نئے اور پرانے بادشاہوں میں فرق

پیر 10 نومبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

آس پاس دیکھتے ہوئے سرگوشی میں کہا بیٹاتمہیں کیا بتاوں اک عرصے سے میں نیپیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ۔بیوی جب بھی میرے سامنے کھانہ پروستی ہے تو یہ سوچ کر کم کھاتا ہوں کہ چلو بچے پیٹ بھر کر کھا لیں گے۔ دوسرئے سے پوچھا چچا یہ دُکان کو کیا ہوا ہے تو خشک میوہ جات کی چھوٹی سی دُکان چلانے والے نے کہا کہ پچھلے دنوں بارشیں ہوئی ہیں اُن کی وجہ سے دیواروں میں پانی بھر گیا تھا جس کی وجہ سے دیوار میں لگے ریک گِر گئے اُور اُن میں پڑا سارا سامان ناکارہ ہو گیا۔

میں نے کہا کہ نیا بنوا لیں تو کہنے لگے کہ بیٹا بجلی کے بل ادا کرو تو بچوں کی سکول فیس کی تاریخ آجاتی ہے وہ جمع کرواؤ تو ماں کی دوا لانی پڑجاتی ہے۔ مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ دو وقت کا کھانا کھانہ مشکل ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ دو لوگ پاکستان کے کسی دور دراز علاقے کے رہنے والے نہیں ،نہ ہی کسی گاؤں یا کچی آبادی کے مکین ہیں بلکہ پاکستان کے دوسرئے بڑئے شہر لاہور کے رہنے والے سفید پوش ہیں۔

ان کی حالت سے اندازہ لگائیں کہ عام پاکستانی کی زندگی کا معیار کیا ہوگا۔
ہم کہتے ہیں دُنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک تو تو میں میں سے ہی آگے نہیں بڑھ سکے۔ جس کو دیکھو ایک دوسرئے کو کھانے کو دوڑتا ہے۔ نوکری کرنے والا اپنے دکھڑئے سنائے گا تو کاروبار کرنے والے کے مسائل الگ ہیں۔ لیکن پریشان سب کے سب ہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا پیٹ بھرا ہو تو سب دوست ہوتے ہیں اگر خالی ہو تو اپنے بھی پرائے بن جاتے ہیں۔

پریشانی کے اس عالم میں کوئی ایک دوسرئے کی کیا مددکرسکتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ابن بطوطہ کا سفر نامہ ہند پڑھنے کو ملا پڑھ کر جوحیرت کے پہار ہم پر گرئے اللہ کسی پر نہ گرائے۔ ابن بطوطہ اپنے سفرہندوستان کے دوران زیادہ تر مسلمان حکمرانوں سے ملا جس طرح اُس نے ماضی کے حکمرانوں کا حال بیان کیا ہے اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ موجودہ حکمران بھی اُسی روش پر چل رہے ہیں دونوں میں ایک فرق ضرور ہے کہ وہ تخت کے لیے اپنوں کا خون بہایا کرتے تھے یہ تخت کے لیے اپنے پورے خاندان کو اقتدار میں شامل کر لیتے ہیں کہ کسی اور کو شامل اقتدار کرنا ان کو گوارہ نہیں۔

باقی تما م باتیں تقریبا مشترکہ ہی ہیں ایک مسلمان بادشا ہ کے استقبال کے بارئے میں ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ ابھی محل سے سات میل دور تھا کہ شہر کے باسیوں کے ساتھ ساتھ ہم پردیسوں کوبھی حکم ملا کہ بادشاہ کے استقبال کے لیے چلیں۔ لہذا ہم بادشاہ کے استقبال کے لیے باہر نکلے تو ہر ایک کے پاس نذر کے واسطے گھوڑئے،خراسانی میوئے ،مصری ،تلواریں غلام اور ترکستانی دنبے تھے جب ہم بادشاہ کے پاس پہنچے تو ہم نے تمام چیزیں بادشاہ کے حضور پیش کردی۔

پھر بادشاہ نے خوش ہو کر ہم سب کو ہماری بساط کے مطابق انعام و کرام سے نوازا کسی کو جاگیر ملی تو کسی کو سونے کے ہار۔ کسی کو امیری نصیب ہوئی تو کسی کو کنیزوں کی قطار کسی کو خلعت اور مختلف علاقوں کی حکمرانی نصیب ہوئی۔ آجکل بھی یہی حالت ہے جب وزیر آعظم ،وزیر یا صدر کہیں پہنچتا ہے تو اُسے استقبال کی مد میں بہت سی چیزیں عطا کی جاتی ساتھ ساتھ چاپلوسی کا تڑکہ الگ سے لگایا جاتا ہے جس سے خوش ہو کر صاحب اقتدار کسی کو مشیر لگا دیتے ہیں تو کسی کو وزیر۔

کسی کو میٹرو کا صدر بنادیا جاتا ہے تو کسی کو الحمرا کی چیرمین شپ مل جاتی ہے کوئی پی سی بی کا صدر چنا جاتا ہے تو کوئی ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر ددیتاہے کسی کو وائس چانسلر بنا دیا جاتا ہے تو کسی کو سفارت کاری سونپ دی جاتی ہے۔
پھر ایک اور جگہ بادشاہ سلامت کی سواری کے بارے میں ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ محل میں داخل ہونے کے لیے ایک اعلیٰ شان نسل کے گھوڑئے کا استعمال کرتے ہیں آس پاس عوام کا ہجوم ہے سب کے سب باشاہ سلامت پرپھول نچاور کر رہے ہیں۔

کسی کو گھر میں رہنے کی اجازت نہیں سب کے لیے لازم ہے کہ بادشا ہ کی سوار ی کی تعظیم کرئے۔ بادشاہ کی سواری کے آگے آگے سولہ ہاتھی تھے جن کو آراستہ کیا گیا تھا اور ان ہاتھیوں پر نشان یعنی علم بلند کیے گئے تھے اور ہر ایک ہاتھی پر ایک ایک چھتر لگا ہوا تھا ہیرے جوہرات کی بھرمار تھی انسان تو بھوکے ننگے کھڑئے تھے مگر تمام جانوروں کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔

رستے کے تمام برجوں کو بہترین ریشمی کپڑئے سے منڈھا گیا تھا۔ آگے آگے ناچنے گانے والی عورتوں کی بھرمار تھی۔ جن پالکیوں میں ملکائیں سوار تھیں وہ سب کی سب سونے چاندی سے لبریز تھیں۔ اب موجودہ دور کے حکمرانوں کو دیکھ لیں جب کسی سڑک سے گزرتے ہیں تو پورئے روٹ پر پولیس والے کھڑئے کر دیے جاتے ہیں۔ پروٹوکول کے نام پر تمام سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں عورتیں ایمبولینسز میں بچے پیدا کر دیتی ہیں۔

لوگ دفتر جانے سے لیٹ ہو جاتے ہیں بچے سکول وقت پر نہیں پہنچ پاتے۔ مریض رستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاڑیوں میں علم کی جگہ جھنڈا لگا ہوتا ہے جو سرکاری رعب دبدبے کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ سونے چاندی اور جوہرات سے زیادہ مہنگی گاڑیوں پر سفر کیا جاتا ہے۔ قافلے میں درجنوں کے حساب سے کروڑوں کی گاڑیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ جس جگہ پہنچنا ہوتا ہے وہاں کرفیو کا سا سماں ہوتا ہے۔

چاپلوس ہاتھوں میں پھولوں کی مالائیں لیے گھنٹوں انتطار کرتے رہتے ہیں۔
بادشاہ کے شکار کے شوق کو بیان کرتے ہوئے ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ جب شکار کے لیے قافلہ تیار ہو گیا تو بادشاہ کے لیے ایک ہاتھی پر سیڑھی لگائی گی اور وہ اُس ہاتھی پر سوار ہو گئے۔ بادشاہ کے دائیں طرف پندرہ نوکر چاکر کھڑئے تھے اور بائیں طرف بھی اتنے ہی موجود تھے ۔

پھر وزیر اور مشیران کو بھی ہاتھیوں پر سوار کروایا گیا۔ بادشا کے آگے پیدل اور راہبر ہوتے ہیں پیچھے پیچھے شاہی غلام اور خادم ہوتے ہیں۔ یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ شکار کے لیے نہیں بلکہ کسی جنگ میں جارہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے موجودہ بادشاہوں نے جب کسی دوسرئے ملک کا دورا کرنا ہوتا ہے تو رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ بہت سے دوست احباب کو بھی ساتھ لے لیا جاتا ہے۔

مہنگے مہنگے ہوٹلوں کی بکنگ بہت پہلے سے ہی کروا لی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دورئے کا نتیجہ سوائے کچھ یاداشتوں پر دستخط کرنے کے کچھ نہیں نکلتا۔
بادشاہ حضور کے کھانے کے بارئے میں لکھا ہے کہجب عالی جاہ کا ستر خواں سجایا جاتا ہے تو دُنیا جہاں کی نعمتیں اُس میں رکھی جاتی ہیں ،ہرنی کے گوشت سے لے کر دنبے تک ،پھل،مرغی،تیتر بٹیر ،بکرئے،اونٹ اور پتا نہیں کیا کیا دسترخوان میں سجایا جاتا ہے جس کا عام رعایا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

جتنا بادشاہ سے اور اُس کے لوگوں سے کھایا جاتا ہے اُتنا کھا لیا جاتا ہے باقی سب کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ اُس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک سابقہ صد ر کی جب موجودہ وزیر آعظم صاحب نے دعوت کی تو اخباروں نے ڈشوں کی تعداد اتنی بتائی کہ منہ میں پانی آگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب کبھی ہمارے "خادم"سینٹ اور اسمبلی کے اجلاسوں میں ہمارے لیے قانون سازی کرنے جاتے ہیں تو صرف لاکھوں کروڑوں کاٹیکہ اس عوام کو کھانے کی مد میں لگ جاتا ہے۔

یہ تو صرف ایک چھوٹی سی جھلک تھی حکمرانوں کی اگر تفصیل سے لکھنے بیٹھ جائیں تو اُس کے لیے کئی کاغذوں کے کئی کارخانے بھی کم پڑئیں گے۔ افسو س کی بات تو یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی اتنی مشکل کر دی گئی ہے کہ اس کو بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں اخبارات میں روز کرپشن کی خبریں چھپتی ہیں مگر ان کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ملکی مسائل میں کمی ہونے کی بچائے اضافہ ہو رہا ہے لوگ خود کشی کو اپنے مسائل کا سب سے آسان حل سمجھتے ہیں کوئی گردئے بیچنے کو تیار ہے تو کسی نے بچے بیچنے کے لیے کارڈ اُٹھا رکھا ہے۔

کوئی بجلی کے بل کو دیکھ کر رو رہا ہے تو کوئی بجلی نہ آنے کو رو رہا ہے۔ کسی کو گیس مہنگی ہونے کی خبر نے پریشان کر دیا ہے تو ماں گیس نا ہونے کی وجہ سے بچوں کے لیے کھانا نہیں بنا سکتی۔ لگتا ہے حکمران جیسے کئی سو سال پہلے حرکتیں کرتے تھے ویسے ہی آنے والے کئی سو سالوں میں بھی کرتے رہے گے اور عوام اسی طرح مسائل سے لڑ لڑ کر اپنی جانیں دیتے رہے گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :