شہادتِ امام حسین۔سیاسی اور معاشرتی مشعلِ راہ

منگل 4 نومبر 2014

Shahzad Ch

شہزاد چوہدری

کائنات ِ ہست و بود میں روزِ اول سے ہی رحمانی اور شیطانی قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں اور تا قیامت رہیں گی۔ہر دور میں فرعونیت سے موسویت،بو لہبیت سے محمدیت اور یزیدیت سے حسینیت ٹکراتی رہی ہے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی جنگ کرتی رہی ہے۔ قلندر ِ لاہور نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے ،
ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
شہادت امام حسین کے یوں تو کئی پہلو ہیں جن میں سے ایک سیاسی اور معاشرتی پہلو بھی ہے ، امام حسین نے یزید کی بیعت نہ کرکے قیامت تک کے اہلِ ایمان کے لئے ایک اصول وضع کر دیا کہ اہلِ حق کبھی بھی اہلِ باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ باطل قوتوں کے مقابلے میں میدان میں آ جائیں اور اپنا فرض ادا کریں ۔

(جاری ہے)

قرآن پاک میں سورہ حج آیت نمبر چالیس کا مفہوم ہے کہ” اگر بعض لوگ بعض لوگوں سے نہ ٹکراتے رہتے(اور نہ ٹکرائیں ) تو یہودیوں کی عباد گاہیں یعنی مذہب ویران ہو جاتا ۔عیسائیوں کے گرجے ویران ہو جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں ویران ہو جاتیں جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے ہوتا تھا(ہے)“
یعنی قرآن مجید نے ایک آفاقی قانون دیدیا کہ اگر معاشرے اور ریاست پر چند فرعون اور یزید صفت لوگوں قبضہ کر لیں تو اہلِ حق کا فرض ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف اٹھیں ، جدو جہد کریں ۔

معاشرے اور اور ریاست کو ان کے قبضہ سے چھڑوائیں ۔اور اگر وہ ایسا نہ کریں اور وہ یہودیوں کا زمانہ ہو تو ان کا مذہب ویران ہو جائیگا۔اگر عیسائیوں کا زمانہ ہو تو ان کا مذہب ویران ہو جائیگا۔اور اگرمسلمانوں کا زمانہ ہو تو ان کا مذہب بھی ویران ہو جائیگا ۔یعنی جو قوم بھی اہلِ باطل کے خلاف جہدِ مسلسل چھوڑ دے گی، مذہب اور سیاست کو جدا جدا کر دیگی اس قوم کا مذہب اور معاشرتی نظام تباہ و برباد ہو جائیگا۔


جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
تاریخ اسلام کا اگر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کفار مکہ نے بھی تو تاجدار ِ کائینات کو یہی کہا تھا کہ اے محمدﷺ آپ اپنی نمازیں پڑھتے رہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں بس آپﷺ ہمارے بتوں کو اور ہمارے نظام کو برا نہ کہیں ۔آپﷺ نے فرمایا نہیں ہمارا رب اللہ ہے یعنی جب وہی معبود ہے تو معاشرے کا نظام بھی اس کا دیا ہوا ہونا چاہیئے۔

اور یوں آپﷺ نے نعرہ انقلاب بلند کر دیا ۔یزید نے بھی امام حسین سے یہی کہا تھا کہ آپ صرف اللہ اللہ کیا کریں ، نمازیں پڑھا کریں ۔آپ بس فقط وعظ کیا کریں اور میں معاشرے میں جو مرضی کروں ، حرام کو حلال کروں آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیئے ، معاشرے میں اللہ کی نا فرمانی،ظلم ، جبر اور کو رواج دوں نظام حکومت اور سلطنت کو اللہ کے دیے ہوے نظام کے خلاف چلاؤں ، آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔

بلکہ آپ کو میری بیعت کرکے اس بے دینی کے نظام پر مہر تصدیق بھی ثبت کرنا ہو گی۔ امام حسین نے فرمایا کہ اگر ایسا ہی کرنا ہوتا ، اور اگر خدا کی یہی منشا ہوتی اور تاجدارِ کائنات کی یہی سنت ہوتی تو نہ آقاﷺ طائف کے بازاروں میں پتھر کھاتے نہ جسم لہو لہان ہوتا، نہ دندان مبارک شہید ہوتے ،نہ ہجرتِ مدینہ ہوتی، نہ جنگ بدرو حنین ہوتیں ۔لہذا آپ نے یزید کے کافرانہ نظام کے خلاف علمِ جہاد بلند کردیا اور اس کی بیعت سے انکار کرکے قیامت تک کے بنی نوع انسانوں کو بتا دیا کہ ریاست میں حقِ حکومت صرف اور صرف اہلی تقویٰ کو ہے۔

اور بیعت بھی صرف اہلِ تقویٰ کی ہی کی جانی چاہیے۔یعنی ووٹ بھی صرف اور صرف اہلِ تقویٰ کو ہی دیا جانا چاہیئے۔
مگر دنیا عام طور پر اور ہم مسلمان اور اہلِ پاکستان خاص طور پر امام حسین کی شہادت کے اس پیغام کو بھول چکے ہیں۔ ہم معاشرتی برایئوں کے خلاف جدو جہد چھوڑ چکے۔ہم چپ کرکے بس اپنی نمازوں اور اللہ اللہ میں لگے ہوئے ہیں معاشرے میں چاہے ظلم کا نظام رائج ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

اللہ کے اس پیغام کو بھول بیٹھے ہیں #کہ
” اگر عذاب آ گیا تو اس میں صرف گناہ گار ہی نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ چپ بیٹھنے والے نیکوکار بھی رگڑے جائیں گے“
ہم نے سیاست کو الگ اور دین کو الگ کر دیا ! ہم بن دیکھے کہ کون قوم کی امامت اور رہبری کا اہل ہے اور کون نہیں منہ اٹھا کر ووٹ دے دیتے ہیں ۔جو گلی محلے میں سولنگ لگوا دے۔جو تھانے سے چھڑوا دے اس کو ووٹ دے دیتے ہیں چاہے وہ بد دیانت اور پرلے درجے کا بد قماش ہی کیوں نہ ہو۔

قوم کی ذہنیت یہ بن گئی ہے کی شریف، نیک اور ایماندار آدمی کا سیاست سے کیا لینا دینا ۔ یعنی بحثیت قوم ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ ہمارے حکمران شریف لوگ نہیں بلکہ لچے ، لفنگے اور بد دیانت افراد ہونے چایئے۔ اور پھر ہم امام حسین سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ محبت کا دعویٰ امام حسین سے اور پیروی یزیدیت کی۔ عجب تماشہ ہے ۔ دو رنگی ہے ، وہی کوفیت ہے۔

سال کے بعد محرم میں امام حسین کی یاد میں رونا، تقریریں کرنا اور پھر پیروی یزیدی قوتوں کی کرنا؟
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
ہم سمجھتے ہیں پوری قوم کو اجتماعی توبہ کرکے ، امام حسین کی شہادت کا پیکر بن کر یزیدی قوتوں سے ٹکرانے کا عزم کرنا ہو گا اور پھر اس پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ہر ایک فردِ معاشرہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اور اہلِ تقویٰ کو اپنی قیادت و سیادت سونپنا ہو گی۔ معاشرے میں ایک متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔نام نہاد سیاسی جماعتوں کے لیڈر کہاں ہیں؟ معزز پیرانِ کرام کہاں ہیں ؟اسلامی جماعتوں کے لیڈر کہاں ہیں ؟ مہذب سول سوسائیٹی کہاں ہے؟کہ حسینیت پکار رہی ہے
باطل کے اقتدار میں تقویٰ کی آرزو
کتنا حسین فریب کھائے ہوئے ہیں ہم

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :