سفرِ حج۔ قسط نمبر2

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

عمرہ کی ادائیگی کے بعد بروز جمعہ بتاریخ 5 ستمبرہمارے گروپ کو زیارت کے لیے مدینہ منورہ بسوں پر روانہ کر دیا گیا۔معلم نے گروپ کے پاسپورٹ بھی بس ڈرایئور کے حوالے کر دیے جو ہمارے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔معلم کے نمایندے نے پاسپورٹ سے ہرعازمین کا نام پکار کے گنتی پوری کی تب بس چلی۔یہی طریقہ جدہ بس پر سوار ہوتے ہوئے بھی اختیا رکیا گیا تھا۔

ساری بسیں ماشاء اللہ آرام دہ ہیں۔تقریباً آٹھ گھنٹے بس کے سفر کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گئے۔معلم نے راستے میں ناشتے کے پیکٹ بمعہ ٹھنڈا پانی اورجوئس دیے ۔بس نے ہمیں مدینہ منورہ میں شاہراہ علی ابن ابی طالب پر واقع ہوٹل دار طابة پہنچا دیا۔ہوٹل کے کمرے میں ہمارے سمیت چھ عازمین کو ٹھیرایا گیا۔جمعہ کا دن اور نماز فجر کا وقت تھا۔

(جاری ہے)

سامان ہوٹل میں رکھ کر نماز فجر کے لیے مسجد نبوی پہنچ گئے۔

راستے میں سڑک کراس کرنے کے لیے عازمین حج کی سہولت کے لیے انڈر پاس میں برقی سیڑھیاں اور لفٹیں لگی ہوئی ہیں۔ ہمیں مسجد نبوی کی محراب والی سمت ہوٹل میں ٹھرایا گیا تھا۔ اس سمت میں مسجد نبوی کا باب مکہ پڑتا ہے۔ گیٹ کی دیوار پر ایک گھڑی لٹکی ہوئی ہے اور ساتھ ہی آذان کے اوقات بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے پانچ نمازوں کے آذان کے اوقات محفوظ کر لیے تاکہ وقت پر مسجد میں پہنچا جا سکے۔

ادائیگی نماز کے بعد ہوٹل آئے ناشتہ کیا اور جمعہ کی نماز تک آرام کیا۔ دوپہر کے کھانے سے فار غ ہو کرنمازِ جمعہ کی تیاری کے بعد مسجد نبوی پہنچ گئے۔اس طرح پہلے دن مدینہ منورہ کے قیام کے دوران پانچ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں۔یہ ہماری زندگی کے خوش گوار اور خوش قسمتی کے دن تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ8 دن قیام کے دوران ایک جمعہ فجر کی نماز کے ایک ہفتہ بعد دوسرے جمعہ کے دن عشاء تک40نمازیں باجماعت مسجد نبوی میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

اللہ سے دعاء ہے کہ وہ قبول فرمائے۔ہمارے روم میٹ عازمین حج نے باب مکہ کے اندرداخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر اپنے لیے نماز کی جگہ مخصوص کر لی تھی۔ ہم سب لوگ اس جگہ نماز کے اوقات میں جمع ہو جاتے اور نماز ادا کرتے۔ ہمارے دوسرے روم میٹ تو نماز کے بعد واپس ہوٹل چلے جاتے تھے مگر ہم نے ظہر کے بعد مسجد میں ہی بیٹھنے کا پروگرام ترتیب دے دیا تھا اور نماز عشاء پڑھ کر ہی ہوٹل میں واپس آتے تھے۔

سعودی حکومت کی طرف سے مسجد نبوی میں نمازیوں کے لیے بہتریں انتظامات کیے ہوئے ہیں۔مسجد مکمل ائیر کنڈیشنڈہے۔ ہر نماز کے بعد مسجد کی چھت میں بنے ہوئے بڑے بڑے گنبد چھت پر ٓاٹو میٹک طریقے سے سرک جاتے ہیں اور آسمان نظر آنے لگتا ہے۔تھوڑی دیر بعد پھر سرک کراپنی جگہ واپس آ جاتے ہیں۔شاید یہ طریقہ مسجد میں تازہ ہوا کے داخل ہونے کے لیے کیا گیا ہے۔

جگہ جگہ آب زم زم کے ٹھنڈے کولر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر پلر کے پاس صف کے کونے میں ریکس میں جوتے رکھنے کا بہترین نظام ہے۔ مسجد میں بہترین ساونڈ سسٹم ہے۔ امام کی قرت صاف صاف سنائی دیتی ہے۔مسجد میں بہترین قالین کی صفیں بچھائیں گئیں ہیں۔ ان قالینوں پر سعودی قومی نشان دو تلواراور درمیان میں کھجور کا درخت نٹ کیا گیا ہے۔لگتا ہے یہ صفیں مسجد کے لیے خاص طور پر بنائی گئیں ہیں۔

مسجد کے پلروں پر گولائی میں تلاوت کے لیے ہر سائز کے قران پاک وافر مقدار میں موجود ہیں۔ عازمین حج بھی ہدیہ کرواکر مسجد میں تلاوت کے لیے قران پاک رکھتے ہیں۔ زاہریں نماز سے پہلے اوربعد قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں۔ مسجد میں عربی اور اردو میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔مکہ گیٹ کے اندر دیوار پر مسائل معلوم کرنے کے لیے فون کی سہولت موجود ہے۔

لوگ اکثر مسائل معلوم کرتے ہوئے دیکھے گئے۔یہاں ہی سے اوپر کے فلور پر مفت کتابچے بٹ رہے تھے جن میں سی ڈی اور آخری پارے کی تفسیر بھی شامل تھی۔ معزورین کے لیے کرسی پر بیٹھ کے نماز پڑھنے کے لیے وافر مقدار میں کرسیاں ریکوں میں موجود ہیں۔ بعض جگہ دیواروں پر ویل چیئرز کے فوٹو بنے، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ویل چیئرز اس جگہ رکھی جائیں یا ویل چیئر والے حضرات نماز یہاں ادا کریں۔

ویسے کسی بھی صف میں لوگ ویل چیئر پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ہر روزعصر کی نماز کے بعد مقامی عرب اپنی مہمان نوازی کی رسم کو برقرار رکھتے ہوئے صفوں کے درمیان پلاسٹک بچھا دیتے ہیں۔ کھجوریں ،چائے ،عربی کہوہ، نان اور ٹھنڈے آب زم زم سے نمازیوں کی تواضع کرتے ہیں۔مسجد میں داخل ہونے کے لیے چاروں طرف دروازے موجود ہیں۔مسجد کے چاروں اطراف وسیع کھلی جگہ ہے جس میں سایہ کے لیے خودکار برقی چھتریاں نصب ہیں۔

سعودی حکومت نے مسجد کافی کشادہ کی ہے اور مزید کشادگی کے پروگرام بھی ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف زاہرین کی رہائش کے لیے فلک بوس عمارتیں موجود ہیں۔ چاروں طرف سڑکیں بھی کشادہ ہیں۔ چاروں طرف سے عازمین حج کے مسجد میں داخل ہوتے وقت روح پرور منظر ہوتا ہے۔ زاہرین کو چھاؤں مہیا کرنے کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں بڑے بڑے پلروں پر چاروں طرف خود کار الیکٹرونک چھتریاں لگی ہوئی ہیں جوظہر کی نماز سے پہلے آ ٹو میٹک طریقے سے کھلتیں ہیں اور مغرب سے تھوڑا پہلے آٹومیٹک طریقے سے بند ہو جاتیں ہیں۔

جب یہ چھتریاں کھلی ہوتیں ہیں تو پھولوں جیسی لگتیں ہیں اور جب بند ہوتیں تو کلیوں جیسی لگتیں ہیں۔مسجد میں ایک میزانائیں فلور موجود ہے برقی سیڑیوں سے نمازی میزانائیں فلور جا کرپر بھی نماز پڑتے ہیں۔ ریاض الجناح پر حاضری کے لیے لوگ باب لنساء سے داخل ہوتے ہیں ۔ریاض الجناح پر دو رکعت نوافل ادا کرنے کے بعد روضہ رسول پر حاضری دیتے ہوئے باب مکہ کی سمت باب بقیع سے باہر نکلتے ہیں۔

روضہ رسول اللہ کی زیارت کے لیے داخل ہونے کا ایک راستہ دائیں جانب باب السلام سے بھی ہے۔ باب ا لنساء کے علاوہ ہم بھی اس راستے سے زیارت کے لیے داخل ہوئے اور زیارت کی۔ لوگ ریاض الجناح میں باب ابوبکر  سے بھی داخل ہوتے ہیں۔ روضہ رسولکے سامنے کھڑے ہو کر بسم اللہ وصلاة وسلام الارسول اللہ پڑھتے ہیں۔ رسولاللہ کے روضے پر ہاتھ اٹھا کر دعاپڑھنے سے وہاں پر موجود شرتے روک دیتے ہیں کیونکہ یہ شرک ہے دعا صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے۔

اندر حضرت عائشہ  کا ہجرہ ہے۔رسولاللہ جس جگہ بیٹھ کر وفود سے ملاقات کرتے تھے کی جگہ ہے۔اصحاب صفہ کا چبوترہ،رسول اللہ کا پرانا ممبر، ایک نیا ممبر،دونوں کے درمیان ریاض الجناح جس میں زاہرین دو رکعت نماز نفل ادا کرتے ہیں۔ اسی جگہ ایک سفید سنگ مر مر کا ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جس پر چڑھ کر موذن پانچ وقت کی آذان دیتا ہے۔ ہم نے عصر،مغرب اور عشاء کی آذانیں اس جبوترے سے سنیں اور وہیں تینوں نمازیں بھی ادا کیں۔

ریاض الجناح میں لوگ دو رکعت نفل ادا کرنے کے بعد باہر نکل کر روضہ رسولاللہ کی زیارت کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت ابوبکر خلیفہ اول اور حضرت عمر خلیفہ دوم کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہے۔ یہاں حضرت ابوبکر  کے روضے پر اسلام علیک امیر المومنین ابو بکر صدیق، اس کے بعد حضرت عمر کے روضے پر اسلام علیک امیرالمومنین عمر فاروق پڑھتے ہیں۔

پھر مسجد سے باہر اور ملعقہ ساتھ ہی قبرستان بقیع ہے جس میں حضرت عثمان اور دوسرے صحابہ  کی قبریں ہیں۔ایک بروزجمعرات عشاء کی نماز کے بعد لوگ باہر نکلنے لگے تو معلوم ہوا کہ بھیڑ چونٹی کی چال چل رہی ہے لوگوں کوباہر نکلنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ راستے میں قبرستان بقیع کے نیچے میدان میں اہل تشیع دعاء کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے چاروں طرف شرتے لگے ہوئے تھے۔

مزید دیکھا گیا کہ ہر روز بوری حضرات نماز عشاء کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہیں ممکن ہے وہ بھی دعاء کے لیے آتے ہوں۔زاہرین قبرستان بقیع میں جوق در جوق زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ہم روزانہ مسجد کی مہراب والی سمت سے نماز کے پڑھ کے باہرنکلتے ہیں اور نماز کے لیے بھی اسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ اس راستے میں کنکریٹ کے چند کھوکے بنے ہوئے ہیں۔

ان میں قرات کے کیسٹ ،کھجوریں،کتابیں، جاہ نمازیں،تسبیاں ،ٹوپیاں اور دوسری اشیاء فروخت کے لیے موجود ہیں۔ نماز کے بعد اس راستے میں ایک چھوٹا سا بازار لگتا ہے۔ کچھ پردے دارخواتین زمین پر اشیاء رکھ کر بھی فروخت کر تی ہیں۔
بقیع قبرستان کی دیوار کے سامنے کھلی جگہ پر مسجد کے صحن کے برابرہر نماز کے بعد ایک چھوٹا سا بازار لگ جاتا ہے جس میں لوگ مختلف اشیاء خریدتے ہیں۔

بقیع قبرستان کی بونڈری وال میں مسجد والے حصے اور مسجد سے باہر روڈ کے سامنے دوکانیں موجود ہیں جن میں فروخت کے لیے مختلف اشیاء موجود ہیں نماز کے وقت یہ دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ نماز فجر کے بعدمسجد سے نکلتے ہی بسوں والے صدائیں بلند کرتے ہیں کہ چلو چلو مسجد قبا ،مسجد قبلتین ،اُحد کا پہاڑ، اُحد میں میدان جنگ کی جگہ، اُحد میں صحابہ  کے قبرستان کی زیارت کے لیے چلو۔

دس ریال میں ان ساری جگہوں کی زیارت کرواتے ہیں۔ مسجد قبا میں دو رکعت نماز کی فضیلت رسول اللہ نے بیان کی گئی ہے۔ ہم نے بھی مسجد قبا میں دو رکعت نماز ادا کی۔ اللہ قبول فرمائے ۔ہمارے گروپ نے زیارت کے لیے ہوٹل میں ہی بس کا بندوبست کیا تھا دس ریال فی سواری لیکر ہمیں بھی ان جگہوں کی زیارت کرائی گئی۔
قارئین! آج کل کے دور کی سفری سہولیات اور رسولاللہ کے دور کے سفر کا موازنہ کیا جائے توعقل دھنگ رہ جاتی ہے۔

اونٹ اور پیدل سواری میں مہینوں لگ جاتے ہوں گے اور دھوپ کی تپش اور پانی قلت کا مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہو گا۔ اللہ کے بندے اللہ کے گھر کی طرف تلبیہ پڑتھے رواں دواں ہوتے ہوں گے۔
عازمین حج نے مدینہ منورہ سے اپنے رشتہ داروں ،دوستوں، بچوں کے لیے مختلف اشیاء خریدیں جس میں جاہ نمازیں، ٹوپیاں،تسبیاں،عربی اسکارف اور دوسرے ملبوسات اور مختلف اشیا شامل ہیں۔

یہاں کی خاص سوغات کھجوریں ہیں۔ ان کے خریدنے کا مسئلہ درپیش آتاہے۔ عازمین حج نے مختلف قسم کی کھجوریں خریدیں جس میں عجوہ کھجوریں نمائیں تھیں۔کسی نے ہوٹلوں کے نیچے مارکیٹوں میں، مسجد کے راستوں میں موجود مختلف دکانوں اور کچھ نے کجھوروں کے لیے مخصوس کھجور بازار جا کر خریداری کی۔ مسجد اور ہمارے ہوٹل کے راستے میں باپردہ خواتیں کبوتروں کے لیے دانے فروخت کرنے کے لیے راستے میں بیٹھی ہیں۔

اسی راستے میں اکا دکا بھیک مانگنے کے لیے خواتین بیٹھی ہیں۔ عازمین حج دانے خرید کر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔ مسجد نبوی میں داخلے والے مین گیٹ والے حصے میں عورتوں کی نماز کے لیے جگہ مخصوص ہے ۔الحمداللہ مسجد نبوی میں40نمازیں پوری ہونے کے بعد ہفتہ کی صبح فجر کی نماز کے بعد مکہ مکرمہ جانے کا پروگرام بنا۔سب لوگ بسوں میں سوار ہو گئے۔ معلم کے نمایندے نے پاسپورٹ سے بنائی گئی لسٹ کے مطابق تمام عازمین حج کی حاضری لی۔

عمرہ کے لیے احرام پہنے ،تلبیہ پڑھتے عازمین حج مکہ مکرمہ کی جانب سفر پر روانہ ہوئے۔عازمین حج نے راستے میں ایک مسجد میں نماز ظہر اداکی اور عمرہ کی نیت کی ۔جدہ ایئر پورٹ سے مکہ مکرمہ کا سفر رات کا تھا جس کی وجہ سے ہم راستے کا مشاہدہ نہ کر سکے۔مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کاسفر دن کا تھا اس لیے راستے کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔ یہاں سڑکیں کشادہ ہیں۔

سفر شروع ہوتے ہی پہاڑیاں ہی پہاڑیاں نظر آئیں۔ پہاڑیاں موسمی تبدیلی اورتغیر کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ایک بس کے ہم سفر کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے یہ پہاڑیاں توڑی ہوں۔ بقول ہمارے روم میٹ، بھائی عبدالمجید قریشی کے ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑیوں پر پتھروں کی فصل اُگی ہوئی ہو۔ آدھے راستے کے بعد کچھ حصہ ریگستان کا بھی تھا۔کسی بھی جگہ کوئی کھیتی باڑی نظرنہیں آئی نہ ہی کھجورں کے باغات نظر آئے اور نہ ہی ہریالی نظر آئی۔

شاید اس کی وجہ موٹر وے ہے جو عموماً آبادیوں سے باہر بنائے جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ پہنچنے پر پھر پہاڑیاں شروع ہو گئیں۔ہمارا قافلہ تقریباًآٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد مکہ مکرمہ پہنچا۔ بس نے ہمیں رہائش گاہ بلڈنگ نمبر605 مکتب نمبر 75 منطقہ عزیزیہ میں پہنچا دیا۔وہی جگہ جو 40 دن مکہ مکرمہ میں ہمارے حج کے دوران قیام کے لیے مخصوص ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عازمین حج عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلے گئے۔

ہم۸دن بعدمدینہ منورہ کی زیارت کے بعدواپس مکہ مکرمہ آگئے۔ بلڈنگ نمبر 605بی کے استقبالیہ کی دیواروں پر مختلف اشتعار آویزاں ہیں۔ پاکستان حج مشن کے مکہ مدینہ اور جدہ کے مفت ہیلپ نمبر،سعودی حکومت کا معلومات کے لیے مفت نمبر کے اشتعارات لگے ہوئے ہیں۔ کچھ پرعازمین حج کی رہنمائی کے ہدایات درج ہیں۔ان میں سے ایک اجتماعی قربانی کے متعلق اشتعار پر لکھا ہوا ہے کہ جب سے اسلامی ڈیو لپمنٹ بنک کی اجتماعی قربانی کی سکیم کے تحت اجتماعی قربانی ہو رہی ہے 10 لاکھ قربانی کے جانوروں کا گوشت فریز کر کے28 غریب مسلمان ملکوں کو بھیجا جا رہاہے جبکہ اس سے قبل اس گوشت کو بلڈوزر کے ذریعے منیٰ زمین میں دبا دیا جاتا تھا جو ایک ضیاع تھا۔

مکاتب پاکستان کا ایک بڑا نقشہ جس میں منیٰ،مزدلفہ اور میدان عرفات،ریلوے اسٹیشن ،پولز نمبرز اور پیدل چلنے کے راستے وغیرہ دکھائے گئے ہیں بھی لگا ہوا ہے۔اس کے مطابق پاکستانی مکاتب کی تعداد 109ہے،اسی طرح ہمارے معلم جمال عثمان خان کابھی اشتعار لگا ہوا ہے جس میں تصویروں کی مدد سے عازمین حج کو حج کرنے کے طریقے سیکھائے گئے ہیں۔ یہاں پاکستان حج مشن میں معزورین کے لیے ویل چیئرز کا بھی بندوبست ہے جو خریدی یا زر ضمانت جمع کروا کر حاصل کی جا سکتیں ہیں۔

ہمارے گروپ کے ایک ساتھی نے اپنی بیوی کے لیے 200ریال جمع کرو اکے ویل چیئر حاصل کی ہے۔واپسی پر ویل چیئر جمع کروا کے جمع شدہ رقم واپس مل جائے گی۔ اب بورڈ لگا دیا گیا ہے کہ یہ سہولت ختم ہو گئی ہے۔ شاید اسٹاک ختم ہو گیا ہو گا۔ ویسے میڈیکل اسٹورز سے بھی ویل چیئر خریدیں جا سکتیں ہیں۔ ہم نے تو کراچی میں ہی اپنے لیے ویل چیئر خرید لی تھی تاکہ پریشانی سے بچا جا سکے۔

استقبالیہ پر پاکستان حج کا عملہ رہنمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ عازمین حج کے بیٹھنے کے لیے استقبالیہ میں صوفہ سیٹ اور کرسیاں پڑیں ہیں۔ استقبالیہ کی جگہ ایئر کنڈیشنڈ اور خاصی وسیع ہے۔استقبالیہ میں ایک ٹی وی سیٹ پڑاہے جس پر24 گھنٹے بیت اللہ کا لائیو پروگرام آتا ہے۔رہا ئش گاہ منطقہ عزیزہ میں، حج مشن پاکستان نے رہائش اور کھانے کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔

کھانے کے ۱وقات طے شدہ ہیں۔دیوار پرہفتہ بھر کا مینیو لگا ہوا ہے۔ ہماری نظر دیوار پر لکھے ٹائم ٹیبل پر پڑی، لکھا ہے صبح کا ناشتہ 7بجے سے 10بجے تک،دوپہر کا کھانا1 بجے سے 4 بجے تک اور رات کا کھانا7 بجے سے11 بجے تک ملے گا جس پر ممکن حد تک عمل بھی ہورہا ہے۔ ہر کھانے کے ساتھ کولڈڈرنکس ، جوئس،لسی،دہی، فروٹ اور کبھی کبھی حلوہ بھی دیا جاتا ہے۔

اب ہم نے حج کی ادائیگی تک مکہ مکرمہ میں ہی رہنا ہے۔ انشاء اللہ13/کتوبر کو کراچی کی واپسی ہے۔ کچھ دیر تک رہائش گاہ میں سامان سیٹ کرنے کے بعد رفقاء عمرہ کرنے چلے گئے۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد گروپ کے لوگ اپنے اپنے کمروں بستروں پر لیٹ گئے۔ اس کے بعد دوسرے عازمیں حج کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹس صاحبان نے بیت اللہ میں جا کر پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنا شروع کی جو اب تک جاری ہیں۔

رہائش گاہ کے سامنے بسیں بیت اللہ لے جانے کے لیے ہر وقت تیار ملتیں ہیں اور واپس بھی لاتیں ہیں۔ پاکستان حج مشن کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا بھی بہترین انتظام ہے۔ بیت اللہ میں نماز پڑھنے کے لیے عازمین حج ہر نماز کے لیے بس سروس سے دو بسیں تبدیل کر کے جاتے ہیں۔ ہمارے روم میٹس کے عازمیں حج نے جیسے مسجدنبوی میں باب مکہ کے اند ر ایک مخصوص جگہ پرنماز ادا کیا کرتے تھے اسی طرح ہمار ے روم میٹ صاحبان نے بیت اللہ میں بھی باب عبدالعزیز سے داخل ہونے اور کسی ایک مخصوص جگہ کا انتخاب کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگر رہائش اور بیت اللہ میں فاصلہ زیادہ ہونے ،اور دوسری وجہ دو بسیں تبدیل کرنے سے یہ سلسلہ نہ چل سکا۔

ہمیں دن میں صرف پہلے تین نمازیں پھر دوبا جماعت بیت اللہ میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ پھر کچھ دن تک ہم عصر سے عشاء تک بیت ا للہ میں ہی پڑاو ڈالے رہے تاکہ وقت پر نماز ادا کی جا سکے۔ ہمارا بیٹا ہمیں بیت اللہ کے سامنے سیڑیوں کے قریب پہنچا دیتا تھا اور ہم نماز کے بعد عازمین حج کو طواف کرتے دیکھ کر روحانی سکون حاصل کرتے رہے ۔ایک دن بیٹا مطاف میں بیت اللہ کے قریب تک لے گیا۔

ہم نے بیت اللہ پر نظریں گاڑ دیں اور خوب دعائیں مانگیں۔کچھ دن بعد یہ سلسلہ بھی نہ چل سکا کیونکہ مجھے میرا بیٹا ویل چیئر پر سارے سفر ، جدہ ایئر پورٹ ،مسجد نبوی اور اب یہاں بیت اللہ لے جاتا اورواپس لاتا رہا ہے۔ ویلز چیئر ہم پاکستان سے ہی ساتھ لیکر گئے تھے اور بیٹے کو بھی اسی مقصد کے لیے ساتھ حج پرلے گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں رہائش گاہ مسجد نبوی کے قریب تھی اس لیے لوگ پیدل ہی نمازیں ادا کرنے جاتے تھے اور ہم ویل چیئر پر نماز ادا کرنے مسجد نبوی جاتے تھے۔

یہاں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ رہائش سے دور ہے۔ پہلے رہائش گاہ کے دوسرے فلور سے ،پھر بے تحاشہ رش میں دو بسوں کی تبدیلی اور دو بسوں میں ویل چیئر چڑھانا اُتارنا تکلیف دہ عمل ہے۔ کئی دفعہ ہم بس پر چڑھ گئے اور بیٹا ویل چیئر سمیت پیچھے رہ گیا اور دوسری بس میں سوارر ہو کر آیا۔بسوں میں عازمیں حج کی زیادہ تعداد اور بس میں سوار ہونے پر تکلیف کی وجہ سے کچھ دن بعد ہم نے مجبوراً نمازیں رہائش کے قریب میں ہی مسجدعبداللہ بن عمران میں ادا کرناشروع کیں۔

معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ کہ ہماری رہائش گاہ منطقہ عزیزہ حرم کے حدود میں شامل ہے یہاں کی مسجد میں نماز پڑھنا بھی حرم میں نماز پڑھنے جیسا ہے۔ ویسے رہائش گاہ کے گراونڈ فلور پر بھی نماز کا انتظام ہے۔ کچھ عازمین حج بھی قریب مسجد میں ہی نماز ادا کرنے جاتے ہیں۔ مسجد مکمل ایئر کنڈیشنڈ ہے۔حج اور عمرے کے متعلق چھوٹے چھوٹے کتابچے مفت لے جانے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

عرب کی مہمان نوازی کو جاری رکھتے ہوئے یہاں مسجد میں ایک عدد ریفریجرایٹر موجود ہے جس میں سے ہر نمازی ٹھنڈے پانی کی بوتل ساتھ لے جا سکتا ہے۔ لکھاہوا ہے کہ ہر نمازی صرف ایک پانی کی بوتل لے کر جائے مگر حجاج حضرات دو دو تین تین بولتیں لے جا رہے ہیں۔ایک طرف کارٹن میں کھجوریں رکھی ہوئی ہیں نمازی کھجوریں نماز کے بعد ساتھ لے جاتے ہیں۔ روم میٹس جنہوں نے دوسری مساجد میں بھی نمازیں ادا کیں نے بتایا کہ ایسا انتظام مکہ کی تمام مساجد میں موجود ہے۔

اس مسجد میں ایک نئی بات دیکھی کہ موذن کے پا س ایک ٹرانسسٹر ریڈیورکھا ہوا ہے۔ آذان سے چند سیکنڈ پہلے وہ اسے آن کرتا ہے کچھ سن کر پھر آذان دیتا ہے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایسے ہی ٹرانسسٹر ریڈیومکہ مکرمہ میں تمام مساجد میں رکھے ہیں موذن حضرات پہلے خانہ کعبہ کی آذان سنتے ہیں اس کے بعد آذان دیتے ہیں۔ اس مسجدمیں حج کے بارے اردو میں درس بھی ہوتا ہے۔


صاحبو! مکہ مکرمہ کسی بھی یورپی شہر یا دنیا کے کسی بھی شہر سے کم خوبصورت نہیں۔ وہاں تو شاید ضروریات زندگی خود شہروں میں ہی دستیاب ہوں اور حاصل کرنے میں آسانی بھی ہوں، موسم بھی مدد گار ہو اور زمینیں بھی زرخیز ہوں ۔ مگر مکہ مکرمہ میں تو باہر سے ضروریات زندگی لائی جاتیں۔ مکہ میں زری زمین نہیں۔ مکہ میں جدہ سے سمندری پانی لایا جاتا ہے اور صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

پھر بھی دنیا کی ہر چیز یہاں مارکیٹوں میں دستیاب ہیں۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے(باقی آیندہ)
مدرس نے ایک دن بتایا مکہ مکرمہ کی زمین دنیا میں سب سے مہنگی زمین ہے۔ مسجد کے باہر ایک بلڈنگ کے سامنے کچھ بینچ رکھے ہوئے ہیں ۔یہ عربی تہذیب کا مہمان خانہ ہے مہمانوں کے لیے بلڈنگ کے اندر بھی صوفے رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں سے اس مسجد کے نمازی اورجوبھی گزرتا ہے اُس کو مفت چائے،قہوہ اور کھجوریں پیش کی جاتی ہیں۔

ایک دن اسی مسجد کے راستے میں ایک 6 سال کا خوبصوررت عربی بچہ تھرماس میں سے قہوہ لوگوں کو پلا رہا تھا ہم بھی چند گھونٹ قہوہ سے لطف اندوز ہوئے۔ یہ بچہ لوگوں کو کھجوریں بھی بانٹ رہا تھا۔ ایک دن ایک عربی مسجد کے راستے میں کھڑا پانی پلا رہا تھا۔ایک دن اسی مسجد کے راستے پر ایک بزرگ لوگوں کو کھجوریں بانٹ رہا تھاجس سے ہم نے بھی پانچ کھجوروں کے دو پیکٹ لیے ۔

ایک دن ہماری رہائش گاہ کے سامنے ایک شخص پانی کی بوتلوں کا پورا ٹرالر لایا اور عازمین حج میں کارٹنوں میں پیک پانی کی بوتلیتں تقیم کیں۔ پھر ایک دن پوری بلڈنگ میں 500 بندوں کو کوئی گفٹ کی تھلیں بانٹ گیا جس میں خشک میوا جات جوس اور کولڈ شامل ہے یہ گفٹ حجاج حضرات منیٰ میں کا م آیا کیونکہ وہاں کھانے لے لیے لائٹ آئٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک دن ہم رہائش کے نیچے فجر کی نماز کے بعد کچھ عازمین حج کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک صاحب فجر کے بعد اپنی جیپ میں ناشتے کے لیے رول لے آئے اور بانٹ گئے۔

ایسے رول اس نے دوسری رہائش گاہوں میں بھی بانٹے۔ بیت اللہ میں نماز جمعہ کے بعد کچھ حضرات نے بریانی کا ایک پورا ٹرالر نمازیوں میں تقسیم کیا۔ پانی تومکہ مکرمہ میں جگہ جگہ عربی حضرات حاجیوں کو پلاتے ہی رہتے ہیں۔ غرض اللہ کے گھر میں رہنے والوں نے اللہ کے مہمانوں کی بہت پیار سے خدمت کی اور خوب کی۔ ہماری رہائش منطقہ عزیزہ شمالی میں ہے اور شاہراہ عزیزیہ پر واقع ہے۔

کراچی کے ڈیفنس جیسا علاقہ ہے۔ ہم نے نماز جمعہ بیت اللہ کے امام کی اقتدا میں پڑھی ۔ ہمارے لوگوں کو جو معلومات ملیں اور جو انہوں نے ہمیں بتائیں ان کے مطابق بیت اللہ میں ہر نماز کے لیے مختلف امام ہیں۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحٰمان السدیس ہے اور باقی اس کے نائب امام ہیں۔ ان کا سلیکشن ٹیلنٹ کی بنیا دپر پوری اسلامی دنیا سے ہوتا ہے۔ جب ہم مکہ مکرمہ میں مدینہ منورہ سے آتے ہوئے داخل ہو رہے تھے تو مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کا مشاہدہ کیا۔

جگہ جگہ پہاڑ توڑ توڑ کر بلڈنگ بنائی گئیں ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ایک عجیب منظر دیکھا،پہاڑوں پر نظر پڑی تو نوٹ کیا کہ شایدپہاڑ توڑ کر ان کی چوٹیوں پر سڑک بنائی جا رہی ہے یا کچھ اور پلاننگ ہے۔یہ سلسلہ مکہ مکرمہ تک پھیلا ہوا ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔مکہ مکرمہ پہاڑوں کی وادیوں میں آباد ہے۔ پہاڑوں میں سرنگوں کے ذریعے دوسرے حصوں کو ملایا گیا ہے۔

ہر طرف سرنگیں ہی سرنگیں ہیں۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے معلوم کیا جو 13 سال سے مکہ میں ٹیکسی چلا رہا اور پاکستان کے علاقے وزیرستان کا رہائشی ہے تو اس نے بتایا مکہ میں ایسی 54 سرنگیں ہیں۔بیت اللہ کے راستے میں بھی پہاڑ توڑ کر کثیر منزلہ بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں۔ ماشاء اللہ مکہ مکرمہ میں بڑی بڑی شاہ راہیں ہیں ۔سارے مکہ مکرمہ میں اور بالخصوص بیت اللہ کے راستے میں بلندوبالا اور فلک بوس عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور مزید زیر تعمیر ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے رہائش گاہوں سے عازمین حج کو بسیں ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کی سرنگ سے گزار کر پہاڑوں کے درمیان پارکنگ تک پہنچا کر اُتاردیتے ہیں پھر دوسری بس کی شٹل سروس سے بیت اللہ کے قریب پہنچایا جاتا ہے۔عازمین حج یہاں سے پیدل بیت اللہ شریف جاتے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان پارکنگ میدان کے سامنے ہی بسوں کو دوسری تقریباًایک کلو میٹر سرنگ سے گزرنا ہوتا ہے اسی طرح واپسی پر بھی آنے والے راستے ایک کلو میٹر سرنگ سے گزرناہوتا ہے۔

دونوں سرنگیں کشادہ ہیں ان میں سے ایک میں دو رویا اور ایک میں تین رویاٹریفک گزرتی ہے۔ بیت اللہ میں بیٹھے ہم نے ایک دن ایک بات نوٹ کی کہ بیت اللہ کے خلاف کو اوپر اُٹھا دیا گیا ہے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کچھ لوگ غلاف کے ٹکڑے قینچی سے کاٹ کر تبرک کے طور پر ساتھ لے جاتے ہیں اس لیے ایسا کیا گیا۔ بیت اللہ میں ڈولپمنٹ کا کام جاری ہے۔ بن لادن کمپنی کی بیسیوں کرینیں دن رات کام کر رہی ہیں نماز کے اوقات میں کام روک دیا جاتا ہے۔

مطاف کی جگہ کے اوپر طواف کے لیے دو گولایاں بنائی گئی ہیں۔بیت اللہ کے ارد گرد مین بلڈنگ کی چھت کو وسعت دیکر تیسری گولائی بنا دی گئی ہے جسے طواف کے لیے کھول دیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ حج کے دنوں میں ویل چیئر پر طواف کرنے والوں کے لیے پہلی اور دوسری گولائی مخصوص کی جائے گی ۔ہم نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی البم خریدیں۔مکہ مکرمہ کی البم کے مطابق بیت اللہ میں داخلے کے باب ملک عبدالعزیز سے لیکر با ب ملک فہد تک چھوٹے بڑے26 دروازے ہیں۔

اسی طرح مسجد نبوی میں داخلے کے لیے 10 دروازے ہیں۔ بیت اللہ کے ارد گرد بہت سی بلند بالا عمارتیں موجود ہیں اور کئی عمارتیں زیر تعمیر بھی ہیں۔ ایک انڈیا کا باشندہ جو اب سعودی عرب میں سول انجینئر ہے۔ ہمارے گروپ کے دوست کے ساتھ حرم کے باہر ملاقات کر رہا تھا ۔اس نے بتایا کہ بیت اللہ کے ارد گر د عمارتیں توڑ کر اسے وسیع کیا جائے گا مطاف کو عبدالعزیز گیٹ تک توسیع دی جائے گی ۔

یہ سعودی حکومت کا 20سالہ پرانا منصوبہ ہے جس کے5 سال گزر چکے ہیں۔بیت اللہ کے راستے میں ایک جگہ کبوتر چوک کے نام سے مشہور ہے یہاں کبوتروں کولوگ دانے ڈالتے ہیں۔ کبوتروں کے ڈار کے ڈار یہاں اترتے اور کبھی اُڑ جاتے ہیں۔ یہاں دن میں ہر وقت لاتعداد کبوتر دانے چگتے رہتے ہیں۔ بیت اللہ میں ابابیل اور کبوتر اُڑتے دیکھے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا پرندہ نظر نہیں آیا۔

بیت اللہ کے قریب مکہ ٹاور کے برابرمیں ایک کئی منزلہ بلڈنگ ہے اس کے گرونڈ فلور میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جس میں ہر نوح کا سامان موجود ہے۔یہ بلڈنگ اتنی وسیع ہے کہ اس میں 50 سے زیادہ سے تو برقی لفٹیں لگی ہوئی ہیں۔ باب عبدالعزیز کے سامنے بہت ہی اونیچا مکہ ٹاور ہے جس پر وقت دیکھنے کے لیے بڑا کلاک نصب ہے۔ ہمارے ایک دوست جو مکہ مکرمہ کے رہاشی ہیں کے مطابق مکہ میں ریلوے اسٹیشن بھی بن رہاہے اورجلد ہی ریلوے لین بچھا دی جائی گی یہ کا م ایک چینی کمپنی کر رہی ہے۔

بیت اللہ کی ایک سائڈ پر باب عبداللہ بھی زیر تعمیر ہے۔ مکہ مکرمہ میں سمندر کا پانی جدہ سے پائپوں کے ذریعے لیا جاتا ہے۔فلٹرپلانٹ میں صاف کرنے کے بعد پینے کے لیے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں مکہ میں پٹرول ارزاں ہے اور پانی مہنگا ہے۔ بیت اللہ کے اندر باہر پولوں پرپانی کی ٹھنڈی پھوار پھینکنے والے برقی پنکھے لگے ہوئے ہیں جو ہر وقت ٹھنڈی پھوار پھینکتے رہتے ہیں۔

اس سے گرمی کی شدت کو کنٹرول کیا جاتاہے۔بیت اللہ میں جگہ جگہ آب زم زم پانی کے کولر پڑے ہوئے ہیں جن میں عازمین حج کے لیے ۲۴ گھنٹے ٹھنڈا پانی موجود ہوتا ہے ۔ان کولروں سے عازمین حج آب زم زم بوتلوں میں بھر کر اپنی اپنی رہائش گاہوں میں لے جاتے ہیں۔ حج کے دوران رش کی وجہ سے لوگ باب عبدالعزیز کے باہر اور پیچھے روڈ پر بھی نماز ادا کر رہے ہیں۔

جمعہ کے روزماشاء اللہ اتنے زیادہ نمازی تھے کہ سرنگ کے سرے سے لیکر باب عبدالعزیز تک صفیں بنی ہوئیں تھیں۔ یہاں دھوپ بڑی تیز ہوتی ہے ۔مسجد نبوی کے صحن کی طرح اگر باب عبدالعزیز کے سامنے خالی جگہ پر بھی سایے کے لیے برقی چھتریاں لگا دیں جائیں تو نمازی سایے میں آسانی سے نماز ادا کریں۔بیت اللہ میں برقی سیڑیوں سے خواتین پہلے فلور پر نماز پڑھنے جاتیں ہیں۔

ہمارے ایک روم میٹ جن کے ساتھ ان کی اہلیہ حج کے لیے آئی ہوئی ہے نے بتایا برقی سیڑیاں چڑھ کر پہلے فلور پر خواتین کی نماز کے لیے بڑی کشادہ جگہ موجود ہے۔ ویسے نیچے بلڈنگ میں بھی نمازیوں کے پیچھے جیسے عورتوں کے لیے نماز کی جگہ مختص کی گئی ہے ۔نماز شروع ہونے سے پہلے انتظامیہ کے کارندے عورتوں کو پیچھے نماز پڑھنے کے لیے زور دیتے ہیں اور سب کو بار بار کہہ کے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے چلی جائیں۔

جیسے جیسے حج کے دن قریب آ رہے ہیں عازمین حج کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہت ہی پر رُونق ماحول ہے اور بنتا جارہا ہے۔دنیا کے کونوں کونوں سے فرزندان توحید اللہ کے گھر کی طرف دوڑے آ رہے ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ کچھ بچے بھی حج لے لیے آئے ہوئے ہیں۔ جب بھی بچے ہمارے سامنے سے گذرتے ہیں ہم ویل چیئر پر بیٹھے اسے پیار سے چھوٹا حاجی کہہ کر پکارتے ہیں تو اکثر بچے مسکرا دیتے ہیں ۔

کچھ گود کے بچے بھی ماں باپ کے ساتھ نظر آئے۔
قارئین! فقیرانہ لباس زیب تین کیے، تلبیہ پڑتے، غول کے غول ،مختلف رنگوں وا لے، مختلف زبانوں والے،مختلف لباس والے،مختلف تہذیبوں والے عازمین حج کو دیکھ کر اسلام کی اخوت، عظمت اور طاقت کا مظہر نمایاں نظر آتا ہے۔ انسان کے دل میں ایک دم جوش اُٹھتا ہے۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔(باقی آیندہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :