پاکستان،عہد یزید اورآزادیِ ضمیرِ انسانی کے سرخیل حضرت امام حسین 

منگل 4 نومبر 2014

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

ایک طرف فاسق و فاجر حاکم اور اس کا قبیلہ تھا جس کو اپنی عسکری طاقت پر بہت گھمنڈ تھا وہ اپنے بڑے لاؤلشکر اور حربی سازوسامان کی بدولت حق کو مغلوب کرنا چاہتا تھا وہ ہر اس آواز کو کچلنے کے درپے تھا جو اس کے خلاف بغاوت کو جنم دے سکتی تھی وہ اپنی حدود حکمرانی میں بسنے والے ہر سر کو اپنے حضور جھکا دیکھنا چاہتا تھا تاکہ اقتدار و اختیارات اور وسائل پر اس کا کلی قبضہ ہو جائے اس سے باز پرس کرنے ولا کوئی نہ ہو وہ جیسے چاہے جس طرح چاہے اپنے شیطانی فلسفے اور ابلیسی نظریے کو فروغ دے سکے ریاست کے سارے علماء و مشائخ،قبائلی سردار،دولت مند اور شیوخ اس کی بیعت کر کے دربار کے تنخواہ دار ملازم کا روپ دھار چکے تھے دوسری طرف حق و صداقت کے علمبردار ،انسانیّت کے رہبرحضرت امام عالی مقام تن تنہاء ہیں وہ رحمٰن کی پیروی ترک کرکے ابلیس کی شیطانیّت کو تسلیم کرنے والے حاکم کی بیعت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ان کا عزم صمیم ہے کہ ان کا سر رہے یا نہ رہے وہ یزید پلید کی حاکمیّت کو نہیں مانیں گے اور نہ ہی اس کی بیعت کریں گے چاہے اس کے لئے ان کو کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے اسی لئے تو کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
ان کا سر ظالم و جابر حکمران کے آگے نہ جھکا ہے نہ جھک سکتا ہے اور نہ جھکے گا یہ سر کٹ تو سکتا ہے مگر یزید ملعون کے سامنے جھک نہیں سکتا کیونکہ اگرحسین ابن علی  کا سر ظلم کے آگے جھک گیا تو باطل غالب آ جائے گا اور حق ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو جائے گا گناہوں کا راج ہو گا شیطانیّت برہنہ ہو کر ناچے گی اور ظلمتِ شب کی تا قیامت سحر نہیں ہو گی استحصالی قوتیں مظلوموں،ناداروں،بے نواؤں اورمجبوروں کو اپنے پنجہِ استبداد میں جکڑ لیں گی انسانیّت فاسقوں کے قدموں میں سسکے گی اور حیات بے کسوں کے لئے جرم بن جائے گی سو امام حسین نے باطل سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا اور اپنا سر کٹوانا گوارا کر لیا مگر جھکنا گورارہ نہیں کیا آپ نے اپنے جگر گوشے راہ حق میں قربان کر دیے علی اصغر جیسے شیر خوار پیاسے آپ کی گود میں اللہ کو پیارے ہوگئے علی اکبر جیسے کڑیل جوان آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر موت کی آغوش میں چلے گئے بھائی حضرت عباس  ظالموں کی وحشت و بربریّت کا نشانہ بن گئے امام عالی مقام  نے اپنا سارا گھرانہ حق و صداقت کی سر بلندی ،انسانیّت کی بقاء اور اسلام کی حقّا نیّت پر قربان کرکے پر شکوہ انقلاب کی راہ ہموار کر دی لیکن نہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور نہ ہی پائے استقلال میں کوئی جھول آئی اسی لئے تو شاعر نے کہا ہے۔


حسین تم نہیں رہے تمہارا گھرانہ نہیں رہا
لیکن تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
حق و باطل کے اس معرکے کو برپا ہوئے 1375برس بیت چکے ہیں اگر تیرہ سو سال کے ان واقعات اور وطن عزیز کے موجودہ حالات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 1375سال پہلے کے یزیدی دور اور وطن کی خونچکاں صورت حال میں کس قدر مماثلت ہے آج یزید پلید بھی ہیں ابن زیاد جیسے منافق بھی ہیں اور شمر ملعون بھی ہیں آج بھی کربلائیں سجی ہوئی ہیں شام کے بازار کھلے ہوئے ہیں دمشق کے دربار لگے ہوئے ہیں آج بھی حسینی یزیدیوں کے نرغے میں ہیں آج بھی حسینی نہتے ہیں اور یزید ی خانوادے کے پاس بارود کے انبار،آتشیں اسلحہ اور خودکش بمبار ہیں حسین  کو چاہنے والے ظالموں کے حصارمیں ہیں واہگہ بارڈر پرپچاس بے گناہ اسلام پسندوں کی وحشت و بربریت کا نشانہ بن گئے ایک طرف منرل واٹر سے نہایا جا رہا ہے دوسری طرف پیاس سے عورتیں بچے بوڑھے اور جوان سسک کر مر رہے ہیں ایک طرف رزق کی تو ہیں ہو رہی ہے تو دوسری طرف بھوک غریبوں کی زندگیاں نگل رہی ہے کمزوروں کے لئے زندگی نڈھال اور حیات وبال بنی ہوئی ہے چودہ سو سال قبل بھی علماء و مشائخ یزید کے ساتھ تھے آج بھی شرابی علماء دین،فتوے بیچنے والے مولوی،اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے مولانا کرام ،مشائخِ عظّام،خانقاہوں کے امام،سید زادے،جاگیردار ،وڈیرے اور سرمایہ دار ایوان اقتدار کے مکینوں کے غلام ہیں آئین و قانون،اصول ،ضابطے،قرینے اور دستور سب کتابوں میں بند ہیں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو تار تار کرنے والے غنڈے دندناتے پھر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں انسانیّت کو رسواء کرنے والوں کو کوئی نکیل ڈالنے والا نہیں اللہ ربّ العزت نے انسان کی عزت و حرمت ،جان و مال کو خانہ کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر مقدم رکھا ہے مگر وطن عزیز میں ہر روز بے گناہوں کو قتل کیا جاتا ہے اور قاتلوں کو پکڑنے والا کوئی نہیں ظالم اپنے اثرو رسوخ سے بے گناہ ہو جاتا ہے اور مظلوم انصاف کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھا کر قبرستان پہنچ جاتا ہے کرپشن، بد دیانتی اور لوٹ مارنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں استحصالی قوتیں کمزوروں اور ناداروں کا استحصال کرنے پر لگی ہو ئی ہیں جھوٹے اور کذّاب لوگ عوام کے نمائندے بن کر عوام کو ہی لوٹ رہے ہیں بات حرف آخر ہے چند لوگوں کی ،دن چند لوگوں کا ،رات چند لوگوں کی۔


قوم منتظر ہے کہ ایسے میں کوئی حسین  آئے اس نظام کو بدلے صبح و شام کو بدلے پاؤں میں پڑی زنجیروں کو توڑے سوچنے پر لگی تعزیروں کومڑوڑے اور تمام سلب شدہ حقوق بحال کرے مگر کوئی صدا نہیں جسے مظلوم زندگی کہیں۔
دشت ِ وفا میں آبلہ پا کوئی بھی نہیں
سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف
محرم الحرام ہر سال آتا ہے ہم ہر سال غم ِ حسین مناتے ہیں مگر ہمارا کردار ،اعمال اور گفتار حسین ابن علی  سے یکسر مختلف ہے آپ  نے کربلا میں درس دیا تھا شجاعت کا ،صداقت کا ،جوانمردی اور بہادری کا لیکن ہم نے ان کے تمام اصولوں ،نظریوں اور اقدار کو بھلا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی کالی صدیوں کی بیداد جاری ہے استحصالی قوتیں ہمارا استحصال کر رہی ہیں بد قماش، بد کردار اور ضمیر فروش ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں اور ظلم و جبر کا نظام پھل پھول رہا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ظلم کا نظام زمین بوس ہو یزیدی قوتیں نشان عبرت بنیں تو ہمیں فلسفہ ء حسین کو بنیاد بنا کراس ظالمانہ و جابرانہ نظام کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا تبھی صبح آفتاب طلوع ہو گا تبھی مظلوم کو انصاف ملے گا تبھی پاؤں میں پڑی زنجیریں ٹوٹیں گی تبھی غریب کی عزت نفس بحال ہو گی تبھی فصل بہار آئے گی ہم کو اپنا ہر فیصلہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ضمیر اوراصول کے مطابق کرنا چاہیے اور استحصالی نظام کے خلاف استقامت،جوانمردی ،جرات اور بہادری سے ڈٹ جانا چاہیے یہی تقاضا ہے حسین ابن علی  کی قربانی اور ایثار کا۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر حیات جاوداں چاہتے ہو تو ضمیر کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ظالم کے شیطانی نظریے کو ماننے سے انکار کر دوشاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے۔
جب بھی کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاؤ تم حسین  کے انکار کی طرح

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :