دین فروش!

بدھ 15 اکتوبر 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

لفظ دین فروش کی تعریف کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ایسے بے ضمیر افرادکیلئے استعمال کیاجاتا ہے جو چند ذاتی مفاداد کے حصول کی خاطرنہ صرف اپنا تن، من، دھن بیچتے سکتے ہیں بلکہ جس دین و مذہب کی پیروی کرتے ہیں اس دین کو بھی داؤ پر لگانے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرتے۔دنیا میں ضمیر فروش افراد تو شاید کثیر تعداد میں مل جائیں گے مگر مذہب و دین فروش بہت قلیل تعداد میں ملیں گے۔

اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کتنا ہی کیوں نہ گر جائے مگر وہ اپنے مذہب سے غداری کا مرتکب ہونے سے پہلے کئی بارسوچتا ہے کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جو کسی بھی قوم یا مذہب کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ ایسے مو قع پر جب دین فروش افراد کی بات کی جائے تو پنجاب کے شہر جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈسپنسر کے صاحبزادے طاھر القادری صاحب کا نام سرِ فہرست آتا ہے، کیونکہ دین فروشی کی اس دوڑ میں علامہ صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔

(جاری ہے)

موصوف کا ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ جناب نے جسکا کھایا اسی کے منہ پر تھوکا۔دینی تعلیمات سے لیکر عوام الناس سے معاملات تک دین کی آڑ میں اپنے ذاتی مفاداد کے حصول کیلئے بغاوت کرنا علامہ صاحب کا پرانہ طریق ہے۔
خود کو شیخ الاسلام کہلانے والے اس نام نہادعلامہ کے علم و عمل کا اندازہ حال ہی میں عید الضحی کے موقع پر پیش آنے الے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں موصوف نے بیٹھ کر نماز کی امامت کر وائی جبکہ اسلامی شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ ایسا شخص جو معذور ہو( اور رکوع و سجود پر قدرت نہ رکھتا ہو) ان لوگوں کی امامت نہیں کرا سکتا جو ارکانِ نماز مکمل طور پر ادا کرنے پر قادر ہوں مگر اسکے باوجود جناب نے نماز پڑہائی۔

دینِ اسلام کے اس ٹھیکیدار کے زہد و تقوی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جوانی میں موصوف کی کم از کم داڑہی پوری تھی مگر بڑہاپے میں یہودی آقاؤں سے وفاداری کا جادو ایسا سر چڑھ کے بولنے لگا کہ جناب شعائرِ اسلام کو ہی بھول گئے اور بڑہاپے میں واجب کا درجہ رکھنے والی داڑہی کٹا ڈالی۔ اور اپنی اس مکروہ حرکت پر نادم و شرمندہ ہونے کے بجائے علامہ صاحب نے دوسروں پر تنقید کا آغاز کر دیا کہ شاید عوام کی توجہ اس بنیادی مسلہ سے ہٹا ئی جا سکے۔


بات یہیں نہی رکی بلکہ موصوف نے دین سے بغاوت کے بعد اب اس ملک و ملت سے غداری کا بیڑا اٹھایا اور ملک کی حالیہ بگڑتی صورتِحال میں جلتی پر تیل چھڑکنے کیلئے پاکستان تشریف لے آئے اوراپنے ماضی کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ملک کی بگڑتی صورتِ حال میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رنے لگے۔
دین کے بعد علامہ صاحب ملک میں بھی پاکستان مخالف قوتوں کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی سر گرمِ عمل ہیں ۔

پاکستان کی موجودہ بگڑتی صورتِ حال میں بھی علامہ صاحب کا خاصہ اہم کردار ہے۔ماضی کی روایاتِ باطلہ کو بر قراررکھتے ہوئے موصوف نے اس مٹی سے بھی بغاوت کردی جسنے علامہ صاحب کو انکی حیثیت سے کہیں زیادہ عزت بخشی ۔منھاج القرآن سے لیکر موجودہ معیار تک علامہ صاحب نے جن راہوں کا انتخاب کیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاریخ گاہ ہے کہ منھاج القرآن جیسے ادارے کی آڑ میں لوگوں کے صدقات و خیرات کا جس انداز میں نا جائز استعمال کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں ۔

جب یہ ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو موصوف ملک کے وسیع تر مفاد اور اپنی بے پناہ حب ا لوطنی کے پیشِ نظر کینیڈا میں سکونتاختیار کرلی۔ پھر وہاں پر پاکستان کی بے پناہ محبت اور فروغِ اسلام کے جذبہ سے سر شارہو کر ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف اٹھا کر پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اورملک سے باہر بیٹھ کر غریب عوام کے دکھ میں پر سکون زندگی بسر کرتے رہے۔


مگراچانک نہ معلوم علامہ صاحب کو عالم رویاء میں کیا دکھا کہ کینیڈا سے اٹھ کر عوام کا دکھ بانٹنے کیلئے پااکستان تشریف لے لائے اور خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کئی محاظوں پر اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے عین اسی وقت علامہ صاحب کی ملک میں انتشار پھیلانے کیلئے کی جانی والی کوششوں نے شاید سارہ بھانڈا پھوڑدیا ۔اور علامہ صاحب کی یہودی پرستی کو فاش کر دیا۔

اپنی اس بغاوت میں مصوف نے نہ تو کسی ریاستی ادارے کے احتراک کا خیا کیا تو نہ ہی ملکی وقار اور استحقاق کو کسی خاطر میں رکھا ۔جس عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کے دعوے کرتے رہے اسی عوام سے وفادری کا عالم یہ ہے کہ دورانِ آپریشن عوام کے خادم خود بلٹ پروف گاڑی اور کنٹینر میں بیٹھ کرخواتین اور بچوں کو آڑ بنا کر عوامی مسائل کی جنگ لڑتے ہیں جبکہ عوام کا پتہ ہی نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔


علامہ صاحب کی ان بے مثال خصوصیات کے پیشِ آج ہر شخص شک و شبہات میں مبتلاء ہے کہ ہم کیس سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔آج ساری قوم ان سے سوال گو ہے کہ جناب قوم نے آپکو ممبر و محراب پر بیٹھ کر آپس میں محبت، الفت و بھائی چارے کا سبق دینے کیلئے بٹھایا تھا مگر آپ یہ کس ڈگر پر چلے پڑے؟آج آپ اسلامی انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ اسلامی نظام خلافت کے فروغ کا حکم دیتا ہے مگر آپ کس اسلام کی آڑ میں فروغِ جمہوریت کیلئے سر گرمِ عمل ہیں؟؟جناب یہ کہاں کا اسلامی انقلاب ہے کہ جس میں نہ خواتین کا احترام ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار کا کوئی لحاظ؟۔

یہ کہاں کی اسلامی تعلیمات ہیں جس کے تحت آپ مسلمانوں کو آپس میں لڑنے پر اکسا رہے ہیں؟
علامہ صاحب یقین جانئیے آپ جس اسلام کی بات کر رہے ہیں یہ دینِ فطرت نہیں ہے بلکہ یہ آپ ایک شریعت متعارف کر وا رہے ہیں جو آپ کے یہودی آقاؤں کی ِچَھنی سے چھن کر آئی ہے۔مذہب کی بنیاد پر آپ نے عوام کو جس انداز میں تقسیم کیا ہے اس پر یہ قوم و تاریخ آپکو کبھی معاف نہیں کرے گی اور آ کا نام تاریخ کے ان سیاہ ابواب میں ان ضمیر فروشوں کے ساتھ لکھا جائے گا جو نہ اس جہان کے رہے اور نہ ہی دوسرے جہان کے۔
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :