ڈومور ماننے کا انجام

ہفتہ 8 نومبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ہم نے کئی سال قبل ہی کہا تھا کہ امریکہ بھارت کا اسٹریجک اتحادی ہے اور وہ جب بھی افغانستان سے بھاگ نکلے گا تو پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائے گا کیونکہ وہ افغان قوم کو شکست نہیں دے سکتا اور وہی ہوا وقفے وقفے سے جاری ہونے والے بیانات کے بعد امریکی محمکہ دفاع کی نئی رپورٹ جو کہ ہر چھ ماہ بعد کانگرس میں پیش ہوتی ہے اس رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع نیپاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ؛پاکستان بھارت اور افغانستان کے خلاف شدت پسند تنظیموں کا استعمال کررہا ہے،پاکستان ان پراکسی فورسز یا پوشیدہ طاقتوں کا استعمال افغانستان میں اپنے گھٹتے ہوئے اثر رسوخ کی وجہ سے اور بھارت کی بہتر فوجی طاقت کے خلاف حکمت عملی کے طورپر کررہا ہے،رپورٹ میں پاکستانی قربانیوں کا تذکیرہ سراسری انداذ میں کرنے کے بعد خطے میں امن کے قیام کیلئے افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوری قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)


دوسری طرف پاکستان نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا اور پاکستانی قربانیوں کا ذکر کیاہے۔اور ایک خاموشی چھا گئی ہے ہونا تو یہ چاہی تھا کہ سیاسی پارٹیوں سے لیکر تمام محب وطن افراد اس کا جواب دیتے مگر افسوس ہم فارغ کہا ہیں؟ کئی با ر مختلف فورمز پر یہ بات سامنے آئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس امریکی مفادات کی جنگ سے باہر آجانا چاہی ہے تاکہ پاکستان اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دے سکے مگر ہر بار ایک طبقے نے اسے پاکستان کی جنگ قرار دیا جس کی وجہ سے آج خطے میں ہمارے دوست کم اور دشمن بڑھتے جارہے ہیں اور جن پتوں پر ہمشہ تکیہ رہا ہر بار کی طرح اس بار بھی دھوکہ دے گیا اور ہم ہیں کہ اب بھی اس کی محبت میں سرشار ہیں۔


اور یہ بھی حقیقت ہے امریکہ نے پاکستان کی ہر حکومت خواہ وہ جمہوری تھی یا آمرانہ اسے اپنے معاملات میں اس قدر زیادہ الجھائے رکھا کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں تسلسل برقرار ہی نہ رکھ سکی۔ امریکی خوف سے ہمارے حکمران ہمیشہ یہ سوچتے رہے کہ امریکہ کو کیسے راضی رکھا جاسکتا ہے اور جس نے ملک اور قوم کے بارے میں سوچا اور اس سوچ پر عمل کرنا چاہا اسے راستے سے ہٹا دیا۔


امریکہ کی وجہ سے پاکستان کا امن و امان تباہ ہوگیا۔ ہمارے ہزاروں فوجی اور ہزاروں شہری شہید ہوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ عظیم ہوا جس کی وجہ سے ان گنت نوجوان خودکش بمبار بن گئے۔ ہماری زراعت تباہ ہوگئی ‘ ہماری صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہوگیا۔ ہماری معیشت اوندھے منہ جاگری۔ ہمارے عوام کے چہروں سے مسکراہٹ چھن گئی عام آدمی روٹی کو ترسنے لگا ‘ لوگوں کے لئے زندگی ایک وبال بن گئی ۔

اہم شخصیات کی زندگیاں خطرے میں پڑگئیں اور وہ حفاظتی حصار میں
محصور ہوکر رہ گئے۔ ہمارے کئی جید علماء اور سیاستدان خودکش دھماکوں میں مارے گئے۔۔ ہمارے بزرگوں کے مزار تک محفوظ نہ رہے اور جو کسر خودکش بمباروں نے چھوڑی وہ امریکہ نے ڈ رون حملوں کے ذریعے پوری کر دی اور جب یہ سب کچھ ہوگیا تو پاکستان کی امداد روک کر حکومت اور عوام کو ایک خوفناک معاشی بحران کی طرف دھکیل دیا گیا اور اب پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے وہگہ کے سے لیکر کراچی تک ہمارے دشمن مصروف عمل ہیں اور اس کے ثبوت بھی کئی بار دیئے مگر پھر بھی ملزم ہم یہ ہے ڈومرر پر نیچے لیٹنے کا انجام ۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کو آج جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے یہ سب امریکہ کی پیداوار ہیں۔ اگر امریکہ ہمارے راہ میں روڑے نہ اٹکتا تو آج پاکستان جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہوتا۔ ہمارے حکمرانوں کو ملکی وسائل بروئے کار لاکر ملک کی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کا موقع ہی نہ دیا گیا ورنہ پاکستان میں اتنے معدنی وسائل تھے کہ آج ہر پاکستانی خوشحال ہوتا۔


اب جبکہ بہت کچھ برباد ہوگیا ہے تو پاکستانیوں میں یہ احساس فزوں تر ہوتا جارہا ہے کہ اگر ہم نے خود کو امریکی چنگل سے آزاد نہ کرایا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ہم گھاس کھالیں گے ‘ پیٹ پر پتھر با ندھ لیں گے۔ فوجی اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ جی لیں گے مگر امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے۔ حکومت ایک قدم بڑھائے ‘ گے کیونکہ اب پاکستان کے ایک عام آدمی کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہماری تمام تر بربادی کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس سے نجات حاصل کرکے ہی ہم نئے سرے سے ایک آبرو مندانہ زندگی کا آغاز کرسکیں گے۔


پاکستانی آرمی چیف کا دورہ افغانستان پاکستان سمیت خطے کے لئے اور بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان خلیج کم کی جاسکتی ہے مگر اس کیلئے اعتماد کی بحالی اولین شرط ہے جس کے لئے دونوں ممالک کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا کیونکہ ایک جانب اگر امریکہ نے کسر نہیں چھوڑی تو دوسری جانب دوست ملک چین کا حالیہ بیان کہ پڑوسی ممالک افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہ کریں بھی معنی خیز ہے کیونکہ چین کے اپنے مفادات بھی ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ سینکیانگ متاثر ہو ۔


اس صورت میں جہاں ہر ایک کو اپنے مفادت عزیز ہیں تو پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی اپنی پالیسی میں اپنے مفادات کو ترجیع دینا ہوگی،ورنہ تیزی بدلتی دنیا اور صف بندی جاری ہے ڈپلومیسی میں دوستیاں کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ اولین ترجیع ہوتی ہے اور نیٹو کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ہر ملک افغانستان میں اپنا تحفظ چاہتا ہے بس ایک پاکستان ہے کہ جیسے کہا جارہا ہے کہ پیچھے رہو ورنہ بھارت ایران روس کی مداخلت کوئی ڈھکی چھہی بات نہیں،سب تیزی سے مصروف ہیں بس ایک ہم ہیں کہ ڈنگ ٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہیں احتجاجوں سے بات آگے نکل چکی ہے اب دنیا میں رائے سازی کا وقت ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کا ادارک ہے بھی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :