ایک ہمسفر کی موت !

پیر 13 اکتوبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

شاید 2008کی بات ہے ،ایک میڈیا ورکشاپ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا ،ورکشاپ 15دنوں پر محیط تھی ،اکیلے وقت وقت کٹنا مشکل تھا ،ملکہ ہانس کے ایک نوخیز نوجوان سے شناسائی ہو گئی ،اس وقت اس کی عمر تقریبا پندرہ سولہ سال تھی ،لیکن اس کی گفتگو سے لگتا تھا یہ چالیس کا میچور انسان ہے ،انتہائی مخلص ،دوستوں کا دوست ،بلا کا متحرک اور ایک مشنری انسان ۔

ورکشاپ سے واپسی پر بات آئی گئی ہو گئی لیکن ایک سال بعد نہ جانے کہاں سے اس نے میرا نمبر ڈھونڈ نکالا اور اگلے ہی دن مجھے ملنے کے لیئے لاہور پہنچ گیا ،مجھے یقین نہیں آ رہا تھا لیکن وہ میرے سامنے بیٹھا ۔پچھلے سال جب ورکشاپ میں ملا قات ہوئی تو وہ اولیٰ کا اسٹوڈنٹ تھا آج ملا تو کہنے لگا” یار میں نے پڑھائی چھوڑ دی “میں نے وجہ پوچھی تو باتوں باتوں میں مجھے ٹال دیا ،میں جب بھی اسے پڑھائی کا احساس دلاتا تو وہ ایک لمحے کے لیئے مسکراتا اور کہتا ”میں ان پڑھ صحافی بننا چاہتا ہوں “اور پھر وہ میرے سامنے کئی ایسے صحافیوں اور قلمکاروں کے نام رکھ دیتا جو ان پڑھ بھی تھے ،قلمکار بھی اور صحافی بھی۔

(جاری ہے)

ایک دن کہنے لگا ”آپ کبھی میرے پاس تشریف لاوٴ“میں اس کے آستانے پر حاضر ہوا تو مجھے حد سے ذیادہ عزت اور احترام سے نوازا ۔کچھ عرصے بعد وہ ہمیشہ کے لیئے لا ہو ر شفٹ ہو گیا ،اب اکثر و بیشتر ملاقات رہتی ،وہ میرے بغیر اور میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ،وہ دوسرے دن فون کر دیتا عرفان یار آ جاوٴ ،لیکن میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں اس وقت اسٹوڈنٹ تھااور میں ہفتے میں صرف ایک ہی دن فری ہوتا تھا۔

ہم ہفتے میں ایک دن ضرور اکھٹے ہو تے تھے ،مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب ہم شیرانوالہ کے پارک اور ملٹری اکاوٴنٹس سو سائٹی کے اطراف میں صبح کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے نئے نئے منصوبے بناتے تھے ،کبھی ایف ایم ریڈیو آن ایئر کرنے کی پلاننگ اور کبھی کسی نیٹ چینل کے قیام کی تجویز ،میں اس کی بڑی بڑی باتین سن کر حیران ہوتا تھا کہ اس بندے کی عمر اور اس کے پاس وسائل ہیں نہیں لیکن یہ باتیں کتنی بڑی بڑی کرتا ہے ۔

بہت کم عرصے میں اس نے سارا لاہور چھان مارا ،لاہور میں کوئی ایسی علمی ،ادبی اور سیاسی شخصیت نہیں تھی جس تک اس کی رسائی نہ ہو ،حقیقت یہ ہے کہ میں اگر لاہور کی علمی و ادبی شخصیات سے واقف ہوا ہوں تویہ اسی کی مہربانی ہے ،بہت کم عرصے میں اس نے لاہور کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنی پہچان بنا لی تھی ۔اس کے لاہور شفٹ ہونے کی وجہ ”خدام الدین “تھا اور وہ خدام الدین کا ایڈیٹر بن کرلاہور آیا تھا،خدام الدین کے پچاس سالہ سفر میں شاید یہ سب سے کم عمر ایڈیٹر تھا ،صرف 17سال کی عمر میں اس نے خدام الدین میں ایک نئی جان ڈال دی تھی اور اسے ایک نیا رنگ دیا تھا ،خدام الدین سے سفر شروع کرنے کے بعد اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ،وہ تقریبا درجن بھر رسالوں کا مدیر رہا ،میں ہفتے بعد جب اس کے پاس حاضر ہوتا تھا تو اس کے پاس ایک تازہ بریکنگ نیوز ہوتی تھی ۔

اسی کی کوششوں سے شاہ ولی اللہ سے منسوب ایک علمی و فکری فورم شاہ ولی اللہ سو سائٹی کا احیا ہوا جس کا ماضی میں بڑا نام اور کام تھا ،مولانا عبیداللہ انور نے اپنے دور میں اس سوسائٹی سے بڑا کام لیا تھا ۔کچھ عرصہ بعد وہ شیرانوالہ چھوڑ کر ٹاوٴن شپ ملٹری اکاوٴنٹس سوسائٹی میں شفٹ ہو گیا ،اسے یہاں لانے والے حافظ غازی الدین بابر تھے ،غازی بھائی انتہائی متحرک اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں ،لاہور کی سطح پر نوجوانوں کے لیئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ،انہوں نے نوجوانوں کے لیئے ایک ماہنامہ ”پیام سحر “کے نام سے جاری کیا تھا اور وہ اسی سلسلے میں اسے یہاں لے کر آئے تھے۔

غازی بھائی کے والد محترم ظہیر الدین بابر صاحب کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے ،دین کی فکر اور تڑپ رکھنے والے انسان ہیں ،اللہ نے وسائل بھی دیئے ہیں اور ان وسائل کو دین کی خدمت کے لیئے استعمال کرنے کا حوصلہ اور سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔ٹاوٴن شپ میں پچھلے دو سالوں سے جو میڈیا ورکشاپ اور لیڈر شپ مینجمنٹ کو رس ہو ئے اس کے میزبان یہی باپ بیٹا اور ان کی فیملی ہے ۔

غازی بھائی کا ارادہ ہے کہ مدارس کے اسٹوڈنٹس کے لیئے جرنلزم کا ایک ایسا ادارہ بنا یا جائے جہاں انہیں فن سکھانے کے ساتھ ساتھ ایم اے جرنلزم کی ڈگری بھی دی جائے تا کہ جب وہ فیلڈ میں جائیں تو معاشرے کے معیار پر پورا اتر سکیں ۔وہ یہاں آ کر بھی سکون سے نہیں بیٹھا اور نئے نئے منصوبے شروع کر تا رہا ۔اس سال مئی کے مہینے میں جب ملاقا ت ہو ئی تو کہنا لگا ”یار مدارس میں چھٹیاں ہونے والی ہیں اور ہم ٹاوٴن شپ میں ’ لیڈر شپ مینجمنٹ ‘کورس کا انعقاد کر رہے ہیں “میں نے کہا میرے لیئے کیا حکم ہے ،بولا ”کو رس کا پہلا ہفتہ میڈیا کے لیئے مختص ہے اور اس کو آپ نے چلانا ہے “میں نے حامی بھر لی ۔

کو رس شروع ہوا تو میں نے لاہور کے اکثر بڑے صحافیوں ،کالم نگاروں اور مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کے لیکچر رکھوائے ،بڑا خوش ہوا ،کہنے لگا اگلی دفعہ میڈیا کے لیئے دو ہفتے رکھے جائیں گے ۔کورس کی اختتامی تقریب میں مولانا زاہد الراشدی صاحب تشریف لارہے تھے ،کہنے لگا ”شرکاء کی خواہش ہے کہ وہ معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان سے اسناد وصول کریں ،میں نے ان سے بات کی ،شیڈول بہت مصروف تھا ،وقت نہ دے سکے ،میں نے اسے بتایا تو ناراض ہو گیا اور کہنے لگا اگر اوریا صاحب نہیں آئیں گے تو ہم تقریب نہیں کریں گے ،میں نے دوبارہ رابطہ کیا اور دس منٹ کی درخواست کی ،وہ مان گئے ،اسے بتایا تو کھلکھلا اٹھا اور بڑی دھوم سے اختتامی تقریب منعقد کی ۔


میرا اس سے تعلق بے تکلفی پر مبنی تھے ،میں جب بھی حوصلہ ہارتا وہ آگے بڑھ کر میرا ہاتھ تھا م لیتاتھا ،میں اس سے ناراض ہوتا تو کبھی اس نے منانے کی کوشش نہیں کی ،کہتاتھا ”مجھے پتا ہے تو میرے بغیر نہیں رہ سکے گا“ اورشاید حقیقت بھی یہی تھی ،میں دوست بنانے کا قائل نہیں ہوں اور نہ میں نے آج تک کبھی کوئی دوست بنایا ہے لیکن اسے میں فخر سے کہا کرتا تھا ”یار تو میرا دوست ہے “عید کے تیسرے دن فون پے بات ہوئی تو کہنے لگا عرفا ن یار لاہور آوٴ ضروری ملنا ہے ،شایدوہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے کسی پراجیکٹ پر کام کرنا چاہتا تھا ،میں نے اگلے ہفتے آنے کی حامی بھر لی لیکن 9اکتوبر کی دوپہر خبر ملی وہ مجھے چھوڑ کے چلا گیا،نوید ارشد میرا انتہائی قریبی دوست ،میرا ہم مشن اور ہم خیال ،لگتا ہے جیسے میرا بازو ٹوٹ گیا ہو ،ابھی پچھلے سال شادی ہو ئی تھی ،آہ !اس کا تین ماہ کا بیٹا اور اس کی صابر گھر والی ۔

اسے ہر کام میں جلدی ہوا کرتی تھی،شاید اسے پتا تھا کہ اس پا وقت بہت کم ہے ،یہی وجہ ہے وہ 23سال کی عمر میں اتنا کام کر گیا جتنا ہم 60سال کی عمر میں بھی نہیں کر سکتے ۔وہ اپنے حصے کا کام کر کے چلا گیا لیکن ہمارے لئے سبق چھوڑ گیا ۔اللہ اس کے گھر والوں کو صبر دے اور کی قبر پر کروٹ کروٹ رحمت نازل فرمائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :