یہ ہوتی ہے دھاندلی

پیر 27 اکتوبر 2014

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد دھرنوں کے غباروں سے ہوا تو نکل چُکی تھی مگر قائدین انقلاب ، نامعلوم امپائروں کے آسروں میں میچ فکس ہونے کی امیدیں لئے بیٹھے تھے۔ مولانا قادری ، شہادت کی آرزو دل میں ہی لئے ہوئے بخیرو عافیت اپنے عارضی گھر کو لوٹ چکے ہیں۔ سوال اہم ہے کہ واقعی آسمانی قوتوں کو اس ملک پر رحم آگیا یا پھر مولانا قادری کی اچانک ہونے والی کایا پلٹ کے پیچھے قصور اس کچے گھڑے کا ہے جس پر بیٹھ کر مولانا صاحب نے بپھرے ہوئے چناں کو پار کر نا تھا۔

امید ہے کہ معاملہ جلد ہی کھل جائے گا ، کیونکہ ایسی باتوں کو راز میں رکھنے کا یہاں کوئی خاص رواج نہیں ہے۔
بچے کھچے دھرنے کے قائد نے فرما یا ہے کہ امپائر سے انکی مراد اللہ تعالیٰ تھی، سبحان اللہ۔

(جاری ہے)

ہمارے انقلابی لیڈر کا یہ اعلی مقام ! اگرچہ میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ کرکے آپ کو پاکستان کا سیاسی فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش تو کئی سالوں سے جاری و ساری ہے مگر آپ کی ان روحانی خصوصیات سے عوام الناس کو اب تک آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ آپ روحانیت کے اس اعلی مقام پر فائز ہو چکے ہیں کہ قدرت کی طرف سے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بھی آپ پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔

جناب انقلابی لیڈر، پاکستان کے وزیرِ اعظم پر مغلظات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ امپائر کی انگلی کل تک اُٹھنے والی ہے، جب امپائر کی انگلی اٹھ جائے تو پولین جانا پڑتا ہے، امپائر کی انگلی ہفتے تک اٹھ جائے گی۔ جناب روحانی و انقلابی لیڈر اب بارے اس کے بھی کچھ بیان ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اب تک وزیرِ اعظم کو بولڈ کیوں نہیں کیا۔


وزیرِ اعظم تو اب تک بولڈ نہیں ہوئے ، مگر کپتان کی وکٹیں بری طرح گرتی جارہی ہیں۔ مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دینے والے کو اپنا کردار کیسے بھول گیا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے جعلی اور دھاندلی سے بھرپور ریفرنڈم کا ہراول دستہ بننے والے کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے۔ کپتان صاحب! آپ نے پرویز مشرف کی حمایت کی تاکہ وہ ۲۰۰۲ کے الیکشن میں دھاندلی کر واکے آپ کو وزیرِ اعظم بنادے۔

پرویز مشرف آپ کے بچپنے کو سمجھ چکا تھا ، وہ جان چکا تھا کہ انقلابی لیڈر، کرکٹ ٹیم کا کپتان تو بن سکتا ہے مگر ملک کا وزیر اعظم نہیں۔ پرویز مشرف کا بنایا ہوا سلیکشن کمیشن ایک حاضر سروس ”با ضمیر“ جنرل کی سرکردگی میں الیکشن کے نتائج ترتیب دے رہا تھا مگر آپ نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف ایک لفظ نہ کہا اور ایک دھرنا نہ دیا ۔ آپ اپنے سارے ساتھیوں کو انکی ضبط شدہ ضمانتوں سمیت چھوڑ کر اپنی ایک سیٹ سے ہی چمٹے رہے اور استعفے کا خیال بھی آپ کے ذہن میں نہ آیا۔

آپ کی ۲۰۰۲ میں پرویز مشرف سے ساز باز سے پردہ آپ کے قریبی ساتھی ہارون رشید اپنے ۲۳ اکتوبر کے کالم میں ایسے اٹھاتے ہیں۔ ” الیکشن سے چند ہفتے قبل جنرل پر ویز مشرف سے عمران خان کی مفاہمت ختم ہوگئی تھی۔ اس لئے ختم کہ جنرل نے چو ہدری برادران کو پنجاب کا اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسلام آباد کے ایوان صدر میں عمران خان جنرل سے ملے اور اس پر احتجاج کیا۔

ان کا جواب یہ تھا، صوبوں سے آپ کو کیا لینا دینا، بڑا عہدہ (The big slot)آپ کے لئے محفوظ ہے۔ انہی دنوں کہانی کپتان نے مجھے سنائی اور یہ کہا ” زمین مجھے گھومتی ہوئی نظر آئی“۔ یہ ناچیز خاموش رہا کہ بار ہا اس نے آنجناب کو ریفرنڈم کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی“۔
کپتان صاحب ! وقت آگیا ہے کہ اپنے سیاسی کزن مولانا قادری کی طرح آپ بھی اپنا پاندان اٹھائیں اور گھر کی راہ لیں۔ اس قوم کے لئے اتنی ہی تبدیلی اور انقلاب کافی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :