مارکیٹ کمیٹی اور کسان

ہفتہ 8 نومبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

کسان کا اصل مسلہ اُس کی فصل کی صحیح اور بروقت قیمت کا نہ ملنا ہے۔کسان کے استحصال کی جس قدرمذمت کی جائے کم ہے۔وہ جسے گولڈن ہینڈ (سنہرے ہاتھ) کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، دن کے وقت سب کے سامنے لُٹ کر آ جاتا ہے اورکوئی اُس کا پرسان حال نہیں۔اگر کسان کی آمدنی بڑھے تو پوری معیشت کا پہیہ رواں ہو جاتا ہے۔

کسان کی آمدنی بڑھتی ہے تو وہ جوتے کپڑے لینے شہر جاتا ہے۔جوتے کپڑے کی مانگ بڑھنے سے جوتے کپڑے کی صنعت حرکت میں آ جاتی ہے۔اس صنعت کے حرکت میں آنے سے اس کے مزدوروں کی آمدنی بڑھتی ہے۔ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات خریدنے بازار پہنچ جاتے ہیں۔اس طرح مختلف اشیاء کی مانگ بڑھنے سے مختلف اشیاء کی فیکٹریوں کا جام پیہہ حرکت میں آ جاتاہے۔

(جاری ہے)

اس لئے کسان کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔

مقامَ افسوس ہے کہ بد نظمی کی وجہ سے کسان آڑھتی سے لٹ رہا ہے۔آج کاآڑھتی اب ہندومہاجن کا کردار ادا کر رہا ہے۔تقسیم سے پہلے وہ کسان کو سود در سود کے چکر میں پھنسا کر سب کچھ چھین لیتا تھا اب آڑھتی با لکل وہی کردار ادار کر رہا ہے۔کسان کی فصل کی فروخت سے بامشکل اُس کے قرضے ہی ادا ہوتے ہیں۔وہ نئی فصل کے لئے پھر آڑھتی کا محتاج ہو جاتا ہے۔ آڑھتی کھاد والے سے کسان کو کھاد اُدھار لے دیتا ہے۔

زرعی ادویات والے سے اُدھار زرعی ادویات لے دیتا ہے اور پٹرول پمپ والے کو ڈیزل کے لئے اپنی چِٹ دیتا رہتا ہے۔جب کسان فصل لے کرآڑھتی کے پاس جاتا ہے تو سب سے پہلے تو وہ ریٹ کم لگاتا ہے۔ پھر کم تولتا ہے۔ پھرکاٹ کے نام پر ایک دوبوری فصل رکھ لیتا ہے۔آڑھتی کے پلے دار کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی۔پلے دار بھی کسان سے اپنی روزی روٹی پوری کرتا ہے۔

دو تین بوریاں فصل وہ بھی ہتھیا لیتا ہے۔کسان بیچارہ ہاتھ جھاڑ کر ٹھنڈی آہیں بھرتا گھر آ جاتا ہے۔آڑھتی کے استحصال سے بچانے کے لئے منڈیوں میں مارکیٹ کمیٹیاں چل رہی ہیں۔ان کی بہت ذمہ داریاں ہیں۔ جیسے صحیح قیمت کا دلوانا، آڑھتی کے استحصال سے بچانا، کوالٹی کو کنٹرول کرنا، قیمتوں کو کنٹرول کرنا،کھیت سے منڈی تک پکی سڑکوں کی تعمیر، پلیوں کی تعمیر کسان کو منڈی میں فصل رکھنے کے لئے جگہ فراہم کرنا۔

ناپ تول کو کنٹرول کرنا۔بد نظمی اور بد انتظامی کی وجہ سے یہ کمیٹیاں غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ان کا چناؤ عوام میں سے کیا جاتا ہے۔عوام میں سے چودھراہٹ کے شوق میں چیر مین منتخب تو ہو جاتے ہیں لیکن دفتری امور سے عدم واقفیت کی وجہ سے وہ متعلقہ امور نہیں چلا سکتے اور عملاَ مٹی کے مادھو بنے رہتے ہیں۔ان میں سے اہل بھی کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔

تعمیراتی فنڈ بالکل بند کر دئیے گئے ہیں۔مقامِ افسوس ہے کہ یہ تعمیراتی فنڈ بھی کرپشن کی وجہ سے بند کئے گئے ہیں۔چیرمین مارکیٹ کمیٹی منڈی کے اشیاء پر ٹیکس لگا کر اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔یہ ٹیکس 1950ء کے لگائے ہوئے ہیں اور اُسی شرح سے چل رہے ہیں۔اب بھی بیس سے تیش پیسے فصل پر ٹیکس ہے لیکن اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔چیرمین چونکہ عوامی نمائندہ ہوتا ہے اس لئے چیرمین کی پبلک ڈیلنگ ہوتی ہے۔

اس کی ذاتی بہت سے اخراجات ہوتے ہیں جو وہ کرپشن کرکے پورے کرتا ہے۔یہ رقم وہ آڑھتیوں سے ٹیکس کی مد میں وصول کرتا ہے۔اس طرح اُس کا سر جھک جاتا ہے اور وہ آڑھتی کا کھانے کی وجہ سے آڑھتی کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھا سکتا۔عملاِ چیر مین کا کام کسان کو آڑھتی کے استحصال سے بچانا ہوتا ہے۔جو آڑھتی زیادہ پیسے لیتا ہے یا کم تولتا ہے چیر مین اُس کے خلاف مقدمہ بنا کر عدالت میں پیش کر دیتا ہے ۔

یہ عدالت پر منحصر ہوتا ہے کہ عدالت چھوڑ دے یا اُسے جرمانہ کرے۔جس آڑھتی کو چیرمین نے جرمانہ کروایا ہوتا ہے اُس کے ساتھ چیرمین کی ٹسل شروع ہو جاتی ہے۔ وہ دشمن بن جاتا ہے اس لئے وہ طرح طرح سے چیرمین کے خلاف محاذ آرائی قائم کر لیتا ہے اُسے بند نہیں ۔ چیرمین یا اُس کے عملے کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا نہ وہ آڑھتی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :