ایدھی صاحب ‘اس ملک میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے

پیر 27 اکتوبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اللہ بخشے‘ ہمارے دیرینہ رفیق کاروں میں چاچا محمدنواز قریشی بھی ہوا کرتے تھے ‘متحدہ ہندوستان کے وقت وہ برٹش آرمی میں ملازم تھے فوجی سازوسامان کی ترسیل کے لئے استعمال ہونیوالے ٹرک پر ان کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی‘ زندگی کے آخری چند سال ان سے اچھی خاصی سلام دعا تھی بلکہ صبح کا زیادہ تروقت ہمارے ساتھ یعنی دفتر میں گزرا کرتاتھا‘ ان کی عادت تھی کہ وہ بلا کے چائے نوش تھے‘ ہرایک آدھ گھنٹے کے بعد چائے پیتے ان کے ایک ہاتھ میں اخبار اور دوسرے میں چائے کا کپ رہتا‘ وہ ہر خبر پربلاجھجک اور بولڈ تبصرہ کیاکرتے تھے ۔

ایک دن کسی حاکم کا بیان (جو غالباً حب الوطنی کے حوالے سے تھا)پڑھتے ہی ان کے چہرے کارنگ لال ہوگیا اور پھر جو بے نقط منہ میں آئیں ‘سناتے چلے گئے ۔

(جاری ہے)

چونکہ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا انہیں ہجرت کرنیوالوں کے رنج والم کا بھی احسا س تھا ‘انہوں نے بہن بیٹیوں کی عزتیں لٹتی دیکھیں انہوں نے اپنے کئی جاننے والے اورانجان مسلمانوں کے لاشے بھی دیکھے کہ جو محض لفظ ”پاکستان“ پر قربان ہوگئے۔

وہ بتایاکرتے تھے کہ انہوں نے ایک ہی لائن میں جب کئی بچوں کی سربریدہ لاشیں دیکھی تو چلااٹھے اور ان کے صبر کاپیمانہ لبریزہوگیا لیکن وہ مجبورتھے۔
خیر چاچا نواز قریشی بتایاکرتے تھے کہ پاکستان بننے کے ایک سال کے بعد وہ فوجی ٹرک پر ایک ساتھی کے ہمراہ جارہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے رکنے کا اشارہ کیا ‘ وہ شخص اپنے حلئے کے اعتبار سے ڈرائیور دکھائی دے رہاتھا خیر ٹرک روک کر اس شخص سے پریشانی کا سبب پوچھا ۔

جو کچھ اس شخص کے منہ سے نکلا وہ دل دہلادینے کیلئے کافی تھا ۔ اس شخص نے بتایا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک خراب کھٹارہ ایمبولینس کھڑی ہے جس میں ایک نحیف‘بیمارشخص زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے ۔(اگر ایمبولینس ٹھیک ہوتی تو شاید وہ مزید کچھ دن زندہ رہ سکتاتھا)پوچھا گیا کہ وہ نحیف بیمار شخص کون ہے؟؟ جواب میں ڈرائیور نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ ”بابائے قوم ہے اندر “یہ سنتے ہی نوازقریشی اور ان کے ساتھی نے بھاگ کر بابائے قوم کا سٹریچر اٹھاکر فوجی ٹرک میں ڈالا اوربابائے قوم کی رہائشگاہ پر لے گئے۔

کافی دیر تک نوازقریشی اوران کا ساتھی باہر انتظارکرتے رہے ۔ پھر محترمہ فاطمہ جناح باہر آئیں اور ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ”تمہارے بابائے قوم اب اس دنیا میں نہیں رہے“ چاچانواز قریشی کہاکرتے تھے کہ اس لحظہ میرا دل پھٹنے کو آگیاتھا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ دل پر بوجھ لئے گورنر ہاؤس کے سامنے سے گزرتے تو لان میں وقت کا وزیراعظم اپنے عمائدین کے ساتھ قہقہوں میں مصروف تھا اس وقت دل پر کیاگزری یہ کوئی نہیں جانتا۔

خیر چاچا نواز قریشی بعد میں ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ملتان کے گردیزی خاندان کے ہاں ڈرائیور بھی رہے۔یہ کہانی جہاں افسوسناک بھی ہے وہاں ہمارے ماتھے پر کلنک کاٹیکہ بھی ‘
پاکستان کے سب سے بڑے سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی ان دنوں پریشان ہیں کہ ڈاکو ان کا مال متاع لوٹ کرلے گئے کہنے کو نقصان بہت بڑا ہے ‘ ملک ریاض سمیت کئی لوگوں نے نقصان پوراکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن دل پر جو چوٹ لگی ہے اس کا مداوا کیسے ہوگا؟ کیسے اس زخم پر پھاہارکھاجاسکے گا جو محض چند لوگوں کے فعل کی وجہ سے ایدھی جیسے نرم دل شخص بھی دل ہار گیا اپنی زندگی پاکستان اور پاکستانی قوم کے نام کرنے والے عبدالستار ایدھی کو آخری عمر میں جس انداز میں ”صلہ “ ملا شاید کوئی دوبارہ ان کے راستے پر چلنے کا سوچ بھی نہ سکے۔


صاحبو!زمانہ موجود میں جب ہر سو ”میں میں“ کی آوازیں گونجتی ہیں جب ہرطرف نفسا نفسی کا عالم ہے ‘ قیامت کے مناظر ہیں کہ رشتوں میں دراڑیں ہیں ‘بھائی بھائی کا پیاسا ہے‘ وفا عنقا ہوچکی ‘ اپنے ہی بطن سے جنم دیکر مائیں بچوں کو سڑکوں پر پھینک دیتی ہیں اور اس ”ناجائز بچے “ کاباپ فخر یہ انداز میں ”مرد “ ہونے کا اعلان کرتا ہے جب عزیز رشتہ دار کسی غریب بیٹی کی لٹتی ہوئی عزت پر محافظ ہونے کا فرض پورا کرنے کی بجائے دو رکھڑے ہوکر قہقہے لگاتے ہیں ایسے ماحو ل میں اگر کوئی ناجائز تعلق سے جنم لینے والے بچوں کو قتل کرنے سے باز رکھتے ہوئے ان کیلئے جگہ جگہ جھولوں کا بندوبست کرتا ہے کہ دو انسانوں کے غلط اقدام سے جنم لینے والے اس معصوم کا کوئی قصور نہیں‘ اسے ہمارے حوالے کردو اس کی پرورش‘ تعلیم سبھی کچھ ہماری ذمہ داری ہے۔

جو ایسے یتیم بے سہارا بچوں کو سینے سے لگاتا ہے جن کے عزیز رشتہ دار انہیں سنبھالنا ”گناہ“ تصورکرتے ہیں۔ ایسی بیوائیں جن کے سرکا ”سائیں“ دنیا سے منہ موڑگیا تو ساری دنیا ہی پرائی ہوگئی۔ جگہ جگہ ان کیلئے پریشانی منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں انہیں بھی پناہ ملتی ہے تو کہاں؟ ایدھی سنٹر ‘ یاایدھی ہوم میں
آگے چلئے پاکستان میں سب سے بڑی ایمبولینس سروس فراہم کرنے کا اعزاز بھی اسی عظیم انسان کو حاصل ہے ۔

چھوٹے پسماندہ اضلاع سے لیکربڑے شہروں تک ہرسو ہوٹر بجاتی ”ایمبولینسیں“ گویا ایدھی کی عظمت کا اعتراف کراتی پھرتی ہیں۔
کراچی ایک ایسا شہر جہاں کھالوں پر بھی قتل کردئیے جاتے ہیں ‘جہاں ایک ” بھائی “ دوسرے ”بھائی “ کے علاقے میں مداخلت کرے تو کئی ہفتوں تک خون کا کاروبار میں رکنے میں نہیں آتا ۔ ایسے ماحول میں جہاں کسی کی زندگی کوئی ضمانت نہیں لیکن ایک ایسا شخص بھی وہاں موجود ہے جو زندگی کا ضامن تو نہیں البتہ محافظ ضرور ہے۔

بقول دانشور ‘ماہر تعلیم قریشی منظور اس نفسانفسی کے دور میں کون کسی کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے‘ کون کسی بیوہ کے سر پر محافظ بن کر ہاتھ رکھتا ہے۔ کون کسی کے ناجائز رشتے سے جنم لینے والے بچے کو سینے سے لگاتا ہے اور پھر زندگی بھر اسے ”حرامی“ کاطعنہ بھی نہیں دیتا ۔ کون ایسا شخص ہے جس نے اپنی زندگی تو ٹاٹ کے لباس میں گزاری مگر دوسروں کے بچوں ‘بیٹوں ‘بیٹیوں کو سکھ چین فراہم کرتارہا ۔

ہے ایسا ہی ایک شخص ‘ نام ہے اس کا عبدالستار ایدھی ۔ مگر اس کی بدقسمتی ہے کہ وہ دل کے اندھوں میں آن بسا ہے‘ وہ مدرٹریسا بھی نہیں اور نہ ہی وہ بھارت کے لوگوں میں رہتا ہے۔ وہ تو پاکستان میں رہتاہے اور اس کے گرداگرد جونکیں ہی جونکیں ہیں جو اس ملک کے بانی کو بھی کھاگئیں تو پھر عبدالستار ایدھی کیسے بچ پائیگا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :