کشمیر…سیلاب اور سوالات!

جمعہ 17 اکتوبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اپنے بے پناہ حُسن و جمال کے لئے مشہور وادیٴ کشمیر کے ماتھے کے جھومر کی طرح لگنے والے دریائے جہلم کے پانیوں نے غصہ ہوکر گذشتہ دنوں جو تباہی مچادی ہے وہ کئی لحاظ سے بے مثال ہے۔وادی کو جو سیلاب بہا لے گیا ہے وہ سیلاب نہیں بلکہ سیلابِ عظیم تھا جو بظاہر گذر تو گیا ہے لیکن اسکی مچائی ہوئی تباہی نہ جانے کب تک ایک نشانِ عبرت کی طرح باقی رہتے ہوئے کشمیریوں کو تھراتی رہے گی۔


ہاں وہی کشمیر کہ جسکے دلفریب مناظر ،باوجود اسکے بھی کہ یہاں دہائیوں سے آگ و آہن کا خونی کھیل جاری ہے اور انسانوں کے لئے سانس لینا دشوار ہے،دنیا بھر میں خوبصورتی کے عاشقوں کے لئے مقناطیس کا کام کرتے رہے ہیںآ ج تباہی کی ایک تصویر بنے ہوئے ہے۔وہی کشمیر ،کہ جہاں جاکر لوگہمیشہ کے لئے نہ سہی وقتی طور اپنے سارے غم بھول جاتے رہے ہیں ،آج اس حالت میں ہے کہ نظارہ کرنے پر کوئی سنگ دل بھی دھاڑیں مار مار کر رونے سے نہ رہے۔

(جاری ہے)

لالچوک کا وہی گھنٹہ گھر کہ جسے دنیا بھر میں جنت بھر زمین کشمیر کی نشانی کے بطور پہچانا جاتا رہا ہے آج یوں خستہ ہے کہ جیسے اسکی رعنائیوں کے قصے فرضی رہے ہیں۔فقط ماہ بھر قبل تک انتہائی پُر رونق اور زبردست مصروف رہتے رہے لالچوک اور سرینگر شہر کے دیگر مرکزی بازاروں میں سے گذرنے والے لوگ جب تعفن سے بچنے کے لئے ناک پر ہاتھ رکھتے ہیں تو اندازہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ علاقہ فقط چند دنوں میں اتنا بدل گیا ہے کہ جیسے کسی پُرانی تہذیب کا کھنڈر ہو…کشمیر تباہ ہے اور اپنی شانِ رفتہ کی بحالی کے لئے کوشاں تاہم سرینگر سے نئی دلی تک کی سرکاروں کی جانب سے ظاہر ہو رہی بے دلی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بڑا ہی مشکل معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کی مذکورہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہیں۔


حالیہ سیلاب کی ،افسوسناک،خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ بستیوں میں گھسنے والا پانی زائد از 20دن تک جمع رہا اور عوام و سرکار کی زبردست کوششوں کے باوجود بھی نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔اب تاہم ہفتوں تک زیرِ آب رہنے والے سبھی علاقوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے اور اسکے ساتھ ہی سیلاب کی وہ تباہ کاریاں بھی واضح ہو گئی ہیں کہ جنکے بارے میں، ان علاقوں تک رسائی ممکن رہنے کی وجہ سے ،بڑے دنوں تک معلوم نہیں ہو رہا تھا۔

سیلاب کے ،ظاہری طور،تھم جانے کے بعد جہاں لوگ اپنے تباہ حال آشیانوں کو کھنگالنے لگے ہیں وہیں پہاڑ جیسے ملبے کے ڈھیروں سے کئی اہم سوالات بھی بر آمد ہونے لگے ہیں کہ جنکے جوابات تلاش نہ کئے گئے تو مستقبل میں کشمیر کو ہی کیا اُن سبھی خطوں کی حفاظت نا ممکن ہو جائے گی کہ جہاں جہاں سیلاب آنے یا دوسری آفاتِ سماوی کا خطرہ ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ تباہ کُن سیلاب محض ایک قدرتی قہر تھا یا پھر اس میں انسان کے خود گرض ہاتھوں کا بھی عمل دخل تھا۔

سوال یہ بھی ہے کہ آفاتِ سماوی کے اثرات کو زائل کرنے اور لوگوں کا بچاوٴ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنے کے دعویٰ کرتے رہنے والی سرکاروں کی اصل میں تیاری کتنی تھی اور وہ عملی طور اپنے دعوٴں میں کس قدر کامیاب ہو پائے ہیں۔سرینگر کے پاش علاقوں کو بچانے کی کوششیں کرنا تو دور اِن علاقوں کے مکینوں کو خبردار کرنے اور سیلاب آنے سے قبل اپنے گھروں سے نکلنے پر آمادہ کرنے میں سرکار ناکام کیوں رہی جبکہ اسے معلوم تھا کہ جنوبی کشمیر کو خس و خاشاک کی طرح بہانے کے بعد امکانات و اندازوں سے کہیں زیادہ پانی شہر میں تباہی مچانے کے لئے بس آہی رہا ہے۔

لیکن ان سبھی سوالات میں سے ابھی سب سے اہم یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے جو چلینج حکومت کے سامنے کھڑا کر دئے ہیں اُن سے نپٹنے کے لئے کیا کچھ کیا جا رہا ہے اور کیا کچھ نہ کرنے سے مصیبت کے اثرات مزید ضرررساں اور دیر پا ہو سکتے ہیں۔
حالانکہ کشمیر میں ابھی جو شخص بھی ملتا ہے پہلی نظر میں یہ نہیں لگتا ہے کہ وہ مال و جائیداد کے چلے جانے کا ملال رکھتا ہے کہ لوگوں کو اپنے زندہ بچنے کا جیسے ابھی تک یقین ہیں نہیں ہو پاتا ہے البتہ فرصت میں سوچنے پر ہر شخص کو یہ ملال ضرور ستاتا ہے کہ وہ بچ تو گیا ہے لیکن اُسکا سب کچھ ختم ہونے کے بعد۔

چناچہ جموں و کشمیر سرکار کے سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں بُری طرح ناکام ہونے کی وجہ سے اسکے پاس ابھی تک نقصانات وغیرہ کے متعلق کوئی واضح تفصیلات نہیں ہیں تاہم ابھی تک جتنی بھی تفصیلات سامنے آچکی ہیں وہ بہت ہی مایوس کردینے والی اور رُلا دینے والی ہیں۔سیلاب نے گھروں،دکانوں،کاروبار،تعمیرات ،سڑکوں اور ذرعی زمینوں سمیت سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق کچھ نقصانات ایسے بھی ہیں کہ جنکے بارے میں شائد دو ایک سال کے بعد ہی اندازہ ہو سکتا ہے۔

سرینگر شہر میں جواہر نگر،راجباغ،گوگجی باغ اور اسکے جن ملحقہ علاقوں میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے وہاں چونکہ ابھی تک سرکاری اہلکاروں کا جانا ممکن نہیں ہو پایا ہے لہٰذا یہاں کے نقصان کے بارے میں اندازہ لگانا باقی ہے لیکن سرکاری ذرائع کے مطابق دیگر علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ابتدائی اندازہ ضرور لگایا گیا ہے۔ان ذرائع کے مطابق سرینگر کو چھوڑ کر وادی کے مختلف علاقوں میں 2,34,516تعمیرات متاثرہوئی ہیں جن میں سے 20,000تعمیرات مکمل طور ختم ہوگئی ہیں۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ،جو سیلاب کی زد میں آنے کی وجہ سے عارضی طور ایک سرکاری بنگلے میں کام کرنے لگا ہے،میں دائر مفادِ عامہ کی ایک عرضی کے جواب میں سرکار کا کہنا ہے کہ نقصانات کے حوالے سے اصل صورتحال سبھی علاقوں میں سے پانی نکلنے کے بعد ہی واضح ہو سکتی ہے۔عالمی سہارا کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایک سرکاری افسر کا کہنا تھا”ہم نے ابھی تک کئی اندازے لگائے ہیں لیکن صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ہم جو بھی اندازہ لگاتے ہیں اگلے دن نادرست معلوم ہوتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ نقصان اس سے بھی کہیں زیادہ ہے“۔

وہ کہتے ہیں”جنوبی کشمیر میں تو بعض دیہات پوری طرح بہہ گئے ہیں لیکن سرینگر میں ابھی چونکہ پانی موجود ہے ہمارا سبھی علاقوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ ہماری سوچ اور اندازوں سے بھی کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔جواہر نگر کے باشندہ محمد اقبال کے مطابق اُنکی ہمسائیگی میں کئی مکانات توٹ ہی نہیں گئے ہیں بلکہ ان میں موجود مال و اسباب بھی سیلاب کے ریلوں کے ساتھ بہہ گیا ہے۔

اُنہوں نے کہا”یہ علاقہ چونکہ آسودہ حال لوگوں پر مشتمل رہا ہے یہاں کے ہر گھر میں لاکھوں بلکہ بعض گھروں میں تو کروڑوں روپے کا سامان موجود تھا جو اب تباہ ہوکر کوڑے میں بدل گیا ہے“۔
سرینگر کے قلبی علاقہ لالچوک،جو زائد از پندرہ دن تک زیرِ آب رہنے کے بعد انتہائی خستہ حالت کے ساتھ دوبارہ نمودار ہورہا ہے،سے گذرنے پر کلیجہ منھ کو آتا ہے۔

لالچوک جو کبھی ابھی بھرپور زندگی اور رونق کے لئے مشہور تھا آج جیسے ایک ایسے صحراء کی تصویر پیش کر رہا ہے کہ جہاں کبھی زندگی کا کوئی وجود ہی نہ رہا ہو۔چناچہ یہاں کی دکانوں میں موجود مال کے کئی دنوں تک پانی میں رہنے کی وجہ سے سڑ جانے سے یہاں نا قابلِ برداشت حد تک بدبو پھیل چکی ہے۔لالچوک جانے پر عالمی سہارا نے پایا کہ دکاندار تباہ شدہ مال باہر نکال کر دکانوں کی صفائی میں مصروف ہو رہے ہیں۔

اب بزرگ دکاندار کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی تو وہ آگ بگولہ ہوئے تاہم اُنکے ساتھی دوسرے دکاندار نے مداخلت کی اور ہمیں اپنے پڑوسی کی بات کو دل پر نہ لینے کو کہا۔محمد اشرف نامی اس دکاندار نے کہا”دیکھئے حاجی صاحب کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور وہ اس بات کو لیکر بہت پریشان ہیں لہٰذا آپ پر بگڑ گئے“۔بعدازاں حاجی صاحب نے کود بھی معذرت طلب کی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہنے لگے”میری دکان میں دو کروڑ روپے سے زیادہ کا مال تھا اور اب یہاں فقط بدبودار کوڑا ہے جسے صاف کرنے کے لئے مجھے مزید ہزاروں روپے کرچ کرنا پڑ رہے ہیں،میں تو برباد ہو گیا اور اگر اس طرح کی پریشانی میں میں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہو تو مجھے معاف کیجئے گا“۔

لالچوک کے ہی جان محمد نامی دکاندار،جو کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں،کا کہنا ہے”سیلاب سے چند دن قبل ہی میں نیا مال لے آیا تھا لیکن اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے“۔جان محمد اپنے آنسو چُھپانے کی کوشش میں تھے لیکن کامیاب نہ ہو سکے یہاں تک کہ منھ کو رومال سے ڈھانپ کر ہچکیاں لینے لگے۔
تاجروں کی معتبر تنظیم فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس کشمیر کے سابق صدر شکیل قلندر کہتے ہیں کہ کشمیر کی اقتصادیات کو اتنی شدید چوٹ پہنچی ہے کہ جس سے اُبھرنے میں کم از کم30سال کا وقت لگے گا۔

وہ کہتے ہیں”لاکھوں کاروباری اداروں کو انتہائی حد تک نقصان پہنچا ہے اور میرا خیال ہے کہ کشمیر کو 7ستمبر،جس دن سیلاب آیا،سے قبل کی پوزیشن پر واپس لوٹنے میں 30سال کا وقت درکار ہوگا،یہ بہت بڑی تباہی ہے جس کے اثرات بڑے بھی ہیں اور بہت دیر تک رہنے والے بھی“۔اُنکا کہنا ہے کہ کشمیر کو واپس پٹری پر آں ے میں مدد دینے کے لئے مرکزی سرکار کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے علاوہ انشورنس کے ضوابط کو نرم کرنے اور بیمہ کمپنیوں کو معاملات کا جلد نپٹارہ کرنے کی ہدایات دینی چاہیئں۔

شکیل قلندر کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کو بین الاقوامی امداد لینے سے ہچکچانے کی بجائے سامنے سے اپیل کرکے کشمیر کی تعمیرِ نو کی سبیل کرنی چاہیئے۔یاد رہے کہ بعض ممالک نے کشمیر کی امداد کے لئے رقومات کی پیشکش کی ہے جسے تاہم تاھال مرکزی سرکار نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔شکیل قلندر اور دیگر کاروباری شخصیات کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی امداد سے کشمیریوں کو پھر سے اُبھرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔


گو کہ جموں و کشمیر،با الخصوص وادی،نے اپنی تاریخ میں بدترین قسم کے مصائب کا سامنا کیا ہے تاہم جو تباہی حالیہ سیلاب نے پھیلائی ہے اُسکی نذیر نہیں ملتی۔ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ریاست میں قریب تین دہائیوں سے چلی آرہی ملی ٹینسی کی وجہ سے بھی کشمیر کا وہ حال نہیں ہوا ہے جو 7ستمبر کے دن چند گھنٹوں کے دوران ہوا ہے۔کشمیر نے حالانکہ اس سے قبل بھی کئی سیلاب دیکھے ہیں لیکن اب کے جو ہوا وہ یقیناََ پہلی بار ہوا ہے۔

چناچہ 1902, 1955, 1957اور1959میں کشمیر نے بڑے بڑے سیلاب دیکھے ہیں اور پھر ماضیٴ قریب میں بھی کئی بار جہلم یا دوسرے دریا اپنی حدوں کو پار کر گئے لیکن حالیہ سیلاب کئی لحاظ سے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ حالیہ سیلاب کی جتنی زیادہ شدت تھی موجودہ سرکار اُتنا ہی اس مصیبت کوManageکرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
گو کہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ کشمیر کی اقتصادیات کو ختم کرنے اور یہاں کی رونق کو بہا لے جانے والے سیلاب میں منشاءِ خدا کے علاوہ انسانی غفلت اور خود غرضی کا کتنا عمل دخل رہا ہے لیکن یہ بات کسی خوفِ تردید اور تاخیر کے بغیر کہی جانی چاہیئے کہ ریاستی سرکار صورتحال کو سنبھالنے میں انتہائی نکمی اور ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔

ابھی تک معلوم ہو پائی باتوں کے مطابق ماہر انجینئروں نے کئی سال قبل ہی ریاستی سرکار کو اس خدشے سے آگاہ کیا ہوا تھا کہ کشمیر کو بہا لیجانے کے لئے ایک بڑا سیلاب آ سکتا ہے لیکن اس بات کو یا تو نظر انداز کیا گیا ہے یا پھر سرینگر اور نئی دلی تک کے سرکاری دفاتر تب تک ایک دوسرے کے ساتھ فضول کی خط و کتابت میں مصروف رہے ہیں کہ جب تک جنت نظیر کہلائے جاتے رہے ایک ہنستے کھیلتے شہر کو سیلاب لے گیا۔


ریاستی سرکار اپنے دفاع میں کتنی ہی جھوٹی کہانیاں گھڑے یا لوگوں سے ہمدردی رکھنے کے کتنے ہی دعویٰ کرے،سب غلط لیکن اب جبکہ آفت آنے پر یہ ناکام ہوئی ہے آفت کے ،بظاہر ،گذر جانے کے بعد اس(سرکار)کی کئی ذمہ داریاں اسکے سامنے چلینج بن کر کھڑی ہیں۔سیلاب گذرجانے کے بعد جو ذمہ داریاں سرکار پر عائد ہوگئی ہیں وہ کئی اعتبار سے اور بھی اہم ہیں اور ان سے بچنے کے لئے سرکار کو شائد کوئی بہانہ بھی دستیاب نہیں ہے۔

کسی بھی حادثے کے بعد متاثرین کی باز آبادکاری کے حوالے سے یہ بات بین الاقوامی سطح پر اہم مانی گئی ہے کہ متاثرین کو خواہ مخواہ کی دفتری طوالت کا شکار نہ بنایا جائے بلکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے کہ متاثرین کی ہمدردی اور طوالت کے بغیر دادرسی ممکن ہوجائے۔چناچہ سرینگر سمیت وادی کے مختلف علاقوں میں ہزاروں کاندان اپنے مکانوں سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ موسمِ سرما میں لوگوں کے لئے کھلے آسمان کے تلے رہنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوگا لہٰذا بے گھر ہوئے افراد کے لئے مکانیت کا انتظام بھی سرکار کے لئے ایک چلینج کی طرح ہے جسے قبول کرنے کی صورت میں ہی اس سے نپٹا جا سکتا ہے۔

اسکے علاوہ یہ بات بھی انتہائی لازمی ہے کہ اُن علاقوں میں کہ جہاں ہفتوں سے پانی موجودہ ہے ابھی تک باقی بچے مکانوں میں لوگوں کو تب تک جانے کی اجازت نہیں دی جانے کی جب تک ان تعمیرات کا ماہر انجینئروں سے معاینہ نہیں کرایا جاتا مبادا کہ لوگ ان گھروں میں واپس جائیں اور وہ گھر کر مکینوں کے لئے قبر ثابت ہوجائیں۔مختلف علاقوں کا جائزہ لئے جانے پر معلوم ہوا ہے کہ جو مکان گرنے سے رہے ہیں اُن میں سے بعض کو اتنا نقصان پہنچا ہے کہ وہ کچھ دیر بعد گر بھی سکتے ہیں لہٰذا اس حوالے سے اقدامات نہ کرنا لوگوں کی بڑی تعداد کو خطرے سے دوچار کرنے کے جیسا قرار پا سکتا ہے۔


ویسے تو نام نہاد جدیدیت اور سہل پسندی کا شکار ہو کر کشمیر میں اکثر ذرعی زمینوں کو کنکریٹ تعمیرات میں بدل دیا گیا ہے اور یوں کشمیر اناج کے لئے باہری دنیا پر دارومدار رکھتی ہے لیکن باقی بچی زمینوں پر کھڑی فصلوں اور میوہ جات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ایک اندازے کے مطابق میوہ جات اور فصلوں کی کُل پیداوار کا نصف سے زائد حصہ تباہ ہو چکا ہے لہٰذا اگلے دنوں ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کی بدعات کا سر نکالنا بھی ممکن ہے۔

ظاہر ہے کہ سرکاری مداخلت کے بغیر ایسی بدعات سے متاثرینِ سیلاب کو بچانا ممکن نہیں ہے۔جہاں تک ریلیف کا تعلق ہے وادی میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیان سرگرم ہو گئی ہیں لیکن مجموعی طور کہا جا سکتا ہے کہ سرکار اس حوالے سے بھی ناکام ہو رہی ہے کہ جہاں بھی متاثرین کے ساتھ بات ہوئی اُنہیں کوئی خاص ریلیف ملی ہے اور نہ ہی اُنہیں بہت جلد کچھ ملنے کی اُمید ہے۔

ہاں بعض مقامات پر ادویات کی تقسیم کے ذرئعہ یہ تاثر ضرور دیا جانے لگا ہے کہ جیسے متاثرین کے لئے سب کچھ دستیاب رکھا گیا ہو لیکن متاثرین کی اصل مدد کرتے کوئی سرکار کہیں نظر میں نہیں آتی ہے۔
گو ابھی تک اس بارے میں زبردست ابہام موجود ہے کہ آیا سرکار کی جانب سے گھر بار سے گئے لوگوں کی امداد کا کوئی انتظام کیا بھی جارہا ہے یا نہیں لیکن حالیہ دنوں میں سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر ظاہر ہونے والے ایک سرکاری فرمان میں کہا گیا ہے کہ پکا مکان کھو دینے والوں کو 75ہزار روپے کی امداد دی جائے گی اور اس سے کم نقصان اپٹھانے والوں کو محض چند ہزار۔

چناچہ یہ ایک زبردست نا انصافی ہوگی کہ اتنے پیسے سے ٹوٹے مکان کا ملبہ اُٹھوانا بھی ممکن نہیں ہے باز آبادکاری کی بات ہی نہیں ہے۔کشمیر میں عام تاثر یہ ہے کہ سرکاربچاوٴ اور ریلیف کارروائی میں بُری طرح ناکام ہوگئی ہے اور اب اگر باز آبادکاری میں بھی اس نے لوگوں کو مایوس کردیا تو ظاہر ہے کہ اس سے پہلے سے ہی مختلف مسائل کے بھنور میں پھنسے کشمیر کے لئے اور بھی مسائل پیدا ہونگے جو سرینگر اور نئی دلی کے بیچ پہلے سے موجود رکاوٹوں کو اور بھی بلند و مطبوط کر سکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :