اور طرح کی صحافت

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Sadaf Rafique

صدف رفیق

صحافت بلا شعبہ ریاست کا چوتھا ستون ہے صحافی کے قلم کی دسترس ایک مزدور سے لیکر اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک ہوتی ہے بلکہ ایک صحافی کی قلم کسی بھی ریاست کی ترقی یا تنزلی کا باعث بنتی ہے قلم کی حرمت کو سامنے رکھ کر اگر صحافی اپنی معاشرتی اور قومی ذمہ داری کو پوری دیانت داری سے پوری کر نا شروع کر دے تو موجودہ دور میں صحافی ریاست کا پہلا ستون ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد میڈیا کو جو اہمیت حاصل ہو چکی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی ۔

آزادی صحافت کے علمبردار وں کو اگر آج ریاست میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے تو وہ صرف اور صرف انہی صحافیوں کی وجہ سے ہے جو اپنے پیشہ سے انصاف کر تے ہوئے معاشرے میں پائی جانے والی نا ہمواریوں کی نشاندہی کر کے نہ صرف اپنی قومی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک ناکام ریاست کو کامیابی کی کی منزل سے روشناس کر واکے صحافت کے تقدس کو پامال ہونے سے بھی بچا رہے ہیں مگر پاکستان میں موجودہ صحافتی کلچر جو مادر پدر آزاد ہو کر تمام اخلاقی و قومی ذمہ داریوں کا ادراک کئے بغیر اپنے خلاف ایک ایسی منفی رائے عامہ ہموار کر تا جا رہا ہے جو ہر شعبہ زندگی کے لئے تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

جب بھی کوئی شخص ،کوئی شعبہ یا کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کر تا ہے تو اسکی تباہی کا آغاز ہو جاتا ہے ،پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہمارے ملک میں صحافتی آزادی حاصل کر نے کے بعد صحافتی اداروں کے مالکان اور ذمہ داران منفی صحافت کے فروغ کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ان اداروں کے مالکان نے ایسے ایسے افراد کے ہاتھوں میں بھی صحافت کا لائسنس دے دیا ہے جو شاید اس کی الف ب سے بھی نا آشنا ہے جسے صحافی نہیں بلکہ” اضافی “کہنا مناسب ہو گا ۔

صحافت کے اس” اضافی “کے اس شعبہ سے وابستہ ہونے کے دو مقاصد ہیں پہلا یہ کہ صحافی کی بلیک میلنگ سے بچنا دوسرا خود بلیک میلنگ کرنا ،بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے وہ لوگ صحافت کا سہارا لیتے ہیں جو سرمایہ دار ہیں اور دو نمبر دھندہ کر تے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے وہ اس مقدس پیشہ میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ” اضافی“ صحافتی اداروں کے پاس نمائندگی کے حصول کے لئے جاتے ہیں تو اداروں کے مالکان یا انکے ذمہ دار افراد انکی صحافتی قابلیت ، انکا کردار ،کاروبار یا دیگر امور بارے معلومات حاصل کر نے کی جسارت نہیں کر تے بلکہ کالے دھندے سے جمع کی ہوئی انکی دولت سے چند ہزار روپوں کے حصول کی خاطر اس” اضافی “کو صحافی بنا کر بھیج دیتے ہیں دوسری جانب ایسے انڈر میٹرک اور مڈل پاس” اضافی “بھی صحافی بن چکے ہیں جو صبح اٹھتے ہی دیہاڑی لگانے کا منصوبہ بنا کر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں وہ اپنی محنت مزدوری چھوڑ کر اس مقدس پیشہ کی تذلیل کے لئے اس میدان میں کود چکے ہیں حالانکہ ان میں سے کوئی بھی” اضافی“ ایسا نہیں جو خود خبر بنانا جانتا ہو غیر معروف اخبارات اور ٹی وی چینل کا کارڈ حاصل کر کے یہ ”اضافی“ سادا دن بلیک میلنگ کے رستے تلاش کر تے ہیں یہ لوگ شعبہ صحافت کے لئے باعث ندامت ہیں سرکاری ادارے سیاسی شخصیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داران معاشرے کے ان بد نما داغوں کی حوصلہ شکنی نہیں کر تے یہ” اضافی“ سرکاری تقریبات ہوں یا غیر سرکاری ،پریس کانفرنس ہو یا کوئی غیر معمولی واقعہ ایسے مواقعوں پر اپنے موبائل کیمروں یا گھریلو استعمال کے عام کیمروں سے تصویر کشی اور فلم بندی کا جعلی عکس ڈال کر شہریوں کو بے وقوف بنانے کے ماہر ہیں کیونکہ ایک ذمہ دار صحافی کبھی بھی ایسی حر کات نہیں کر سکتا حقیقی صحافیوں کی اس مقدس پیشہ سے عدم دلچسپی اور اس پیشہ کو بد نام کر نے والوں کے خلاف کوئی مشترکہ حکمت عملی وضح نہ کرنے کی وجہ سے یہ بیماری اب وبائی شکل اختیار کر چکی ہے صحافیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں ، سیاسی شخصیات ، سماجی مذہبی اور تجارتی تنظیموں کو بھی اس بیماری کے خاتمہ کے لئے ”اضافیوں “ کی حوصلہ شکنی کر نی ہو گی وگرنہ معاشرے کا ہر شخص بالواسطہ یا بلا واسطہ ان سے متاثر ہو تا رہے گا۔

پاکستان کے ہر شہر میں کئی صحافتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ہر چھوٹے بڑے شہر میں کئی کئی پریس کلب مو جود ہیں۔صحافیوں میں جب بھی لڑائی ہوتی ہے ایک نیا پریس کلب وجود میں آجاتا ہے ۔سڑک پر جاتے ہوئے بہت سے موٹر سائیکل اور کاریں ایسی نظر آئیں گی جن پر نمبر کی بجائے صرف پریس لکھا ہوتا ہے ایسے صحافیوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اربا ب اختیار اور ذمہ دار صحافتی تنظیموں نے اگر اس قومی المیے کا ادراک نہ کیا اور حکومتی سطح پر انکے خلاف کوئی قانون سازی یا ضابطہ اخلاق نہ بنایا گیا تو آئندہ آنے والے دنوں میں ہمارے معاشرے میں خود کش دہشت گردوں کی بجائے ان قلم کش ”اضافی “ دہشت گردوں سے قوم زیادہ خوف زدہ ہو گی اور ان سے قوم کو نجات دلانے کے لئے شائد حکومتی سطح پر حکمرانوں کو ان سے بھی مذاکرات کرنا پڑیں کیونکہ حکومت جنگ کی بجائے مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں میڈیا کی غیر جانبداری بھی کھل کر سامنے آگئی۔اب کسی شخص سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ آپ کس سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں،صرف یہ پوچھ لیں کہ آپ کا پسندیدہ چینل یا اینکرکون سا ہے ؟ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ موصوف کس سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بہت سے ایسے صحافی بھی ہیں جن کی وجہ سے شعبہ صحافت کی عزت برقرار ہے ۔ہمیں ان صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :