عمران خان کون ہے؟

ہفتہ 11 اکتوبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

شائد ایک یہودی،کافر،مرتد،زانی ،عیاش ،جھوٹا،چور اور پتا نہیں کیا کیایہ تمام القابات عمران خان کے حصے میں آئیں ہیں کہ یہاں سچے لوگوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور یہ القابات دینے والے کون ہیں ،جنہوں نے 65سال اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا، سیاست کے نام پر غریب عوام کا خون چوسا ،ہمارے ایک مولانا جو شائد سیاست کے مولانا ہو ں گئے کیوں کہ دین سے تو اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں جو کبھی کہتے تھے عورت کا حکمران ہونا کفر کی علامت ہے پھر خود ایک خاتون کی حکومت کا حصہ بن گئے۔

یہ مولانا صاحب ہمیشہ اصولی سیاست کی بات کرتے ہیں مگر افسوس آج تک انہوں نے اصولی سیاست کو نہیں اپنایاجہاں کہیں حلوہ مانڈہ نظر آیا وہی ڈھیر ہو گئے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ہر حکومت سے مراعات بٹورتے رہے ۔

(جاری ہے)

ان کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے نام نہاد سیاستدان الزا م لگاتے نہیں تھکتے، کسی نے کہا وہ طالبان خان ہے کسی نے کہا وہ ظالم خان ہے، کوئی کہتا ہے وہ روتا خان ہے، سب نے اپنی اپنی مرضی کے نام دیے اور مذاق اُڑایادُنیا میں ہر وہ الزام جو اخلاقیات کی تمام حدود پار کرتا ہے وہ اُس پر لگا لیکن وہ سچا تھا اسی لیے ڈتا رہا ۔


آخر وہ ہے کون وہ چاہتا کیا ہے کیا اُسے درجنوں گاڑیو ں کا پروٹوکول چاہیے کیا اُسے اقتدار چاہیے کیا وہ روپے پیسے کا لالچی ہے ،کیا اُسے اپنے بچوں کے لیے بڑی بڑی ملیں لگانا ہیں کیا وہ کرسی کے لیے لوگوں کی جانیں لینا چاہتا ہے،اگر یہی سب کرنا ہوتا تووہ کب کا کر چکا ہوتا مگر اُسے صرف اورصرف پاکستان کے مظلوم عوام نظر آتے ہیں وہ دیکھتا ہے کہ جب سے دیکھ رہا ہوں اس عوام کے ساتھ ظلم پر ظلم ہو رہے ہیں جمہوریت کے نام پر لوگوں پر بادشاہت قائم کر دی جاتی ہے۔

وہ دیکھتا ہے غریب آدمی مزید غریب ہوتا جا رہا ہے دو وقت کی روٹی پوری کرنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ وہ یہ نہیں کہتا مجھے اقتدار چاہیے وہ تو کہتا ہے اپنے حق کے لیے لڑو ظلم سہتے سہتے خود بھی ظالم نہ بن جانا ۔ وہ جو بات بات پر قران ،حدیث، اور خلفاء راشدین کے قول نقل کرتا ہے وہ کہتا ہے جب تک عوام خوشحال نہ ہوں حکمرانوں کو فصول خرچیاں نہیں کرنی چاہیے۔

وہ کہتا ہے اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے آگے آؤ۔ویسے لگتا وہ پاگل ہی ہے جو کتنے دنوں سے کھلے آسمان کے تلے عام پاکستانیوں کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کچھ کہتے ہیں اس نے پاکستانی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے ہوسکتا ہے پاکستان کی اقتصادی تاریخ انہی چند دنوں کی مرہون منت ہو۔ وہ جو بڑھ بڑھ کر پارلیمنٹ کو پارلامنٹ کہتے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں انہوں نے اپنے دور حکومت میں عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا، غریب کے جسم سے کھال تک اُتار لی گئی کرپشن کی ایسی ایسی داستانے رقم کی کے روف کلاسرا جسے صحافی نے بھی مزید سکینڈل فائل کرنے سے توبہ کرلی۔


وہ ایک آدمی نہیں ایک تنظیم ہے ،ایک ایسا لیڈر جو 18سال سیاست کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتا رہا اور پھر پاکستان کی سیاسی تقدیر بدلنے کے لیے ایک قد آور لیڈر بن گیا، کچھ سیاسی لاوارث اس کی مقبولیت کو Establishmentکی کارستانی کہتے ہیں لوگوں کا جم غفیر اکٹھا کرنے والا کیسے کسی کے ہاتھ کھیل سکتا ہے۔ سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے کھڑئے رہنے والے بے زبان عوام کو زبان دینے والا اپنے حقوق کی خاطر مر مٹنے کا درس دینے والا وہ کسی گیم کا حصہ کسے بن سکتا ہے۔

ہاں اُس کی ایک ہی گیم اور پلان ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے وہ ہر پاکستانی کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا ،وہ ایک ایسا پاکستان چاہتا ہے جس میں تمام لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل ہوں ۔وہ قائد کے پاکستان کو بنانا چاہتا ہے جسے لٹیروں نے نوچ نوچ کر ادھ موا کر دیا ہے۔


آج ہر عام خاص اپنے اپنے حقوق کی بات کرتے دیکھائی دیتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا یہ اُسی کی سیاسی تربیت ہے آج پاکستان کے دور دراز کے لوگوں کو کہ جہاں تعلیم تک نہیں پہنچی اس کا پیغام پہنچ چکا ہے لوگ جاگنا شروع ہو گئے ہیں لوگوں کو اپنے حق کا پتا چلتا جا رہا ہے سڑکوں پر گھنٹہ گھنٹہ حکمرانوں کے انتظار کرنے والوں کو اب بولنا آگیا ہے ہر روز کوئی نہ کوئی اپنے حق کے لیے آواز اُتھا رہا ہے وہ وقت بھی دور نہیں جب پورا پاکستان جاگ جائے گا اور اپنے حقوق کے لیے اُن لوگوں کو گریبان سے پکڑا جائے گا جو کئی عشروں سے ہمارا خون چوس رہے تھے۔


کسی نے کہا وہ پانی کا بلبلہ ہے اور یہ کہا کس نے جس کے گھوڑئے بھی غریب سے زیادہ عزت سے جیتے ہیں،جس کے حواریوں نے پانچ سال اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ جنہوں نے پانچ سالوں میں اس ملک کو اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا۔ جو تعلیم صحت جیسے نعروں کی آڑ میں غریب پاکستانیوں کا عربوں روپیہ کھا گئے۔ یہ وہ بھکاری ہیں جو اپنے شہیدوں کے نام پر سیاست کرتے ہیں زندہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے انہیں مردوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ان کے بچے جن کو اس ملک کی قومی زبان تک نہیں آتی مستقبل میں ہم پر حکومت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اب وقت بدل چکا اب پاکستانی عوام ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جمہوریت اور آئین کی آڑ میں چھپے یہ سیاسی درندئے مزید اس قوم کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ اب ہمارے پاس ایک لیڈر ہے ایک ایسا لیڈر جو مستقل مزاجی سے عوام کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جسے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں چاہیے وہ صرف پاکستانیوں اور ان کے بچوں کا مستقبل سنوارنا چاہتا ہے۔

وہ عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کرنے کا حامی ہے غریبوں کے ٹیکسوں پر بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنا اُس کا مقصد نہیں ۔
کون ہے عمران خان جس کا راستہ روکنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں۔ اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرئے کے پاؤں پکڑنے والے یہ لوگ ملک کا مفاد کبھی نہیں سوچتے ۔انہوں نے اپنے اپنے دانشور خرید رکھے ہیں اپنے اپنے مشیر بنا رکھیں ہیں۔

بہت سے صحافی ان کی جیبوں میں ہیں۔ پکنچر لگانے کے ماہر ان کی ٹیموں میں شامل ہیں چڑیا سے لے کر طوطے کی فعال تک نکالنے کے دعوئے دار ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ لیکن اب یہ مزید نہیں چل سکتا لوگوں کو مزید دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ہر بار عوام ہی کیوں زلیل ہوں اس دفعہ ان کی باری ہے اب یہ ذلیل ہو ں گے۔پاکستانی عوام اب اپنا حق کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ اب ان کا لیڈر کوئی چور نہیں بلکہ سچا آدمی ہے جو صرف صرف عوام کے لیے جیتا ہے۔ یہ ہے عمران خان پاکستان میں نئی تاریخ رقم کرنے والا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :