مرسوں مرسوں کشمیر نہ ڈیسوں!

بدھ 29 اکتوبر 2014

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی مقبوضہ وادی میں ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور بھارتی فوجوں کے مظالم کیخلاف بھارتی عوام اور دانشور بھی صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں۔ خاتون بھارتی دانشور ارون دھتی رائے نے تو اپنے ایک مضمون کے ذریعے بھارتی حکمرانوں کو یہ بھی باور کرا دیا تھا کہ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا اس کی توثیق عالمی بنک کے نقشہ میں بھی کی گئی ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

بھارت کی سیاست میں تیزی سے پاپولر ہونیوالی عام آدمی پارٹی کے سربراہ کجریوال نے بھی کشمیریوں کی آزادی کی بات کی تو بنیاء ذہنیت نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا۔

(جاری ہے)

گزشتہ انتخابات میں ان کو صدائے حق بلند کرنے کا بدترین شکست کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ ماہ یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر پر کھل کر بات کی تاہم پاکستان واپسی پر انہوں نے بھارتی جارحیت پر دفاعی طرزعمل اختیار کرلیا۔

کشمیریوں نے وزیراعظم کے مذکورہ خطاب پر خراج تحسین پیش کیا تھا۔ نریندر مودی‘ ارون جیٹلی جیسی بڑی ہندو قیادت کے جارحانہ بیانات پر وزیراعظم نوازشریف کی خاموشی سے کشمیری عوام اور محب وطن پاکستانی مایوسی کا شکار ہیں۔ فوج کی طرف سے بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات کا پاک فوج کی قیادت ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہے۔ یہ جواب سیاسی قیادت کی طرف سے بھی آئے تو بہتر ہوگا جس سے کشمیر کی آزادی کی خاطر بھارت کی آٹھ لاکھ سفاک سپاہ سے برسرپیکار کشمیریوں کے حوصلے بلند ہونگے۔

کشمیری جہاں اپنی آزادی کیلئے جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے‘ وہیں وہ عالمی برادری کے سامنے بھارتی فوج کے مظالم بے نقاب کرنے اور حق خودارادیت کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستانی دنیا کے ہر گوشے میں کشمیریوں کے ہمقدم ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز لندن میں مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے کیلئے لندن میں ملین مارچ کیا گیا۔

اس میں پاکستانی کمیونٹی نے زبردست شرکت کی۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے موجود تھیں۔ بھارت نے ملین مارچ کو ناکام بنانے کیلئے پوری کوشش کی۔ وزیر خارجہ سشما سوراج خود لندن گئیں۔ سفارتکاری کو بروئے کار لایا گیا لیکن بھارت کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ البتہ بلاول بھٹو کے خطاب کے دوران ہلڑ بازی دیکھنے میں آئی‘ جس سے انہیں اپنا خطاب نامکمل چھوڑ کر روانہ ہونا پڑا۔

اس بدتمیزی کا ذمہ دار تحریک انصاف کے کارکنوں کو قرار دیا جا رہا ہے اور عمران خان کے بھانجے حسن نیازی کو تو اس مارچ کے دوران سٹیج پر ہنگامہ آرائی اور بوتلیں پھینکنے پر حراست میں بھی لیا گیا جنہیں بعدازاں رہا کر دیا گیا۔ یہ حرکت جس پاکستانی نے بھی کی شرمناک ہے۔ آپ کے ملک کے اندر سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لندن میں ملین مارچ جیسے قومی ایشو پر آزادی اظہار کے نام پر ہلڑبازی قابل مذمت ہے۔

اگر یہ حرکت تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہے تو عمران خان کو اس کا ضرور نوٹس لینا چاہیے کہ اس سے پاکستان کے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کشمیر ایشو ہی وہ واحد تنازعہ ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیمِ ہند کے وقت سے ہی کشیدگی جاری ہے جبکہ بھارت پاکستان پر دو جنگیں بھی مسلط کر چکا ہے، سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں اس کا ایک بازو بھی کاٹ چکا ہے اور باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے بھی درپے ہے۔

بھارت کی جانب سے گذشتہ کم و بیش ایک سال سے جاری کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں اور پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر بلا اشتعال فائرنگ کے سلسلے میں تیزی آگئی ہے۔ ایک ماہ کے دوران ورکنگ باؤنڈری کے پار اس کی شر انگیزی سے خواتین اور بچوں سمیت 16افراد جاں بحق ہوئے۔نقل مکانی کرنے والوں تعداد ہزاروں میں ہے۔ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر گولہ باری میں پہل کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ پہلے ہم نے ڈھال پکڑی ہوئی تھی‘ پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے اب تلوار اْٹھالی ہے۔

یہ طرفہ تماشہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر مسلسل جارحیت کا ارتکاب بھی کر رہا ہے اور ”آلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق دراندازی کے الزامات بھی پاکستان پر دھرے جا رہا ہے۔ اسی طرح بھارت میں دہشت گردی کی جو بھی واردات ہوتی ہے وہ اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے میں ذرہ برابر نہیں چوکتا جس کا مقصد کشمیری عوام کی قربانیوں سے لبریز اور صبر آزما جدوجہد سے دنیا کی نگاہیں ہٹانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

کشمیری عوام بھارتی تسلط کیخلاف یومِ سیاہ منا کر اور عالمی برادری میں اپنی آواز بلند کرنے کے دوسرے راستے اختیار کر کے جدوجہدِ ازادی کومنزلِ مقصود تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اس لئے پاکستان کو بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کشمیریوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہئیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :