پولیو سے پاک پاکستان،مگر کیسے؟

جمعرات 6 نومبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

دنیا بھر میں جن بیماریوں پر قابو پایا اور ان کا خاتمہ ہو چکا ہے ہمارے ہاں ان سے ابھی بھی لوگ مر اور، اپاہج ہو رہے ہیں جبکہ ہماری حکومت اور معاشرے میں اس شعور کو بھی اجاگر نہیں کیا جارہا کہ صحت مند زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے کسی پولیو زدہ بچے کو زندگی گزارتے دیکھیں یہ معاشرہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، جو بے چارے تو کچھ اچھی حالتوں میں ہیں کچھ چل پھر سکتے ہیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو بلکل معذور ہیں انہیں تو ان کے گھر والے بھی بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں،،یہ تو بھلا ہو ان فلاحی تنظیموں کا جو معذور افراد کو قابل احترام زندگی بسر کرنے کے لے ہنر کی دولت سے مالا مال کرتی ہیں اور پھر انہیں معاشرے میں با عزت زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہیں انسانیت کا درد رکھنے والی ان ان ین جی او کی وجہ سے پاکستان میں معذور افراد کی بحالی ، دیکھ بھال اور انہیں معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لئے کام نہ ہو رہا ہوتا تو معاشرے سے کٹے ہوئے ان افراد کا جینا محال ہو چکا ہوتا ،لاہور چیمبرآف کامرس کی ”لیبارڈ‘ کے زریعے کوششیں‘ جس کے روح رواں ایم این ائے پرویز ملک ہیں کر رہے ہیں قابل تحسین ہیں اسی طرح معذوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اور ایسی فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں۔

(جاری ہے)


پولیو ایک ایسا مرض ہے جس کا شکار بچہ ،بچی عمر بھر کی جسمانی معذوری کے ساتھ زندہ رہتا ہے دنیا بھر میں پاکستان ،افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ دنیا کے باقی ممالک میں اس مرض پر قابو پایا جاچکا ہے جبکہ پاکستان اس بیماری کے شکار افراد کے حوالے سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے ،پاکستان میں رواں سال پولیو کے کیسز کی تعداد 220 سے تجاوز کر چکی ہے،گذشتہ ایک دہائی میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائے جانے پولیو کیسوں میں سے 80 فیصد پاکستان میں ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام میں پائے جانے والے پولیو وائرس کا جینیاتی تعلق پاکستان سے نکلا تھا، جبکہ افغانستان اور نائجیریا میں شورش اور شدت پسندی کے باوجود اس سال پولیو کے کیس کم ہوئے ہیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ہیں جہاں اب بھی پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے لیکن جہاں افغانستان اور نائجیریا میں اس سال پولیو کے نئے مریضوں میں کمی آئی ہے وہیں پاکستان میں ایک برس میں پولیو کے نئے مریضوں کی تعداد کا 14 سال پرانا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔

اس مرض کی شدت بڑھنے کے عمل اور اثرات کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صوبائی حکام کے نام خط میں وزیراعظم نے دنیا سے پولیو کے خاتمے کے لیے انڈی پینڈینٹ مانیٹرنگ بورڈ کی جانب سے پولیو کو عالمی ایمرجنسی قرار دینے پر بھی بات کی اور پاکستان پر سفری پابندیوں کا حوالہ بھی دیا۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ2014 کے آغاز پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے پولیو کے مرض کے پھیلاوٴ کی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے حوالے سے پابندیاں عائد کی تھیں۔

میاں نواز شریف نے اپنے مراسلے میں ہدایت کی ہے کہ وزرائے اعلیٰ اپنی کوششوں کو دگن کریں اور اور پولیو کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی سطح پر رابطے بھی قائم کریں۔وزیراعظم نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں خطرے سے دوچار علاقوں کی نشاندہی کریں اور وہاں کی ضروریات پورا کریں۔پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ والدین کی جانب سے قطرے پلوانے سے انکار اور پولیو کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے عملے پر بڑھتے ہوئے حملوں کو قرار دیا جاتا ہے۔

دسمبر 2012 سے اب تک پولیو مہم میں شریک ہیلتھ ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں سمیت 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔‘وزیراعظم نے وزرائے اعلیٰ سے کہا کہ امن و امان کے لحاظ سے خراب صورتحال سے دوچار علاقوں میں رسائی کو یقینی بنانے، متاثرہ علاقوں سے ملک کے دیگر حصوں میں پولیو وائرس کے پھیلاوٴ کو روکنے اور پولیو وائرس سے پاک ہوجانے والے صوبوں کو مستقل بنیادوں پر اس سے پاک رکھنے کے اقدامات کیے جائیں۔

یہ بھی شنید ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لئے قومی لائحہ عمل بھی مرتب کیا جارہا ہے جسے خوش آئند اس حوالے سے قرار دیا جانا چاہیے کہ شہریوں کو اچھی اور معیاری تعلیم ،صحت مند زندگی اور ماحول اور پر امن معاشرہ فراہم کرنا حکومت کی ہی زمہ داری ہے اور وہی ملک کے تمام شہریوں تک ہر طرح کی سہولت پہنچا سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت کو بیماریوں کے خاتمے کے حوالے سے ایک موثر آگاہی مہم کا آغاز کرنا چاہیے جس میں عوام کو ان بیماریوں سے پیدا ہونے والے نقصانات اور خطرات سے آگاہ کیا جائے جبکہ پولیو کے حوالے سے اس مخالفانہ مہم کا تدراک بھی کیا جانا ضروری ہے جسے چند گروہ یا افراد پھیلا کر معاشرے میں کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں، زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اور اسے صحت مند رکھنے اور جینے کے مواقعے اور ماحول حکومت کو ہی پیدا اور فراہم کرنا ہے۔

حکومت اگر چاہے تو ہر کام ہو سکتا ہے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ ریاستی امور میں مداخلت کریں ۔یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ شہریوں کے لئے کیا اچھا اور برا ہے کا فیصلہ کرئے کیونکہ ریاست ہر شہری کی سر پرست اور والی ہوتی ہے ،شہریوں کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لئے جو ریاستی مشینری کر سکتی ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اس ضمن میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر پولیو جیسے مرض پر قابو نہ پایا جا سکا تو بین الاقوامی سطع پر ہمیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں سفری پابندیوں میں سختی بھی شامل ہو گی جس کا نقصان ہر حال میں پاکستان اور پاکستانی شہریوں کو ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :