اقبال ۔۔۔۔۔ ایک حقیقی عاشق رسول

پیر 10 نومبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

علامہ محمد ٰقبال، شاعر مشرق ، ایک عظیم فلسفی اور مفکر کو تمام عالم جانتا ہے کہ وہ وجہ پاکستان ہیں کہ انہی کے دم قدم سے آج ہم آزاد فضاؤ ں میں سانس لے رہے ہیں۔علامہ محمد اقبال جہاں تمام دوسری خصوصیات کے حامل تھے وہاں وہ ایک سچے عاشق رسول بھی تھے۔اسلام اور رسول اکرمﷺ کی محبت ان میں عشق کی حد تک تھی۔ اقبال کی والدہ بھی بڑی نیت سیرت، عبادت گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔

اقبال کی تربیت ایسے خدا رسیدہ والدین کے زیر سایہ ہوئی۔ اس تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود ان کے اندر درویشی، قناعت اور استغنا کی صفت پیدا ہو گئی اور یہ انہی والدین کا فیضان تھا کہ اقبال نے اپنی ساری زندگی ایک مرد مومن کی حیثیت سے گزاری۔ وہ اپنے والد کو اسی نگاہ سے دیکھتے تھے جس نگاہ سے کوئی پیر اپنے مرید کو دیکھتا ہے۔

(جاری ہے)

اور جب بھی موقع ملتا، وہ سیالکوٹ تشریف لے جاتے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے۔

چنانچہ وہ اکبر الہ آبادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں،
”واقعی آپ نے سچ فرمایا کہ ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ شفقت ایک طرف - اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کی بجائے اِن کی گرمی محبت سے مستفید ہوتا ہوں ۔پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز نے کا ذکر کررہے تھے جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا ۔

دوران ِ گفتگو کہنے لگے- ”معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے “ ۔ اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تقریباً بے ہوش ہوگئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی ۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیران ِ مشرقی سے ہی مل سکتے ہیں ۔ یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں ۔اقبال کو حصول ِ علم کا بچپن ہی سے بہت زیادہ شوق تھا ۔ آپ رات کو نیند میں اُٹھ اُٹھ کر پڑھتے رہتے تھے اس سلسلے میں خالد نظیر صوفی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
”پانچ چھ برس کی عمر میں پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا ۔

شمع علم سے اُنھیں والہانہ عشق تھا ۔حصول علم کے لیے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ رات کو نیند میں اُٹھ اُٹھ کر پڑھتے تھے ۔ شاید قدرت اُنھیں جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ علوم سے بہرہ مند کرنے کا انتظام کر رہی تھی ۔ایک دفع نصف شب کے وقت بے جی ( والدہ اقبال ) کی ا ٓنکھ اچانک کھل گئی تو انھوں نے نانا جان (علامہ اقبال) کو دیے کے قریب بیٹھے سکول کاکام کرتے ہو ئے پایا ۔

دو ایک آوازیں دیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔انھوں نے اُٹھ کر شانوں سے پکڑ کر ہلایا ۔اور کہا اقبال آدھی رات کو کیا پڑھ رہے ہو ؟ اٹھو سو جاؤ ! جواب دیا -بے جی سویا ہوا تو ہوں ۔،،
اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بو سیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کی نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے؛ اقبال  نہ صرف ان کو مانتے اور ان پر عمل کرتے تھے بلکہ برملا ان کی حمایت کرتے تھے اور اُن کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا ۔

اس کی ایک معولی سی مثال سُن لیجیئے ۔ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا ۔ یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا گیا مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ، ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے ۔اقبال نے اس شرط یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ ”میں بے شک ایک گنہگار آدمی ہوں ۔

احکام ِ اسلامی کی پابندی میں بہت کوتاہییاں مُجھ سے ہوتی ہیں مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کا حکم توڑ دوں َ
ٓاقبال  بچپن ہی سے روزانہ بعد نماز ِ صبح قرآن مجید کی تلاوت نہایت پابندی اور ذوق و شوق سے کرتے تھے ۔اسی ذوق و شوق کو دیکھ کر آپ کے والد نے آپ کو نصیحت کی تھی کہ -”جب قرآن مجید پڑھو تو یہ سمجھو کہ تم ہی پر اُتر رہا ہے یعنی کہ اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے “۔

اقبال نے اس نصیحت پر پوری دل سوزی کے ساتھ عمل کیا ۔آپ کے احباب کا کہنا ہے کہ ” وہ بلاناغہ صبح کے وقت اس کی تلاوت ایسے ذوق و شوق ، ایسے دردومحبت اور ایسے سوزو گداز کے ساتھ کیا کرتے تھے کہ آنسوؤں کا تار بند ھ جاتا تھا ۔ روتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے ، یہاں تک کہ کتاب عزیز کے اوراق بھیگ جاتے ۔ جب تلاوت ختم ہو جاتی تو اُسے اُٹھا کر دھوپ میں رکھ دیتے تاکہ صفحے خشک ہو جائیں ۔

مدت العمر تک ان کا یہی دستور رہا “ مرزا جلال الدین اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ ۔
” مطالب ِ قرآنی پر اُن کی نظر ہمیشہ رہتی ۔کلام پاک کو پڑھتے تو ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران میں جب وہ بہ آواز ِ بلند پڑھتے تو وہ آیاتِ قرآنی پر فکر کرتے اور ان سے متاثر ہو کر رو پڑتے تھے ۔ مولوی اُبو محمد مصلح بھی لکھتے ہیں کہ اقبال بہ آوازِ بلند بڑے ذوق و شوق سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے جس سے آپ کے قلبی جوش کا اظہار ہوتا تھا اور ”قال ، حال “ بن جاتا تھا ۔

قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اقبال  ہمیشہ صوم و صلوة کے پابند، شب بیدار اور سحر خیز رہے ۔چُنان چہ قیام یورپ اور سحر خیزی سے متعلق آپ کا یہ شعر #
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
بڑی خوبی سے آپ کی شخصیت کے صوفیانہ اور قلندرانہ پہلو کی عکاسی کرتا ہے ۔ یورپ سے واپس آنے کے بعد یہ مذہبی رنگ اور بھی پختہ ہو گیا ، یہاں تک کہ آپ ” نماز تہجد “ کے پابند ہوگئے تھے ۔

چنا ن چہ ۱۹۱۶ءء میں مہا راجہ سرکشن پر شاد کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ؛
”سردی آرہی ہے ۔ صبح چار بجے کبھی تین بجے اُٹھتا ہوں ، پھر اس کے بعد نہیں سوتا ؛ سوائے اس کہ کبھی مصلّے پر اونگھ جاؤں ۔اقبال نماز کو” مومن کی معراج“ سمجھتے ہیں ۔آپ کا یہ فرمانا بجا ہے کہ ۔
شوق ترا گر نہ ہو ، میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب
یہ مرد ِ قلندر اور حقیقی عاشقِ رسول اپنی قوم کو جگا کر انگریزوں سے پاکستان کی شکل میں اپنا حق لینے کے قابل کر گیا لیکن خود پاکستان کو نہ دیکھ سکا اور 21اپریل 1938ءء کو اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گیا ۔


سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :