کشمیراورہندو ذہنیت کا فتور

ہفتہ 8 نومبر 2014

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

اور ہمارے خیال میں بھارتی متعصبانہ رویے نے ہی کشمیری عوام میں اپنی آزادی کی جدوجہد کیلئے مزید تڑپ اور جذبہ پیدا کیا ہے اور وہ ہر عالمی فورم پر جوش و ولولے کے ساتھ اپنا کیس پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسی تناظر میں لندن میں کشمیری عوام کے ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر کے کشمیری لیڈران کے علاوہ برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔

اس ملین مارچ کے دوران برطانوی حکومت سے اپنے پیدا کردہ تنازعہ کشمیر کا حل نکالنے کا تقاضا کیا گیا اور اب گزشتہ روز اسی ملین مارچ کے تسلسل میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں سینکڑوں کشمیریوں نے عالمی عدالت انصاف اور ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے سامنے ہیگ میں زبردست مظاہرہ کیا ہے جس میں راٹرڈم‘ ایمسٹرڈیم‘ برسلز‘ پیرس اور یورپ کے دیگر ممالک سے کشمیریوں نے بھرپور شرکت کی ہے۔

(جاری ہے)

اس دوران مظاہرین نے ”بھارتیو! کشمیر سے نکل جاؤ‘ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کراؤ اور کشمیر کشمیریوں کا ہے“ کے فلک شگاف نعرے لگائے اور دنیا کو باور کرایا کہ بھارت نہ صرف کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے‘ بلکہ کشمیریوں کے خون سے ہولی بھی کھیل رہا ہے۔بھارتی فوجوں نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پرمظالم کا تسلسل یوم عاشور پر بھی برقرار رکھا اور وہاں محرم الحرام کے جلوسوں پر پابندی لگا دی تاہم عزاداروں نے ان پابندیوں اور کرفیو تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جلوس نکالے‘ جن پر بھارتی فوج اور پولیس نے طاقت کا استعمال کیا جس کے نیتجہ میں متعدد عزادار زخمی ہوئے جبکہ جھڑپ میں دو بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

اگر بھارت کشمیر پر اپنا تسلط بزور مستقل کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے کی پالیسی پر گامزن رہے گا تو اسکے فطری ردعمل میں کشمیری عوام انصاف کے ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے جبکہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی سے آج پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد بارآور ہونے کی فضا بھی مستحکم ہو رہی ہے۔ ہمیں حکومتی اور عوامی سطح پر کشمیری عوام کی جدوجہد کا ہر حوالے سے ساتھ دینا چاہیے کیونکہ وہ درحقیقت تکمیل پاکستان کی جدوجہد کر رہے ہیں جس کا آغاز انہوں نے تقسیم ہند کا فارمولا طے ہوتے ہی قربانیوں سے لبریز جدوجہد کے ذریعے کردیا تھا۔

آج بی جے پی کے دور حکومت میں تو پاکستان دشمنی کی انتہاء تک پہنچا دیا گیا ہے اور بی جے پی کے اقتدار کے آغاز سے اب تک بھارتی فوجیں کنٹرول لائن پر ایک سو سے زائد بار اور ورکنگ باؤنڈری پر 50 سے بھی زیادہ دفعہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف کر چکی ہیں جس کے نتیجہ میں اب تک بیسیوں بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہلکار جاں بحق‘ سینکڑوں زخمی اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔

اسکے ساتھ ساتھ مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس سے خطے میں سخت کشیدگی کی فضا قائم ہے اور علاقائی اور عالمی امن کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ اسی بنیاد پر عالمی برادری کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ امریکہ‘ چین کے سربراہوں اور یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کی گئی جسے بھارت نے رعونت کے ساتھ مسترد کردیا اور مودی سرکار نے ڈھٹائی پر مبنی یہ بیان بھی داغ دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے معاملہ میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔

حالانکہ بھارتی وزیراعظم نہرو کشمیر کو متنازعہ بنا کر دادرسی کیلئے یو این جنرل اسمبلی کے فورم پر ہی آئے تھے۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے استصواب کا جو فارمولا پیش کیا‘ وہی آج بھی مسئلہ کشمیر کا قابل قبول اور پائیدار حل ہے مگر بھارت کسی عالمی فورم اور پاکستان بھارت دوطرفہ مذاکرات کی میز پر کشمیر کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا چنانچہ اس بھارتی ذہنیت کے باعث ہی اسلام آباد میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے 25 ستمبر کے مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آپائی تھی۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کے قیام کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا جس کیلئے19 جولائی 1947ء کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے ایک یادگار اجتماع میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی اور اسکی روشنی میں ہی قیام پاکستان کے بعد15 اگست 1947ء کو ریاست کے ہر شہر اور قصبے میں چراغاں کیا گیا اور جموں اور سرینگر میں پاکستان سے الحاق کے متمنی کشمیریوں نے جوش و جذبے کے ساتھ جلوس نکالے۔

اس کا انتقام لینے کیلئے ہی ریاست جموں کی ڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کیا اور 7 نومبر تک کشمیری مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے جبکہ اس دوران چودھری غلام عباس سمیت تمام سرکردہ کشمیری لیڈران کو جیلوں میں ڈالے رکھا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کی بھنک بیرونی دنیا کو نہ پڑنے دی جائے جبکہ ان بھارتی مظالم کے تسلسل میں ہی ہندو لیڈر شپ نے قیام پاکستان کے بعد تقسیم ہند کے فارمولے کے مطالق کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا۔

اگر ہندو لیڈر شپ کے ذہنوں میں یہ فتور نہ آیا ہوتا تو تقسیم ہند کے بعد کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جاتا اور پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی تنازعہ پیدا نہ ہوتا۔ مگر ہندو ذہنیت کا یہ فتور آج 67 سال بعد بھی جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :