حسن حسین کی قربانی رائیگاں نہ جائے

منگل 4 نومبر 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

حضرت حسن حضرت حسیننے اپنے پیارے نانا حضورﷺ کے دین کو تاقیامت سربلند کر دیا،ظلم اور ظالم سے ٹکرانے کی لازوال مثال قائم کردی۔اپنے پورے خاندان کو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کر دیا لیکن جابر اور جھوٹ کے آگے سر نہیں جھکایا۔سچ اور حق کی خاطر اپنی گردنیں کٹا دیں لیکن شیطان کے پیروکاروں کی ابدی شکست سے دوچار کردیا،شاباش حضرت حسن  شاباش حضرت حسین۔

ہم تمام مسلمانوں کو اس بات کا قوی احساس ہونا چاہیئے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین کی بمعہ خاندان قربانی رائیگاں کرنا دراصل دین سے بغاوت ہے۔ہم سب کو دین حق اور دین اسلام کے لئے فرداً فرداً کوشش جاری رکھنی چاہیئے وہ ایسے کہ ہم لوگ اپنی نماز باقاعدگی سے ادا کریں،اپنے حقو ق و فرائض میں ہر گز غفلت نہ کریں،سچ اور حق کے لئے سر گرم رہیں،ظلم اور ظالم کے خلاف ڈٹ جائیں،قرا ٓن پاک کی تلاوت کو اپنا شیوہ بنا لیں،اپنے بچوں کی تربیت عین اسلامی اصولوں کے مطابق کریں۔

(جاری ہے)

امیر اور غریب کا فرق رکھے بغیر ہر مسلمان اور ہر انسان کی عزت کا خیال رکھیں،اپنی ماؤں بہنو ں اور بیٹیوں اور بیٹوں کو اسلامی قوانین کی پیروی کے لئے تلقین کریں۔تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہونے والی دین اسلام کی یہ قربانیاں ہم تمام مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور اگر ہم مسلمان خدانخواستہ اپنے دین کی منزل سے بھٹک گئے تو یقین کریں ہم سب کے لئے تباہی کے سوا کوئی رستہ باقی نہیں،قیامت کے دن سرخرو ہونے کے لئے ہم سب کے پاس محض دین کی رسی ہے ہم سب جتنی مضبوطی سے اس رسی کو تھامے رکھیں گے ،اتنی ہی کامیابی سے ہم سب ایمان اور جنت کی منزل کے قریب تر ہوں گے۔


ہمارے دین سے ہی ثابت ہے کہ دین میں کوئی سختی نہیں ہے۔ہمارا دین تلوار کے زور پر نہیں بلکہ پیار ومحبت اور حسینیت جیسی بے مثال قربانیوں کی وجہ سے پھیلا۔یہ بات بالکل اٹل ہے کہ ہر گھر میں مذہبی افراد کی اوسط سطح بہت ہی کم ہے لیکن آپ شرطیہ آزما لیں جس گھر میں کم از کم ایک وقت یا زیادہ سے زیادہ پانچ دفعہ نماز پڑھی جاتی ہے یا قرآن پاک کی تلاوت باقاعدہ ہوتی ہے یقین کریں اس گھر میں برکتوں کا نزول آج بھی ہے اس گھر میں ایمانداری، پیار ،محبت اور سکون کے ڈیرے آج بھی ہیں وہاں سے زناخور اور شیطان صفت لوگ دور بھاگتے ہیں۔

جس گھر میں نماز نہیں پڑھی جاتی یا قرآن پاک کی تلاوت نہیں ہوتی اس گھر میں شرطیہ بے برکتی،نفرت،لڑائی ،جھگڑا ،بے ایمانی ،زنا اورنہ جانے کیا سے کیا نہیں ہوتا۔احقر نے اپنی اس 36سالہ زندگی میں کئی خاندانوں کو اجڑتے،تباہ وبرباد اور نیست و نابود ہوتے دیکھا،ایسے گھروں میں طلاقیں ہوئیں،جھگڑے ہوئے ،قتل عام ہوا یا ان کے گھر زناخوری کا سبب بنے جہاں کے افراد دین اور قرآن سے دور ہوئے۔

اسی زندگی میں کئی خاندانوں کو دین کی برکت سے آباد اور ترقی کرتے ہوئے دیکھا،ان کے بچوں کو ہنستے کھیلتے اور خوشحال ہوتے دیکھا،دین میں بہت طاقت ہے۔
پوری میں نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں پوری دنیا میں ہم مسلمانوں کی حکومتیں تھیں ،رفتہ رفتہ مسلمان عیاش پرست ہوئے،دین سے دور ہوئے،غیر مذہب اقدار میں پڑتے گئے،شراب خوری،سود اور زنا وطیرہ اختیار کرنے والے آج پوری دنیا میں رسوا ئی ان کا مقدر ہے۔

سعودی عرب جہاں سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے دین کا آغاز کیا اور وہیں اپنے آخری سفر کو روانہ ہوئے وہاں آج بھی دین سربلند ہے۔وہاں جا کے کچھ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی برکات کا سمندر وہیں بہتا ہے اس کے علاوہ چیدہ چیدہ ممالک اور چیدہ چیدہ پوری دنیا میں دین کا نام لیوا افراد ہیں جن کی بدولت دنیا کے نظام قائم وقائم ہیں۔ یقینا یہی اللہ والے لوگ ہیں ورنہ ہم جیسے گناہ گاروں کی وجہ سے دنیا میں گناہوں کے ڈھیر ہی بنتے جا رہے ہیں۔


ہم سب کے بچے گھر وں میں نئے کپڑے،بریانی،روسٹ مرغی،کباب، نئی کتاب،نئی کاپی،نیا کھلونا ،نئی گیم،نئی فلم ،نیا گانا اور نیا موبائل لانے کی فرمائش تو کرتے ہیں لیکن بہت ہی کم تعداد میں مگر خوش قسمت ہیں وہ والدین جن کے بیوی یا بچے گھر میں قرآن پاک اور جائے نماز لانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ہم لوگ بہت ہی قیمتی گھر بناتے ہیں یہ گھر یقینی دنیا میں عارضی قیام کا باعث ہے،اس میں سجاوٹ کا ہر سامان لگاتے ہیں،پچاس سے ساٹھ انچ تک ٹی وی لگا دیتے ہیں،چھتوں پرمہنگے مہنگے پنکھے اورفانوس لگاتے ہیں،فرش پر مہنگی سے مہنگی ٹائل یا دری لگا دیتے ہیں لیکن ذرا سوچنا کہ کیا ہم اس گھر میں ایک یا دوقت کی نماز بھی پڑھنا گوارا کرتے ہیں یا نہیں۔

کیا اس گھر میں ہم اپنے ٹی وی پریا گھر میں خود پانچ منٹ تلاوت کا اہتمام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ہمارے گھروں میں کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور کیبل پر دن رات بے حیائی اور فحاشی کا سیلاب بہتا رہتا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے ایم پی پلیئر ،کمپیوٹر یا ٹی وی پر تلاوت قرآن پاک کو چلایا ہے یا اپنے بچوں کو مسجد یا مدرسے دین کی تربیت کے لئے بھیجنے میں فوقیت دی ہے یا نہیں۔


بچوں کو گدھے کی طرح پیٹنے سے بچے بات نہیں مانتے۔دین کی بات سمجھانے کے لئے والدین اور اساتذہ سب سے بڑے نمونہ ہوتے ہیں۔بچے ان کی نقل یا پیروی خود بخود کرتے ہیں،جن گھروں میں والدین باقاعدہ نماز پڑھیں گے،مسجد جائیں گے یا قرآن پڑھے گے ،میں حلفاً کہتا ہوں اس گھر کے بچے بڑھاپے تک باقاعدہ نماز پڑھیں گے اور قرآن پڑھیں گے۔جس گھر میں والدین عیاش ہونگے،بے نمازی ہونگے،حرام حلال کو مکس کریں گے اس گھر میں وہ سب کچھ ہو گا جسے سے نہ صرف مذہبی روایات معدوم ہونگی بلکہ اخلاقی روایات بھی پامال ہونگی۔


قارئین! دیر نہ کرو ،جسیے تیسے ہو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو،خود بھی دین کا دامن تھام لو اور آپ کے بچے یقینا آپ کا دامن نہیں چھوڑیں گے،نہ لڑکیاں گھر سے بھاگیں گی ،نہ لڑکے انہیں ٹریپ کریں گے،تو پھر آج سے فیس بک،ٹوئیٹر،گھر،سکول اور محلے میں دین داری کا ثبوت دو،اپنے آپ کو تربیت گاہ بناؤ،نئی نسل کی تربیت کرو ،دین میں نجات ہے ،دین میں ترقی ہے اور دین مشعل راہ ہے،قائد کے پاکستان کو نامور کرو،پاکستان اور اسلام کو مضبوط بناؤ،حسن حسین اور ان کے خاندان کی لازوال اور ان تھک قربانیاں رائیگاں نہ جانے دو،دین اور ملک کا نام روشن کرو۔زندگی بابرکت کرو،ایمانداری اپناؤاور ترقی کرو۔ترقی دینداری میں ہے۔کامیابی دینداری میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :