ہم دیہاتی لوگوں کی عید

بدھ 15 اکتوبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

دیہاتوں میں عید کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے جس میں آپکو پیار اور احساسات کے وہ جذبے دیکھنے کو ملتے جن کو شہروں میں بسنے والے لوگوں کی دید ترستی ہے یہاں عیدیں تو انتہائی سادگی کے ساتھ منائی جاتی ہیں مگر ان میں اپنائیت کا وہ سامان بھرا ہوا نظر آتا ہے جو آپکو کسی بھی شہر میں نظر نہیں آتا۔ یہ عیدالاضحیٰ بھی ان چند عیدوں میں سے ایک ہے جسے میں ہر سال کی طرح اپنے گاوٴں میں مناتا ہوں۔

اور عید کی خوشیوں سے جس طرح بچے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ بھلا ہم بڑے اسکے لطف کو دنیا کے غم اپنے دلوں میں سجائے کیسے حاصل کر لیتے ہیں شہروں کی سطح پر تو عید اکثر و بیشتر عیدگاہوں کے بجائے مساجدوں میں ادا کی جاتی ہے لیکن دیہاتوں میں ایک ہی عید گاہ ہوتی ہے جہاں مختلف دیہاتوں سے مسلمان یہ فریضہ ادا کرنے عید گاہ کا رخ کرتے ہیں انہی عیدگاہوں میں سے ایک عید گاہ لنجار جھاوٴ کا ہے۔

(جاری ہے)

جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد یہ تہوار منانے اسی عید گاہ کا رخ کرتے ہیں میں بھی چند دوستوں کے ہمراہ عید گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ یہاں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ پیدل ہی عید گاہ کا رخ کرتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنا ذاتی سواری نہیں ہوتا اور کچھ لوگ جو لاری گاڑی لوگوں کی سہولت کے لئے مفت مہیا کرتے ہیں جو کچھا کچھ بھرا ہوتا ہے۔

اور اس میں زیادہ تر سواریوں کی تعدادبچوں کی ہوتی ہے۔ جو جگہ جگہ خوشی سے نعرے بلند کرکے کے واضح پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ خوشی کو کس طرح منایا جاتا ہے جسے مناتے ہوئے ہم بڑے اکثر سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسکی خوشیوں کو زائل کر دیتے ہیں جیسے ہندو اپنے تہواروں میں ہولی کو کس طرح خوشیوں بھرا بناتے ہیں وہ خوشی ہمارے چہرے سے کہیں جھلکتی نہیں۔

ٹھیک صبح 7:30ہم عید گاہ کی جانب پیدل روانہ ہوئے ۔ جو پیدل آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے لیکن عیدگاہ تک پہنچتے پہنچتے گاڑیوں اور بائیک کے ٹائروں سے اڑتا ہوا دھواں اور مٹی آپکے چہرے اور کپڑوں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ضرور بنتی ہے خیر ہم بھی خوشگوار اور زہنی کشمکش میں لنجار جھاوٴ کے عیدگاہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جہاں سالہا سال سے لوگ اسی plainزمین پر نماز پڑھا کرتے تھے جس پر موجود جھاڑیاں اورپتھر نمازیوں کے لئے نماز کے دوران پریشانی کا باعث ہوا کرتے تھے۔

لیکن وہاں پر عید گاہ کی چاردیواری پکی تعمیرات کے ساتھ نظر آئی جبکہ اندرپکی پلستر بھی نمازیوں کے لئے مسرت کا باعث بنا ہوا تھا پانچ صرف پیچھے جگہ ملی تو اوپر چھت نہ ہونے کی وجہ سے سورج کی تپش نے دماغ کو گرما دیا تھا۔ خیر مولوی صاحب اپنے سابقہ ادوار کے معمول کو نہیں بھولا تھا وہی حضرت ابراہیم کاقصہ بیان کر رہے تھے جسے گزشتہ دس سالوں سے سنتے سنتے عیدگاہ میں موجود زیادہ تر تعداد کو مولوی صاحب کا وعظ حفظ ہو چکا تھا۔

شاید مولوی صاحب انہی شرکاء کو سنانے کی فرمائش کرتے تو شرکاء بھی اسے روانی سے کلام فرماتے۔ مولوی صاحب کا وعظ طوالت اختیار کر چکا تھا سارے نمازی پسینے سے شرابور ہو چکے تھے لیکن مولوی صاحب اپنی ٹاپک کو ہر حال میں ختم کرنا چاہ رہے تھے چاہے نمازیوں کو کیوں تکلیف و پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ خیر اللہ اللہ کرکے مولوی صاحب کا وعظ تکمیل کو پہنچ چکا تھا جس پر نمازیوں نے سکھ کا سانس لیا۔

جسکے ختم ہوتے ہی چندے کی باری آگئی توپانچ افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور چندہ وصول کرنے لگے بس یعنی عید کی نماز کے ساتھ ساتھ اگر چندہ وصول نہیں کیا جائے تو عید کے ثواب سے آپ محروم ہو جائیں جب بھی چندے کا نام سنتا ہوں تو مجھے شہروں میں بھکاریوں کی جھرمٹ یاد آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ چندہ سسٹم انسان کی تمام تر صلاحیتوں کو ختم کرتا ہے اور اسے مفت کی روٹی توڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور نہ جانے یہ چندہ سسٹم ہمارے دیہاتی علاقوں میں کب اور کیسے آیا ااسکی تاریخ کے حوالے سے کہیں سے مدد نہیں ملتی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز آئی تو چھونک گیا دیکھا تو سامنے چندے کا بکسہ میری خدمت میں پیش کیا جا چکا تھا۔

میں نے اپنا جیب بہت ٹتولا لیکن اس میں پھوٹی کوڑی بھی نظر نہیں آیا تو میں نے اپنی مجبوری اپنی آنکھوں کی مدد سے ظاہر کی۔ تو موصوف نے گھورتی ہوئی آنکھوں نے میری طرف دیکھا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا گلہ دبا لے یہ سوچتے ہوئے میں پیچھے کی جانب کھسکاتب اپنے جان کی امان پائی۔ مولوی صاحب نے نماز عید اور خطبے کے بعد دعا فرمائی تو دعا میں سے ایک جملہ یہ بھی شامل کر لیا کہ اللہ تعالیٰ افغانستان کے طالبان کی مدد و نصرت فرما۔

تو میں عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو گیا کہ افغانستان کے طالبان کے لئے جھاوٴ کی خاموش فضاوٴں میں بھی صدائیں نکلتی ہیں ۔نماز اور دعا کے بعد سب سے خوبصورت لمحہ ہوتا ہے تو وہ لوگوں کا ایک دوسرے کو گلے لگانے کا۔ وہ بھی مجھے شہروں میں کہیں نظر نہیں جہاں لوگ کھلے دل سے ایک دوسرے کو گلے نہیں لگاتا کہ کہیں انکے کپڑوں کی استری خراب نہ ہو جائے لیکن یہاں پر منظر کچھ اور ہوتا ہے جب ایک شخص دوسرے سے گلے ملتا ہے تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے گلے لگا کر ایک دوسرے سے سابقہ غلطیوں کی معافی کا کھلے دل سے درخواست گزار ہوتا ہے۔

ان گلے ملنے والوں میں سے ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ تو مولوی صاحب کو اسکے دعا کا وہ جملہ بھی یاد دلایا تو کہنے لگے کہ وہ نظریاتی لوگ ہیں تو مجھے عجیب لگا کہ نظریات کا پرچار آخر عید گاہوں میں کیوں جہاں مختلف نظریات کے لوگ موجود ہیں۔عید گاہ سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگ واپس گھروں کی طرف روانہ ہو چکے تھے جہاں قربانی کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا جاتا ہے جہاں لوگ اکھٹے ہی اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔

اسکے بعد غریبوں میں گوشت تقسیم کرنے کے بعد بچا گوشت انار اور نمک سے تیار شدہ سرکے کی مدد سے خواتین لاندھی بنا لیتے ہیں جسے تین روز تک سورج کی حرارت کی مدد سے خشک کرکے تب اسکامزہ یہاں کے دیہاتی لوگ حاصل کر لیتے ہیں جو شہروں میں فریج میں رکھے گئے گوشت اسکا مقابلہ نہیں کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :