گرم اور نرم تار

اتوار 2 نومبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

عمران خان نے جناب سراج الحق کوفرمائشی تنبیہ کی ہے کہ” وہ وکٹ کے دونوں طرف نہ کھیلیں ، واضح بتائیں ، تبدیلی کے ساتھ ہیں یا نہیں“۔ بات تو خان صاحب کی ٹھیک ہے ،واقعی سراج الحق وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے میں مصروف ہیں ، انہیں چاہیے یہ دو رنگی چھوڑ کے یک رنگی ہو جائیں، لیکن خان صاحب کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ جب تک سراج الحق غیر جانب دار رہتے ہوئے صرف حکومت پر برس رہے تھے تب تک خان صاحب اس کو میٹھا سمجھ کر ہپ ہپ کرتے رہے ، ایک آدھ بیان سے اگر حقیقی غیر جانب داری ٹپک رہی ہے تو تھو تھو کی بجائے اس تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے لیکن خان صاحب کا اصل مسئلہ ہی حوصلے اور برداشت کی کمی ہے ، ان کی چاہت ہے پورا ملک صرف ان کی مانے ،ان کی سنے، ان کی خواہش پر چلے ، جس نے جب بھی ان کی بات سے اختلاف کیا، خان صاحب لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ گئے۔

(جاری ہے)


####
محرم کے پہلے عشرے کی حساسیت میں سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے ، بلکہ خود محر م ہی پھیلتا چلاجا رہا ہے ، محرم سے کئی دن پہلے ہی اس کا آغاز ہو جاتا ہے ، اور مہینا ختم ہونے کے بعد بھی محرم کے آثار کافی دن باقی رہتے ہیں،پولیس بالخصوص کراچی پولیس ان دنوں بہت مصروف رہتی ہے، دن رات ایک ہو جاتے ہیں، صبح شام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ،محنت ، کوشش اور کام میں مگن رہتے ہیں،راہ چلتوں کو چھیڑنا، موٹر سائیکل والوں کو تنگ کرنا ، رکشوں اور ٹیکسیوں میں تانک جھانک کرنا، کاروں کی تلاشی لینا ، بسوں کے مسافر اتار اتار کر ان کی تلاشی لینا، اتنے کام بے چاری پولیس کو کرنا پڑتے ہیں، اگر آپ بالکل پر امن شہری ہیں، آپ کی گاڑی کے کاغذات بھی سو فی صد ٹھیک ہیں، آپ کے اپنے کاغذات بھی صحیح ، درست اور جدید قانونی تقاضوں کے عین مطابق ہیں ،تب بھی دوست بن کر پانی پینا اور بھائی بن کر چائے نوش کرنا پولیس کے بنیادی حقوق کے عین مطابق ہیں، آپ کنجوسی کی کوشش ہر گز نہ کریں ، جو ممکن بن پڑے، پولیس بھائی اور دوست کو پیش کردیں، اور کچھ نہ سہی تو صدقہ ہی سہی ، وہ بھی آخر اپنے ہی ہیں ، غیر تو نہیں۔


####
کچھ باخبر لوگوں کا کہنا ہے ”جناب زرداری اپنے پیارے لخت جگر کے ہاتھوں پریشان ہیں ، کہتے ہیں:”بلاول بات نہیں مانتا ، خود سری کا پتلا اور من مرضی کا پتیلا ہے، بات سوچے سمجھے بغیر کرتا ہے اور سوری ووری کا بالکل بھی قائل نہیں“۔ بعض لوگ زرادری صاحب کی اس پریشانی کو مصنوعی قرار دیتے ہیں ، ان کا خیال ہے یہ اس صدی کی سب سے بڑی گپ ہے ، ابا بیٹے میں ایکا ہے، انداز گفتگو اور انداز قیادت کی تقسیم کر لی گئی ہے ، ابا نرم تار ہے اور بیٹا گرم تار، دونوں اپنی اپنی ذمے داری خوب نبھارہے ہیں ، دونوں آراء اپنی اپنی جگہ صحیح ہو سکتی ہیں ،طریق واردات جو بھی ہو جیسا بھی ہو ، اس میں عوام کافائدہ کچھ نہیں ، پارٹی کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ،کیوں کہ پارٹی تقریبا ایکسپائر ہو چکی ہے، اب جو کچھ بھی ہے بھٹو بابا اور بے نظیر بی بی کمائی کے اثرات اور نشانات ہیں ، لیکن بابا اور بی بی کے نام پر جیالے اور جیالیاں آخر کب تک بے وقوف بنیں گے ، آخر ان کی بھی تان ٹوٹے گی ، ضروری نہیں یہ تان فورا ٹوٹ جائے ، ممکن ہے تان ٹوٹنے میں وقت لگے ،بہر حال۔

۔۔۔۔
نئی قیادت اور نیا زمانہ آنے ہی والا ہے ، یہی سب کچھ سوچ کر عمران خان 21نومبر کو سندھ فتح کرنے کا جذبہ لے کر لاڑکانہ آرہے ہیں ، شاہ محمود قریشی ان کے لیے میدان ہم وار کر رہے ہیں، بھٹو کی پوتی کو تحریک انصاف میں لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں،کچھ قوم پرستوں کو بھی لپیٹنے اور سمیٹنے کی تیاری کر رہے ہیں ، اگر عمران خان اندرون سندھ لمبے ہاتھ مارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یقینا بلاول و بختاور ، آصفہ اور آصف کو شان دارماضی اور جان دار حال کی جگہ بے حال اور تباہ حال مستقبل کی تیاری کرنی چاہیے ، لیکن ”زرداری اینڈ کمپنی “ کے مستقبل کو مالی پریشانی کا کوئی امکان نہیں ،کئی نسلوں کے لیے کافی کچھ جمع ہے ، ویسے بھی سندھ کی سیاست اور قیادت میں اس کمپنی کا ہاتھ تو رہے گا ہی نا ، مطلب کمپنی خسارے میں رہ کر بھی نفع میں حصہ دار رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :