلسلے میں افرادی قوت کے شعبے کو بھی ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ نوجوان اور قابل دماغ کمپنی کا اثاثہ بنائے جائیں۔

شاید آپ کو میری باتیں سمجھنے میں دقت ہو رہی ہو گی لہذا آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
سعودی عرب میں ایک سٹیل مل ہے جس کا نام ہل میٹلز (Hill Metals) ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کا اس بزنس میں خاندانی تجربہ بھی ہے کیوں کہ ان کے داد نے یہ کام 1939 میں شروع کیا تھا۔ پھر 2002 میں العزیزیہ کے نام سے ایک سٹیل کمپنی قائم کی گئی۔پھر 2005 میں مذکورہ کمپنی یعنی ہل میٹلز کا قیام عمل میں آیا۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کمپنی ترقی کے زینے طے کرتی گئی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں عہدوں کے لیے میرٹ پہ ہونا شرط تھی۔ اس کے علاوہ اس کمپنی میں ہر ممکن حد تک کوشش کی گئی کہ نوجوان قیادت رکھی جائے جو کمپنی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے علاوہ خریداروں کے ساتھ بہتر تعلقات پر بھی بہت توجہ دی گئی جس کی وجہ سے اس کمپنی کی مقبولیت بڑھتی گئی۔

2007 میں اس کمپنی میں نئے پلانٹ لگائے گئے جو اس کی ترقی کا ثبوت تھا۔ 2012 میں رولنگ مل پلانٹس کا اضافہ کیا گیا۔
اگر آپ اس کمپنی کی پروفائل دیکھیں تو اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کمپنی کا خاصہ خود احتسابی ہے اس کے علاوہ ذیلی خوبیوں میں معیار کو یقینی بنانا ، ملازمین کا تحفظ، ماحولیاتی تحفظ،ملازمین کا معاشی تحفظ، ملازمین کی فلاح و بہبود،شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کے بقول 2015 پلان پر بھی عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی پیداواری صلاحیت دو گنا ہو جائے گی۔ اور جو کمپنی اس وقت سعودی عرب کی اہم کمپنیوں میں شامل ہوتی ہے دنیا کی بہترین کمپنیوں سے مقابلے کی سطح پر آ جائے گی ۔
جیسے اس وقت میں اس کمپنی کی پروفائل کا مطالعہ رشک کے ساتھ کر رہا ہوں ویسے ہی شاید دیگر بہت سے قارئین بھی ان لفظوں کو پڑھنے کے ساتھ اس کمپنی کے مالکان کو داد دے رہے ہوں گے ۔

اور داد دینی بھی چاہیے کیوں کہ اس کمپنی کے مالکان بھی کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں۔ اس کمپنی کی تاریخ میں جس شخصیت کا نام 1939 کے سال میں درج ہے وہ مرحوم میاں محمد شریف صاحب کا ہے۔ شاید آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر حسین نواز شریف ہیں۔ اور یہ کمپنی اس وقت سعودی عرب میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اس کمپنی کی ویب سائٹ پر آپ کو میاں محمد نواز شریف ، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ، کے بیٹے کا نام ، حسین۔

این۔شریف لکھا نظر آئے گا۔ شاید جگہ کی کمی تھی۔ بہر حال اس کمپنی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس میں اقرباء پروری نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کمپنی ایک کامیاب ادارہ بن چکی ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر تو حسین نواز خود ہیں ہی لیکن آپ کو چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈائیریکٹر آپریشنز،چیف مارکیٹنگ آفیسر، چیف فنانس آفیسر وغیرہ کے عہدوں پر بھی آ پ کو نوجوان چہرے دکھائی دیں گے۔

اور سب سے خاص بات کے ان میں سے اکثر عہدوں پر پاکستانی لوگ ہی فائز ہیں۔ یعنی قابل پاکستانی۔وجہ صرف یہ ہے کہ یہ میاں خاندان کی ذاتی کمپنی ہے جسے وہ کسی بھی صورت نقصان میں جاتا نہیں دیکھ سکتے ۔
کاش ہمارے حکمران اس ملک کو بھی اپنی کوئی لمیٹڈ کمپنی سمجھ کے ہی چلاتے ۔ کیوں کہ اب تک اس ملک کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر تو چلایا ہی نہیں گیا اگر ایسا ہوتا تو ہمیں آج مختلف عہدوں پر خاندان کے چہرے نظر نہ آتے ۔

لہذا یہ دلیل تو بالکل ناقص ہے کہ اس وقت حکمران اس ملک کو لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اگر وہ اس کو ایسا سمجھ کے چلا رہے ہوتے تو اس وقت ملک کے اہم عہدوں پر اس شعبے کے ماہر افراد بیٹھے ہوتے۔ بجلی کا شعبے کا وزیر مملکت کوئی ایسا فرد ہوتا جو اس کو راتوں رات اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتا ۔ اگر یہ ملک لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ چل رہا ہوتا تو اس وقت ریلوے کی وزارت تعلقات کے بجائے کیسی ایسے فرد کے پاس ہوتی جو اس قیمتی ترین زمین کے مالک ادارے کو ایک سال کے اندر منافع بخش ادارہ بنا چکا ہوتا۔

اگر اس ملک کی حیثیت اشرافیہ کی نظر میں ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ ہوتی تو اس وقت اس کا مالک امریکہ کے مہنگے ترین ہوٹل کے بجائے پاکستان کے سفارتخانے کے کسی کمرے میں قیام پذیر ہوتا۔ اگر یہ ملک واقعی ایک لمیٹڈ کمپنی کا درجہ رکھتا تو شاید اس وقت اس کا وزیر خزانہ کوئی ایسا شخص ہوتا جو اس ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کے بجائے اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتا۔

اگر یہ ملک ایک لمیٹڈ کمپنی ہی ہوتا تو شاید اس وقت ہر سرکاری محکمے کا سربراہ وہ شخص ہوتا جو اس کا اہل ہوتا۔ اگر یہ ملک ایک لمیٹڈ کمپنی سمجھا جاتا تو اس وقت نیب، نادرا، ایف آئی اے، الیکشن کمیشن ، پیمرا، اور دیگر بہت سے ادارے اپنے کام آزادانہ بغیر کسی سیاسی دباؤ کے کر رہے ہوتے۔
لیکن صد افسوس! کہ اس ملک کو لمیٹڈ کمپنی ہی تو نہیں سمجھا گیا۔

اس کو نہ تو ایک آزاد مملکت کے طور پر ترقی دی گئی ۔ نہ ہی اس کو ایک لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ بلکہ اس کہ ایک ایسی جاگیر سمجھا گیا جس کو دن بدن بس نچوڑا گیا اس کو ترقی دینے کے نہیں سوچا گیا۔ جب مکمل نچوڑ لیا گیا تو تازہ رس کے لیے تو IMF، WB، ADB، وغیرہ جیسے مالیاتی اداروں سے رجوع کر لیا گیا۔ اس ملک پہ جب بھی کوئی حکمران بنا اس نے یہی سوچ کر حکمرانی کی کہ جتنا سمیٹنا ہے ابھی سمیٹنا ہے۔

اور اقتدار کے دن ختم ہوتے ہیں اس دھرتی کے سینے پر ایستادہ محلات ان کے منتظر ہوتے تھے۔ اور بد قسمتی سے آج تک یہی صورت حال باقی ہے۔ یہ صورت تب تک باقی رہے گی جب اس ملک کا عام آدمی فرعونیت کے سامنے کھڑا نہیں ہو جاتا۔ آج کے حکمران بھی اگر اس ملک کو ایک ذاتی لمیٹڈ کمپنی سمجھ کے ہی چلا لیں تو پھر بھی عوام ان کو کاندھوں پہ سوار کر کے ان کے احسان مند ہوں گے۔ لیکن اگر حکران اشرافیہ اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کا مال سمجھ کے ہی چلانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اس وقت کا ڈر بھی دکھنا ہو گا جب یہی عام آدمی انہیں کندھوں پر ہی سوار کر کے اٹھا باہر کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :