میاں صاحبان! ابھی بھی وقت ہے

ہفتہ 8 نومبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اقتدار پاس ہو تو ساری مشکلات آسانیوں میں بدل جاتی ہیں اور دشمن بھی اس وقت دوست دکھائی دیتے ہیں اور اگر اقتدار کی چربی آنکھوں پر چڑھ جائے تو پھر دوست بھی دشمن دکھائی دیتے ہیں ‘یعنی اقتدار کاہما سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے ‘ایسے لمحات میں حقیقی لیڈران کا پتہ چلتاہے کہ وہ کس انداز میں اپنے مشکل وقتوں کے دوستوں کی قدر کرتا ہے اور کس مخلص ساتھیوں سے مشاورت کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔

حدیث مبارکہ ہے کہ ”کوئی بھی فعل انجام دینے سے پہلے مشاورت کرلو “ اس ابتدائیہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا 12اکتوبر1999 کے مابعد پیش آنیوالے حالات کو دیکھ لیجئے کہ جونہی بھاری مینڈیٹ والی مسلم لیگی حکومت پر آمر وقت نے ”ٹیک اوور “‘ کیا تو اس بھاری مینڈیٹ والی بھاری بھرکم کابینہ میں سے چند لوگ ہی احتجا ج کرتے پائے گئے‘ پاکستانی سیاست کا المیہ رہا ہے کہ یہاں جونہی کسی آمر وقت نے اقتدار پر قبضہ جمایا ‘سیاستدانوں کا ایک ٹولہ اس کا خیر خواہ بن کر ہلہ شیری دینے کو فوراً ہی میدان میں اتر آیا اور پھر یہ بھی الگ افسوسناک کہانی ہے کہ ہر آمر نے مسلم لیگ کی نئی شاخ کھڑی کردی۔

(جاری ہے)

خیر پرویز مشرف نے جونہی ٹیک اوور کیا تو اسکے ذہن میں تھا کہ حامی سیاستدانوں کاحلقہ تیار کرکے ایک جماعت کھڑی کرنی ہے پھر اسی دوران مسلم لیگ ‘پیپلزپارٹی سمیت کئی جماعتوں پر راتوں رات دھاوابول کر ”مسلم لیگ ق “ کی تشکیل کی گئی ۔ اس سے قبل جب میاں برادران جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو1996-97سے1999تک اقتدار کے جھولوں میں جھولنے والے کہیں نظر نہ آئے ۔

نہ تو اپنی جماعت کے ”متوالوں“ کی خبر تھی اور نہ ہی حلیف جماعتوں کے خیر خواہوں کا پتہ ۔ اس کڑے وقت میں بیگم کلثوم نواز چند مخلص کارکن نما رہنماؤں کے ساتھ میدان میں اتریں ‘راجہ ظفرالحق‘جاوید ہاشمی‘ ذوالفقار کھوسہ‘مشاہد اللہ خان ‘تہمینہ دولتانہ جیسے متوالے ان کے شانہ بشانہ آمریت کیخلاف آواز بلند کرتے رہے ‘انہی ایام میں جب مسلم لیگ ق کی بنیادیں کھڑی کی جارہی تھیں تو مسلم لیگ ن کے سیکنڈ لائن قائدین چوہدری شجاعت حسین‘ چوہدری پرویز نئی جماعت کی تشکیل میں آگے آگے تھے۔

البتہ راولپنڈی کے شیخ جی نے اس وقت خاموشی اختیارکرلی تھی۔ چوہدری برادران کو شکوہ تو تھا کہ مسلم لیگ کے دوسرے دور اقتدار میں پنجاب کی حکمرانی چوہدری پرویز الہٰی کو دینے کاوعدہ کیاگیاتھا تاہم شہبازشریف کی ضد کی وجہ سے وہ وعدہ پورا نہ کیاگیا۔ یہی خلش وہ دل میں رکھتے ہوئے اقتدار کے دنوں میں ساتھ ساتھ تو رہے مگر جونہی تخت الٹاگیا تو دونوں بھائی بھی الگ تھلگ ہوگئے ۔


یہ سلسلہ اس 2002 کے انتخابات میں بھی جاری رہا مسلم لیگ ن زیرعتاب تھی پھر جب کچھ حالات کی بہتری کی امید لگی تو پھر کچھ پوشیدہ چہرے سامنے آنے لگے۔ ایسے ہی حالات کی گرد اس وقت تک موجود رہی جب تک میاں برادران ملک واپس نہیں آگئے ۔ان کی واپسی کے ساتھ ہی نہ صرف چھپے ہوئے لوگ منظر عام پر آگئے بلکہ کئی دوسری جماعتوں کے بڑے بڑے نامی گرامی رہنما نون لیگ کا حصہ بننے لگے۔

یہیں سے مسلم لیگ کی بنیادیں کمزور ہونے لگیں کہ مشکل ترین دور میں جماعت کی بقا کیلئے بعض بعض رہنماؤں کے مقابل آمریت کی گود میں کھیلنے کودنے والوں کو لاکھڑاکردیاگیا بلکہ انہیں اہمیت دی گئی۔ جیسا کہ سینٹر ذوالفقار کھوسہ شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ تسلیم کہ ذوالفقار کھوسہ صوبائی سطح کے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے علاقائی سیاست بھی کرنا ہے انہیں شکوہ ہے کہ مسلم لیگ نے ان کے علاقائی مخالف کھروں کو زیادہ اہمیت کیوں دی۔

یہ شکوہ صرف کھوسہ کو نہیں ہے بلکہ جنوبی پنجاب (جہاں وڈیرہ شاہی ‘ جاگیردارانہ نظام کاراج ہے ) کے اکثر دیرینہ مسلم لیگی کارکنان ‘رہنماؤں کو رہا ہے کہ مسلم لیگ کے مشکل ترین ایام میں جو آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے لیکن جونہی اقتدار کا موقع آیا تو چوری کھانے والے مجنوں پر نوازشات کی بھرمارکردی گئی۔
کھوسہ کہتے ہیں کہ آمریت کے دور میں راجہ ظفرالحق‘ مشاہد اللہ خان ‘تہمینہ دولتانہ کو وہ مقام نہیں ملا جو ان کی جدوجہد کی بدولت حق بنتاتھا۔

گو کہ ظفرالحق ‘مشاہد اللہ خان یا تہمینہ دولتانہ نے شکوہ نہیں کیا تاہم انہیں نظرانداز کئے جانے کادکھ ضرور ہوگا۔ رہی بات پارٹی قیادت کے رویوں کی تو اس ضمن میں ایک مثال ہی کافی ہے کہ غالباً 1997کے دوران ایک اجلاس میں ممبر اسمبلی نے شکوہ کیا کہ انہیں اور ان کے حلقے کو نظرانداز کیاجارہاہے تو بھاری بھرکم مینڈیٹ رکھنے والے وزیراعظم نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ ”آپ کیلئے یہی کافی نہیں ہے کہ آپ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ہیں“قیادت کایہ رویہ نہ صرف کارکنان بلکہ سیکنڈ لائن قیادت رہتاہے بلکہ بعض اوقات تو فرنٹ لائن کے رہنماؤں کو بھی ایسی ہی صورتحال کاسامنارہتا ہے۔


آ ج جبکہ تحریک انصاف سمیت کئی دوسری جماعتیں مسلم لیگ کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہیں ایسے میں اگر جماعتوں کیلئے ریڑھ کی ہڈ ی کاکردار اداکرنے والے کارکنوں کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا اور ان کی بجائے چوری کھانے والے مجنوؤں کو اہمیت دی گئی تو آنیوالے کل کسی مشکل ترین صورتحال میں مسلم لیگ کے کارکن ڈھونڈ ے سے بھی نہیں ملیں گے۔ جیسا کہ ماضی میں ”جیالوں “ کے حوالے سے مشہور ومعروف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا بلکہ اب تک شکست وریخت جاری وساری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :