ایک بار پھر نصاب میں تبدیلی کی ضرورت کیوں۔۔؟

منگل 4 نومبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

چند برسوں کے بعد ایک بار پھر نصاب میں تبدیلی کا حکم جاری ہوچکا ہے،وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے ہائر ایجوکیشن کو ہدایت کی ہیں کہ وہ صوبائی حکومتوں سے مشورہ سے انگریزی،اردو اور مطالعہ پاکستان کے پرائمری سے لیکر یونیورسٹی لیول تک کے نصاب میں ترامیم کریں اور نصاب میں ایسے باب شامل کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں جن سے ملک کی ترقی اور شناخت میں جمہوریت کے کلیدی کردار کی اہمیت اجاگر ہوسکے ،نصاب میں ترامیم لانے کیلئے میڈیا کی آزادی،آزادی رائے،الیکشنزاور عدلیہ جیسے موضوعات بھی شامل کرنے پر زور دیا گیاہے،اور اس مقصد کیلئے ہائر ایجوکیشن کو دوماہ کاعرصہ دیا گیا ہے،جس میں انھیں ماہرین تعلیم،یونیورسٹیوں اور پبلیشنگ اداروں کے ساتھ رابطہ کرنا ہوگا تاکہ اگلے سال کیلئے مضامین،تقاریر۔

(جاری ہے)

اساتذہ کیلئے رہنما اصول اور ان کی تربیت کے اہتمام سمیت غیر نصابی سرگرمیوں وامتحانات کے لئے متعلقہ مواد کی تیاری کی جائے،اور ترمیم شدہ نصاب کو ملک کی وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے اگلے سال میں شامل کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں۔
اس حکم کے سامنے آتے ہی مخصوص لابی کے جانب سے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں،آپ کو نیسنسی جے پال کے نام سے کچھ یاد آیا اگر نہیں آیا تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں اگست 2002میں امریکہ نے پاکستان کیلئے نینسی جے پال کو سفیر بناکر بھیجا،اس خاتون سفیرنے پاکستان میں دو برس تک کام کیا امریکی حکومت نے نینسی جے پال کو تین اہم ٹاسک دیکر بھیجا گیا تھا جن میں سے اولین ترجیع پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی،دوسراکام حدود آرڈینینس کا خاتمہ یا ترمیم،اورتیسراتوہین رسالت قانون کاخاتمہ یا اس میں بھی ترمیمکروانا تھا،اور امریکی سفیر نے اس کے لئے لابنگ کی میڈیا سے لیکر حکمرانوں تک سب کو اس پر تیار کیا اور ساتھ حکومت پاکستان کو نصاب میں تبدیلی کے عوض تین ارب اسی کروڑ کی خطیر رقم دی گئی،اور اس وقت کے ڈکیٹٹر پرویز مشرف کا یہ بیان اخباروں کی سرخی بنا کہ ؛؛پاکستان اوربھارت کا نصاب تعلیم مشترک ہونا چاہیے: ،پاکستانی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے امریکی ایما پر نصاب تعلیم سے سیرت رسولﷺ ،غزوات،جہاد کی آیات،فلسفہ شہادت،صحابہ کرام کے واقعات،مسلم فاتحین کے کارنامے،امہات المومینن کے واقعات سیمت ہر وہ مضمون کو نکل دیا جو کہ ایک طالب علم کو دین اسلام کی طرف راغب کرتا تھا،ان تبدیلیوں کے بعد امریکی صدر بش کا بیان سامنے آیا تھا پاکستان کا نصاب تعلیم میرے کہنے پر تبدیل کیاگیاہے۔


اب رہی سہی کسر پوری کرنے کے لئے قیام پاکستان کی جماعت مسلم لیگ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس بار نصاب تعلیم کوبالکل لبرل اور روشن خیال بنانے کیلئے چند ادارے اور افراد نے پروپیگنڈا شروع کردیا ہے،اور ایک مغربی نشریاتی ریڈیو نے اسے تیز کرنے کے لئے ان افراد کے بیانات کو ہوا دینا شروع کردیا ہے جو پاکستان کے نظریاتی قیام پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں ان دانش فروش لبرلز نے وزیراعظم کے حکم کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بابائے قوم کی گیارہ اگست والی تقریر کو نصاب میں شامل کیا جائے،ان کے نزدیک پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے واقعے کی تفصیلات، سویت یونین کا دعوت نامہ مسترد کرنے اور امریکی دعوت نامہ منگوانے کی وجوہات کو نصاب میں شامل کرنا چاہے اور بقول ان کے مسخ شدہ تاریخ کو سیدھا کرنا اور حقیقت پر مبنی تاریخ ان جیسے واقعات کو شامل کرنے سے فائدہ ہوگا،جبکہ ایک اور نے تو یہاں کہنے کی جسارت کر ڈالی کہ نصاب میں تبدیلی کرتے وقت برصغیر کے ہندو بادشاہ اشوک کے بارے میں مضمون شامل کیا جائے کہ کس طرح اس نے تشدد کی پالیسی کو ترک کیا اور اکبر بادشاہ کی؛صلح کل:کی پالیسی بھی ضروری ہے۔


اب یہ کیسے معلوم نہیں کہ اکبر نے نیا دین ایجاد کیا تھا اصل میں یہ کیمونسٹ جو کہ اب اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں کو اصل تکلیف یہ ہے کہ ہم روس کے قریب کیوں نہیں ہوئے اور تاریخ سے آنکھیں چراتے ہیں کہ روس نے خود ہندوستان کو اپنے قریب کیا،بہرحال ان حضرات کو جب بھی موقع ملتا ہے تو نظریہ پاکستان کو کمزور کرنے سے باز نہیں آتے،اس وقت بھی ان کو موقع ان کا دشمن امریکہ دے رہا کیونکہ امریکہ کی کافی عرصے سے خواہش ہے کہ پاکستان کا نصاب تعلیم مکمل تبدیل ہو اور اسلامی تاریخ کے بجائے ہزاروں سال پرانی تاریخ جو کہ مشکوک اور کہانیوں پر مشتعمل ہیں کو فروغ دیا جائے،طالبہ کو ہڑپہ،موہین جو دڑو ٹیکسلا جیسے مضامین پڑھیں جائییں اور اس کے لئے خود امریکی وفود باربار ان مقامات کا دورہ کرتے ہیں تاکہ حکومتوں کی ذہین سازی کی جائے مزے کی بات جن تاریخی مقامات اور واقعات اور افراد کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہے تو اسے نظر انداز کیا جارہا ہے اس کی ایک بڑی مثال محمد بن قاسم سے منسوب مقامات سے ہے جن کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔


اس صورت حال میں جب ملکی مسائل اور بہت ہیں جیسا بھی ہے یہ نصاب گذشتہ کافی عرصے سے نافذ ہے اس کو تبدیل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی نظریاتی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے اس کی جانب سے ایسا کرنا شائد حکومت بچانے کی ایک کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور ان اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ اندورنی وبیرونی طاقتوں کو خوش کرکے حکومت چلانا چاہتی ہے مگر اس سے ملک مزید اندھیروں میں ڈوب جائے گا،نصاب تعلیم ہر ملک کااپنے واقعات،فتوحات و ہیروز پر مشتعمل ہوتا ہے اور اس میں ان کی تاریخ ہے،انڈیا،سعودی عرب سے لیکر امریکہ تک سب کی اپنی تاریخ ہے اور اپنے طلباء کو اسی کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے،ان کی کتابوں میں مسئلہ کشمیر، 1965کی پاک بھارت جنگ، بنگلہ دیش کی علحیدگی پاکستانی ایٹم بم اور پاکستانی رہنماوں و شاعروں،وفاتحین کے واقعات موجود نہیں ہیں ان کے اپنی ترجیعات ہیں اور اسی سے قومیں بنتی ہیں،لہذا حکومت اس حد تک نہ جائے کہ ہر صوبے کے رہنما و تاریخ الگ ہو اور ملک میں مزید تفرقہ ہو،آخر میں ایک بات بابائے قوم کے حوالے تحریر کرنا چاہتا ہوں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا؛اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں،درحقیقت دو معاشرتی نظام ہیں،چنانچہ اس خواہش کو خواب وخیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کرایک مشترکہ قومیت کی تخلیق کرسکیں گے،یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے،جوبنیادی طور پر متصادم خیالات وتصورات پر مبنی ہیں۔

ان کاتصور حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے ان کی رزمیہ داستانیں،ہیرو ،قصے اور تاریخ الگ الگ ہے،اکثر ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے اس طرح ان کی تاریخ میں ایک فریق کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے ایسی دوقوموں کو اکثریت اور اقلیت کی حیثیت سے زبردستی ایک ریاست میں اکھٹا رکھنے سے بے چینی اور کشمکش میں اضافہ ہوگا اور بالاآخروہ ڈھانچہ ہی تباہ ہوجائے گا قومیت کی تعریف کے مطابق مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔اب مزید کیا تحریر کروں بابائے قوم کے الفاظ پر حکمران غور کرلیں سمجھنے والوں کے لئے کافی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :