مولانا فضل الرحمن پر حملہ … ایک لمحہ فکریہ

بدھ 29 اکتوبر 2014

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

وطن عزیز پاکستان میں علماءِ اہل حق اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے قتل کی جو افسوسناک روش چل نکلی ہے اس پر جس قدر افسوس اور تشویش کا اظہار کیاجائے کم ہے۔ اگر ہم گزشتہ چندبرسوں پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوتاہے کہ کراچی سے لے کر بلوچستان تک اور راولپنڈی اسلام آ باد سے لے کر خیبر پختونخواہ تک بے شمار علمائے کرام کی نعشیں اورمدارس دینیہ کے طلبہ کا بہتا لہو نظر آئے گا ۔

ان تمام علماء کرام اور دینی مدارس کے اساتذہ میں ایک قدر مشتر ک یہ ہے کہ ان میں سے جو زیا دہ باصلاحیت ، سمجھدار اور ذی شعور ہوتاہے ، جس کا عوامی رابطہ جتنا زیادہ مستحکم ہوتاہے ، جو امن وسکون کا زیادہ داعی ہوتاہے اور جو حب الوطنی کا جتنازیادہ اظہار اور پر چار کرتاہے وہ کسی اندھی گولی کی نذر ہوجاتاہے اورپھر نہ اس پر کوئی تحقیق ہوتی ہے ، نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتاہے ، نہ کبھی قاتلوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے، نہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتاہے اور نہ ہی ان علماء کے قتل کے پس پردہ ساز شوں کو بے نقاب کروایا جاتاہے اور پھر کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد ایک اور نعش ، لہو کی ایک اور نہر اور ایک اور حادثہ ہمارے سامنے آکھڑ ا ہوتاہے ۔

(جاری ہے)


آپ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملوں کی مثال لے لیجئے۔ ان حملون کو مذہبی انتہا پسندو ں کے ساتھ ہر قیمت پر نتھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، بغیر کسی تحقیق کے حملے کی جو نوعیت بیان کی جاتی ہے اس کے بعد اسے ہی دہرایا جاتاہے ۔ نہ اس بات پر غور کیا جاتاہے کہ یہ خود کش حملہ تھا ؟ بم د ھما کہ تھا یا قاتلانہ حملہ ؟ نہ اس حملے کے طریقہ واردات کا جائزہ لیا جاتاہے اور نہ ہی یہ سوچا جاتاہے کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو مولانا فضل الرحمن کی جان کے درپے ہوسکتی ہیں؟ ۔

بالکل بجا کہ مولانا فضل الرحمن پُر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ، لاریب کہ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں ، بلاشبہ وہ شدت پسند نوجوانوں کو صبر وتحمل کی تلقین کرتے ہیں اور مدتوں سے کرتے چلے آرہے ہیں ، انہوں نے مسلسل نسل ِنو کو یہ باور کروانے کی سعی کی کہ وہ حکمتِ عملی جس کے نتیجے میں منزل نظروں سے اوجھل ہوجائے وہ قطعا ًدانش مندی کا تقاضہ نہیں بلکہ درست حکمت عملی یہ ہے کہ اس راستے کا انتخاب کیاجائے جس سے منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے ۔

مولانا کے اس فکر وفلسفے سے کسی کو لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ لوگ مولانا کی جان کے درپے ہو جائیں گے ۔ یہ بھی ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ جہاں بعض لوگ مولانا سے اختلاف رکھتے ہیں وہیں وزیرستان سے لے کر بلو چستان تک ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو مولانا سے عقیدت ومحبت کا دَم بھرتے ہیں اس لیے اس واقعے کو محض ایک زاویے سے دیکھنے کے بجائے ہر جہت سے دیکھنے اور پر کھنے کی ضرورت ہے او ر اس کی روشنی مین مستقبل کی ترجیحات اور اہداف کے تعیین کی حاجت ہے ۔


ہمیں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو اپنے مقاصد اور اہداف کے راستے میں مولانا کو رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اگر ہم اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کی بھول بھلیوں میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال اور اس میں مولانا فضل الرحمن کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے کچھ اور صورتحال آتی ہے، اگر ہم افغانستان سے بوریہ بستر گول کر کے واپس پلٹنے والی طاغوتی طاقتوں کے اس خطے میں مستقبل کی منصوبہ بندی کا تجزیہ کریں تو ہمیں مولانا فضل الرحمن استعمار کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دکھائی دیتے ہیں اور اگر ہم مشرق وسطی ٰمیں شیعہ سنی بنیادوں پر پنپنے والے ماحول کو سامنے رکھیں اور اس ماحول اور اس منظر نامے کو پاکستان کی طرف ایکسپورٹ کرنے والوں کے ارادے اور ان کے آقاؤں کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیں تو صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں بلکہ بہت سے ایسے اتحاد واتفاق کے علمبر دار لوگ اور وطن عزیز کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر کشت وخون کے سمندر میں جانے سے بچانے کی جدوجہد کرنے والے جملہ علماء کرام کی زندگیاں شدید ترین خطرے میں نظر آتی ہیں ۔

اس لیے مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کو معمول کی ایک واردات سمجھ کر ٹال دینا انتہائی نا انصافی اور نا عاقبت اندیشی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں عوام الناس اور خاص طور پر مذہبی طبقے کو اس صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے اور امت کے بدلتے ہوئے حالات کو پیش نظر رکھنا ہوگا وہیں مستقبل کے چیلنجز اور دشمن کی منصوبہ بندیو ں سے بھی باخبر رہنا ہوگا ۔

سب سے اہم معامہ اور سب سے زیادہ بھاری ذمہ داریاں حکومت وقت پر عائد ہوتی ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ حکمرانوں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ ہے ۔ کتنے علماء شہید ہوتے ہیں لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ ایک حادثے کے بعد دوسرا حادثہ ہوجاتاہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاں حفظِ ما تقدم یا منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ۔

آپ برطانیہ کی مثال لے لیں وہاں سیون سیون کا حادثہ ہوا اور اس کے بعد کوئی دوسرا سیون سیون وقوع پذیر نہیں ہوا ، امریکا میں نائن الیون کے بعد سے لے کر آج تک راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے اور تو اور انڈیا میں برسوں پہلے کسی ایک آدھ حملے کا واقعہ ہوا اور اس واقعے کی آڑ میں انڈیا نے سچی جھوٹی کہانیاں تراش کر آج تک پاکستان کی ناک میں دَم کر رکھا ہے جبکہ پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔

مولانا فضل الرحمن پر ہونے والا حملہ ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتاہے ۔ پہلے حملے کے بعد دوسرے حملے کا ہوجانا اور دونوں حملو ں میں مولانا کا کراماتی طور پر بچ نکلنا محض اللہ رب العزت کا فضل وکرم ہے لیکن یاد رہے کہ مولانا کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھنے والے کبھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔اس لیے خود مولانا اور ان کی جماعت کو بھی فکر مند ہونا پڑے گااور خاص طور پر حکمرانوں کو بہر حال پیش بندی کرنا ہوگی کیونکہ صرف مولانا ہی نہیں بلکہ اس ملک کے تمام معتدل مزاج ، پرامن ، محب وطن ، باصلاحیت اور عوامی اثر ورسوخ رکھنے والے علماء کرام دشمن کا ہد ف ہیں حکمرانوں کو اپنی غیر ذمہ داری ، جانبداری ، بے حسی اور غفلت والی روش ترک کرکے اس صورتحال کو کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ #
لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :