نسل در نسل

بدھ 15 اکتوبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

آج سے کوئی دس سال پہلے ایک ناول پڑھا تھا جس کا نام غالبا ً "نسلوں کا حساب تھا" جس کا پلاٹ کچھ یوں تھا کہ ایک صاحب اپنے ایک دشمن سے بدلہ لینے کے لیے اُس کے بیٹے کے ساتھ کچھ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنی نسل آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسا انتقام ہے جو کسی کے لیے بھی عذاب سے کم نہیں کہ اولاد تو ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے ہر کسی کی خوائش ہوتی ہے کہ اُس کی اولاد ہو جو اُس کی نسل کو آگے بڑھائے۔

جرم و سزا کا بھی ایک نظام ہے جس کو مجرم کے حساب سے روا رکھا جاتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کے ساتھ ہر سزا نسل در نسل چل رہی ہے ہمارئے اباؤاجداد جس عذاب سے گزرئے تھے ہم آج بھی اُن کا قرض چکا رہے ہیں۔ جن مسائل کے ساتھ وہ قبروں میں اُتر رہے ہیں لگتا ہے ہم بھی وہی مسائل اپنے ساتھ ہی لے کر جائیں گے اور ہماری آنے والی نسل کے ساتھ بھی یہی مسائل جڑئے رہیں گے۔

(جاری ہے)

چند خاندانوں کے سوا سب کے سب اُسی جگہ کھڑئے ہیں جہاں سے آزادی کا سفر شروع کیا تھا۔ ابھی کچھ احباب ایسے زندہ ہیں جنہوں نے پاکستان کو بنتے دیکھا ان میں سے وہ لوگ جو بیجارے تعلیم سے نابلد تھے وہ تو کہتے ہیں وہ زمانہ ٹھیک تھا کہ اُن کا معیار ماپنے کا پیمانہ کچھ اور تھا مگر وہ حضرات جو کچھ تعلیمی شعور رکھتے تھے وہ آج بھی کہتے ہیں کہ جو حالات تب تھے وہی حالات آج بھی ہیں بس کچھ معیار کا فرق پڑ گیا ہے۔

رشوت ،ناانصافی،بے روزگاری،ظلم ،امن و امان کا مسئلہ،صحت جیسے مسائل جاہلیت یہ تب بھی اس قوم کا مقدر تھے اور آج بھی یہی مقدر ہے۔ شہروں کی حد تک حالت کچھ بہتر لگتی ہے مگر وہ بھی صرف لگنے کی حد تک باقی سب ویسا کا ویسا ہی ہے۔ ان مسائل کا زمہ دار کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ تمام کے تمام احباب اختیار ہیں اُن کا تعلق چاہے کسی بھی ادارئے سے ہو سیاستدان سے لے کر بیوروکریٹس تک سب نے اپنے اپنے حصے کے زخم دیے اور یہ سلسلہ پتا نہیں کب تک چلتا رہے گا۔


پاکستان کو معرض وجود میں آئے 67سال ہونے کو ہیں اس دوران دُنیا میں بہت سے اُتار چڑھاؤ آئے بہت سے ممالک جو پستی کی دلدلوں میں دھنسے ہوئے تھے ترقی کی تمام منازل طے کر کے آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑئے نظر آتے ہیں۔ کئی نئے ممالک دُنیا کے نقشے پر اُبھرئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کے تارے بن گئے۔ مگر بدقسمتی سے دُنیا کے تمام اسلامی ممالک انتشار کا شکار ہو چکے ہیں ہر ملک میں خانہ جنگی کی سی کفیت ہے۔

اپنے اپنے اقتدار اور مفاد کے لیے روزانہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اس میں غیر ملکی طاقتیں تو شامل ہیں ہی مگر ہمارے اپنے بھی اس میں شامل ہیں ایک دوسرئے کا گلہ کاٹنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اپنے فرقے کے علاوہ باقی تمام فرقے واجب القتل ہیں۔ محرم جیسا مقدس مہینہ آنے والا ہے پاکستانیوں کے لیے یہ کسی خوف کی فضاء سے کم نہیں ہر طرف خوف کے سائے لہراتے نظر آئیں گے یہ فرقہ ورائیت کی کھلی مثال ہے اور یہ آج کی بات نہیں نسل در نسل چل رہا ہے۔

جس تیزی سے ہم زوال پذیر ہو رہے ہیں لگتا ہے بس چند سالوں تک ہی مسلم دُنیا قصہ پارینہ بن جائے گی۔
ہم اپنے ملک کے حالات پر اگر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ کس کس کی نااہلی کی سزا آج یہ قوم چکا رہی ہے۔ جہاد کے نام پر مجاہدین کو تیار کرنے والے خود تو قبروں کی زینت بن گے مگر ہمیں ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر گئے جس سے نکلنے میں کئی صدیاں لگ جائے گی۔

ہماری فوج کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے جو کبھی ہماری تھی ہی نہیں مگر چند نام نہاد مفاد پرستوں نے یہ جنگ ہم پر مسلط کر دی دہشت گردی کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ میں جتنا نقصان پاکستان قوم نے اُٹھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف ہمارے ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ قائد کے بعد ہمیں آج تک کوئی ایسا لیڈر نہیں مل سکا جو اس قوم کو متحد کرسکے۔

سندھی ،بلوچی ،پٹھان اور پنجابی جیسے القابات آج تک ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں ء48کے حالات قلم بند ہیں اُس میں بھی یہ زکر ملتا ہے کہ سندھ سے جانے والے پنجابیوں کو تب بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے موجودہ دور میں تو یہ نفرت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک دوسرئے کو برداشت کرنے کی عادت نہیں ہمیں یاد ہے کہ بی اے کی انگریزی لٹریچر میں ایک سبق شامل ہے جس کا نام ہے toleranceجس میں یہ سبق دیا گیا ہے اگرآپ کسی سے محبت نہیں کرسکتے تو اُسے برداشت کریں تاکہ معاشرئے میں بگاڑ نہ پیدا ہو۔

اس میں تمام یورپ کی مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح آپس کی طویل جنگوں کے بعد بھی یورپی اقوام نے ایک دوسرئے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھا اور پھر ترقی پر ترقی کرتے چلے گئے۔ یہ سبق یورپی اقوام کو اُن کے لیڈروں نے سکھایا کہ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف نظر رکھیں اور آنے والی نسلوں کو پرامن معاشرہ منتقل کرئیں۔
دوسری طرف ہم مسلم ممالک کی طرف دیکھیں تو وہاں آج بھی فرقہ پرستی عروج پر ہے ایک دوسرئے کو برداشت کرنے کاکوئی رواج نہیں پایا جاتا ایک دوسرئے کو قتل کرنا جہاد سمجھا جاتا ہے اور تو اور دوسرئے اسلامی ممالک میں غیر فرقے کو قتل کروانے کے لیے فنڈنگ کی جاتی ہے جس سے پورئے عالم اسلام میں انتشار کی سی کفیت ہے اور اس کا الزام دوسری قوتوں پر تھوپ دیا جاتا ہے۔

ابھی بھی وقت ہے اگر ہم نے یہ روش ترک نہ کی تو ہمارے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں بھی اس کا خمیازہ بھگتے گئیں اور ہمارا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :