پاک ایران سرحدی کشیدگی اور گیس منصوبہ

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ختم نہیں ہوا‘ اس پر پیش رفت جاری ہے۔یہ بات وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی میڈیا کو بتائی،ہمارے خیال میں یہ آدھی خبر تھی،ہمارا خیال ہے کہ اس تناظر میں نہ صرف ایران کے تمام تحفظات دور کرنا ضروری ہے بلکہ گیس پائپ لائن منصوبے پر اب پیش رفت کا بھی آغاز کر دیا جانا چاہیے ورنہ دونوں ممالک میں کشیدگی کی پڑتی ہوئی گرہیں کل کو اتنی پیچیدہ ہو سکتی ہیں کہ انہیں کھولنا ممکن نہیں رہے گا۔

خطے کے امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ایران کو بھی حقائق کا ادراک کرنا اور افہام و تفہیم سے کام لینا ہو گا کیونکہ ایران کو اسکی سلامتی کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص چین اور افغانستان کے تعاون سے ہی ان سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)


ماضی میں پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز بھی اس لئے نہیں ہو پایا تھا کہ امریکہ نے ایران پر اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کاوشوں کے باعث اقتصادی پابندیاں عائد کرکے دہشت گردی کی جنگ میں شریک اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو باور کرایا کہ اس نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کو عملی جامہ پہنایا تو اسے بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔

اسکے باوجود پاکستان نے اس منصوبے پر کام جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شمولیت کیلئے ایران بھی چلے گئے۔ وہ پاکستان ایران مثالی تعلقات کے مراحل تھے اور اگر پاکستان ثابت قدمی کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر قائم رہتا تو مقررہ مدت میں نہ صرف یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمہ میں معاون بن رہا ہوتا بلکہ آج انتہائی سرحدی کشیدگی پر منتج ہونیوالے ایران کے تحفظات بھی پاکستان کے ساتھ پیدا نہ ہوتے۔

گیس پائپ لائن منصوبہ بنیادی طور پر ہمارے فائدے میں ہی ہے جسے اگرچہ برقرار رکھنے کا ہماری جانب سے اعلان کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر ہماری جانب سے اس منصوبے پر سرے سے کوئی پیش رفت ہی نہیں کی گئی‘ حالانکہ ہمیں اس منصوبے کے معاہدے کی روشنی میں مقررہ میعاد کے اندر جو اس سال دسمبر کو ختم ہو رہی ہے‘ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچانے کی صورت میں روزانہ تین لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنا پڑیگا۔

ایران نے تو مقررہ میعاد کے اندر اس منصوبے کا اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے اور پاکستان کی سرحدوں تک پائپ لائن بچھا دی ہے‘ اس معاملہ میں کمزوری نظر آرہی ہے تو وہ صرف پاکستان کی جانب سے ہے جبکہ اب پاکستان ایران سرحدی کشیدگی گھمبیر ہونے سے اس منصوبے کا مستقبل ہی مخدوش نظر آرہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ ختم ہوتا ہے تو اس کا نقصان صرف پاکستان کو ہی اٹھانا پڑیگا جو ہرجانے کی صورت میں تو ہوگا ہی‘ پاکستان ایران سے گیس کے حصول کے ایک نادر موقع سے بھی محروم ہو جائیگا جبکہ ایران اس منصوبے کا بھارت کے ساتھ معاہدہ کرکے اسے اپنے لئے کارآمد بنالے گا۔


گزشتہ دنوں چینی سفیر نے بھی اسی تناظر میں پاکستان‘ افغانستان اور چین کے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا تھا جبکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی بالخصوص پاکستان کے ساتھ مراسم اور باہمی تعاون کے حوالے سے نیک جذبات کا اظہار کرچکے ہیں۔ صرف ایران کے ساتھ ہی ہمارے تعلقات کا معاملہ تشویشناک اور پیچیدہ صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے جس کا پس منظر پاک ایران سرحد کے قریب ایران میں گزشتہ کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات ہیں جن کے بارے میں ایران کے پاکستان کے ساتھ سخت تحفظات پیدا ہوئے ہیں گزشتہ ہفتے ایرانی سرحدی محافظوں نے پاکستان کے اندر تحصیل مند کے علاقے چوکاب میں گھس کر یکطرفہ جارحیت کا بھی ارتکاب کیا ۔

پاکستان نے اس پر سخت احتجاج کیا اور ایرانی سفیر کو طلب کرکے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔پاکستان کی اس وضاحت کے باوجود ایرانی سرحدی محافظوں نے اگلے روز پھر پاکستان کے اندر گھس کر جارحیت کا ارتکاب کیا جبکہ ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی نے ایرانی دفتر خارجہ کے ذرائع سے ایران کی جانب پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کی خبر بھی جاری کر دی۔

گزشتہ روز ایرانی فوج کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل سعود جزائری نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے سرحد پار سے حملہ کرنیوالے دہشتگردوں کو نہ روکا تو ایران فوج ان دہشت گردوں کو کچلنے کیلئے خود کارروائی کریگی۔ اگر ایران اپنی اس پالیسی پر کاربند رہتا ہے تو کل کو سرحدوں پر دونوں ممالک کے ایک دوسرے کیخلاف صف آراء ہونے کی نوبت بھی آسکتی ہے جبکہ دہشت گردی کے تدارک کیلئے باہمی تعاون سے کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کی جا سکتی ہے جس کیلئے اس وقت افغانستان اور چین بھی تعاون پر آمادہ ہیں اس لئے اس موقع پر پاکستان اور ایران کے مابین اعتماد کی فضا بحال کرنا ازحد ضروری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :