روشنی جہاں بھی ہو، روشنی کا ساتھ دو

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

برطانیہ کے غلام ہندو ستان میں ، بالخصوص انگریزوں کے خلاف جنگ ِ آزادی کے بعد جس طرح انگریز و ں اور ہندوٴں کی جارحانہ ملی بھگت کی چکی میں مسلمان پس رہے تھے،اس کی تفصیل میں جانے کی ضرور ت نہیں، وہ ایک اندوہناک تاریخ ہے،جس نے پاکستان کو جنم دیا۔ اُسی دور میں لکھی گئی ن۔ م۔ راشد ( مرحوم ) کی ایک نظم ”پہلی کرن “ کے نام سے ہے۔جس کا ایک ایک شعر مجھے سلگتی ہوئی سوچوں کے گھپ اندھیرے کنویں میں پھینگ کیا ہے۔

طوالت کے پیش نظر ساری نظم تو نہیں ، نظم کے پہلے اور دوسرے بند سے دو مصرعے پیش خدمت ہیں۔
ء کوئی مجھ کو دُورِ زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دوٴ
میں اُس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے،نانِ شبینہ نہیں ہے۔
میرا اپنے سبھی پاکستانی بھائی بہنوں ، بیٹوں اور بیٹیوں سے ایک سوال ہے۔

(جاری ہے)

کیا ن۔م۔راشد (مرحوم) کے یہ دونوں بند ، جو انہوں نے غلام ہندوستان میں کہئے تھے۔

آج بھی آزاد پاکستان کے گلی کوچوں میں اپنی پوری تونائی کے ساتھ گریہ زاری کرتے نظر نہیں آتے ، یا نہیں ؟
میرا دوسرا سوال صحافی بھائیوں اور بہنوں سے ہے۔کیا یہ سچ نہیں کہ جس طرح مسلمانان ہند کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ سبحان و تعالی نے قائدِ اعظم  کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ موہن داس گاندھی جیسے کانگرس کے قد آور لیڈر نے تو کہہ ہی دیا تھا کہ پاکستان میری ڈیڈ باڈی پر بنے گا۔

قائد اعظم  کی وفات کے بعد جب اُن کی وفات کا سبب ( ٹی۔بی کی بیماری) راز نہیں رہا تھا تو لارڈ مونٹ بیٹن نے بھی کہا تھا۔” اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے پھیپڑو ں پر شلنگ سائز کے تین سوراخ ہیں تو میں پاکستان کبھی نہ بننے دیتا۔“ اپنے وقت کی دو اتنی بڑی طاقتوں کی جارحانہ رکاوٹو ں اور کچھ علمائے دین کی ایمان فروشی کے باوجود پاکستان بن گیا۔

معاف کیجئے ”کچھ علمائے دین“ کا دامن تو بہت وسیع ہے۔جس کی گرفت میں ہندو ستا ن بھر کے سبھی علمائے دین آ جائیں گے۔ جبکہ یہ قصہ چند دیو بندی علمائے دین کا ہے، جن میں مولانا فضل الرحمن کے والد مرحوم مولانا مفتی محمود بھی شامل تھے، جنہوں نے تحریک پاکستان کے خلاف کانگرس کے پروپیگنڈ ے کو بے اثر کرنے کا جہاد کرنے کے لئے اپنی خدما ت قائد اعظم  کو پیش کیں اور اپنی اِس خد مت کے لئے پچا س ہزار روپئے سالانہ طلب کئے۔

قائد اعظم  نے مسلم لیگ کے پاس فیڈز کی کمی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کر لی اور اُن سرمایہ ِاسلام کے باعث عزو افتخار علمائے دین نے اپنا یہی منصوبہ پچاس ہزار سالانہ کے عوض تحریک پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے کانگرس کو بیچ دیا، بحوالہ” اقبال کے آخری دو سال“ عاشق حسین بٹالوی مرحوم۔ علامہ اقبال  نے شاید اُن ہی کی اِس روّش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔


ملّا کو جو ہند میں ہے سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے اسلام ہے آزا د
بہر کیف،میں ستمبر 1972 سے پاکستان سے باہر ہوں۔لیکن یہ سچ ہے کہ میرادل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور میری پارٹی میرا پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگ ہیں۔مجھے اعتراف ہے کہ آپ لوگوں کے مقابلے میں پاکستانی سیاست کے بارے میں میری معلومات اور جذبات کو ،آپ مسترد بھی کر سکتے ہیں۔

لیکن ن۔م۔راشد مرحوم کے جن دو مصرعوں نے مجھے میری سلگتی ہوئی مایوسیوں کے گُھپ اندھیر ے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔اُس اندھیرے کنویں میں مجھے تو امید کی ایک ہی روشن کرن نظر آتی ہے۔ اور وہ ہیں عمران خان۔مجھے لگتا ہی نہیں یقین سا ہو چلا ہے کہ اپنی مخلوق کی بہتری کے لئے قائد اعظم  کی طرح عمران خان کا ہاتھ بھی اللہ سبحان و تعالیٰ نے نہیں پکڑ لیا ہے،جس طرح ہندوستان بھر کے مسلمان بیدار ہو گئے تھے اور سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا۔

”بن کے رہے گا پاکستان “ آج اسی طرح ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی نعرہ نقارئہ خدا بن کر گونج رہا ہے۔ ”گو نواز گو “اور ہاں میں خود کو ’عقل کل‘ سمجھنے کی غلطی فہمی میں مبتلا انسان نہیں ہوں،۔یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے سمجھ دار اور پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگوں سے سیکھنے کے لئے عقیدت مندانہ تعلقا ت رکھتا ہوں اور میری اس رائے میں بے شمار لوگوں کی رائے شا مل ہے،جن کا کہنا ہے عمران خان کے مورثی سیاست اور بے لگام کرپشن کے خلاف نعرے نے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوے پاکستانیوں کے دل فتح کر لئے ہیں، با وقار اور صاحب ضمیر پاکستانیو ں کو یہ دکھ کھائے جا رہا ہے کہ بے لگام کرپشن نے ہمارے ملک کو بھکاریوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے، جس کے اثرات وزیر اعظم صاحب کے حالیہ دورئہ امریکہ میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں اور اپنے وطن عزیز کے منصب وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ اُس توہین امیز روّئے پر شرمناک کڑھن سبھی محب وطن پاکستانی محسوس کر رہے ہیں۔

کچھ روشن ضمیر اور اپنے منصب کے ساتھ مخلص صحافیوں کی مہربانی سے ، سبھی پاکستانی یہ جا نتے ۱ور کرھتے رہتے ہیں کہ اُن کا پاکستان کس سمت کی طرف جا رہا ہے۔؟ وہ پردیس میں خود کو کس پاکستان کے ساتھ جوڑیں ؟ پاکستان کے سبھی اداروں میں بے لگام کرپشن ہو رہی ہے ۔ ”مرے کو مارے شاہ مدار “بڑے کاروباری لوگوں سے کوئی ٹیکس تک وصول نہیں کرتا۔

یہاں تک کہ خود ممبر آف پارلیمنٹ کی اکثر یت ٹیکس ادا نہیں کرتی۔”سچ کہواں تے رات کتھے رواں“ حنیف عباسی جیسا معروف پاک دامن پیچھے پڑ جائے گا کہ جو شخص بتالیس سال سے کینیڈا میں رہ رہا ہے، اُسے پاکستان کے حالات سے کیا واقفیت ہو سکتی ہے ؟ حنیف عباسی صاحب وہ وقت گئے جب کہ آپ لوگ کرپشن کی فیلڈ میں چوکے چھکے مارتے تھے اور پاکستان ٹی۔

وی کسی کو کان و کان خبر نہیں ہونے دیتا تھا۔بیشک آج بھی آپ لوگوں کی کرپشن اور یہاں تک کہ مجرمانہ کاروباری سر گرمیوں کی وکالت کرنے والے بھی بے شمار ضمیر فروش صحافی ہیں۔لیکن اُن میں اپنے منصب کے نصب العین سے مخلص صحافی بھی ہیں۔جو ایک ایک پل کی خبر سے ہمیں آگاہ رکھتے ہیں۔ٹیکس کی بات ہو رہی تھی۔سنا ہے میاں نواز شریف کی صرف انگلینڈ میں بزنس ایمپائر نے کم و بیش تین ارب روپئے ٹیکس ادا کیا ہے۔

سوال ہے پاکستان میں اُن کے بزنس ایمپائر نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے ْ؟ آپ جیسا غصیلہ چرب انسان فوراً کہہ دے گا۔ٹیکس تو آمدن پر دیا جاتا ہے۔جس کا مطلب یہ ہو گا کہ میاں صاحب کا انگلینڈ میں پاکستان کے مقابلے میں بزنس زیادہ ہے۔اگر آپ کو ایک شریف انسان کا درجہ دیتے ہوئے آپ کی اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو پھر جس آدمی کی اپنی سرمایہ کاری پاکستا ن کے مقابلے میں بیرون ملک زیادہ ہے ۔

وہ کس مُنہ کے ساتھ قومی خزانے پر بوجھ بن کر پاکستان کے لئے سرمایہ کاروں کی تلاش میں دوسرے ممالک کے اتنے اتنے مہنگے دورے کرتا رہتا ہے ؟حنیف عباسی صاحب کسی عاقل کا قوم کا ہے۔غصہ تنہا آتا ہے لیکن جاتے ہوئے آپ کی عقل اور شخصیت کے حسن کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔
”عمران خان رو رو کر ’گو نواز گو‘ کہہ رہے ہیں، اُنہیں استعفیٰ ملا اور نہ ہی اُن کا نیا پاکستان بنا “ پرویز رشید
نیا پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کے پرویز رشید جیسے ساتھی بنائیں گے۔

نواز شریف پر اربوں روپیوں کی نا دھندگی کے مقدمات کی فائلوں کو لاہورہائی کورٹ میں دیمک چاٹ رہی ہے اور پرویز رشید کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔کہ موصوف نے چند بنکوں سے کروڑوں روپیوں کا قرض لے کر واپس نہیں کیا۔یہ وارنٹ گرفتاری ایس۔پی اسلام آباد کے پاس پہنچ چکے ہیں۔لیکن انہوں نے ابھی تک پرویز رشید کو گرفتار نہیں کیا۔ چور کا ساتھی گرہ کٹ۔

کے مصداق ابھی تھوڑی دیر پہلے ”دنیا نیوز“ پر عمران کے پروگرام میں حنیف عباسی پرویز رشید کی وکالت میں زمین و آسمان کو ملانے کے لئے آسمان کو زمیں کی طرف گھسیٹنے کے لئے اپنی قوت ِ زباں کا مظاہرہ کر کے نہ صرف خود تماشا بن رہے تھے، ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کے ایک نوجوان پر بھی بگڑ رہے تھے جو کہہ رہا تھا کہ ایک بھکاری ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نیو یارک میں اپنے رہنے کے لئے اتنے مہنگے ہوٹل میں مہنگے ترین سویٹ کا انتخاب کیوں کیا ؟ جس کا یومیہ کرایہ ۱۲ ہزار ڈالر تھا۔

جس کے جواب مین حنیف عباسی طاہر القادری کے شاہانہ طرز زندگی کا ذکر کر کے نواز شر یف کی وکالت کر رہے تھے ساتھ عمران خان کے بنی گالہ میں محل نما گھر کا حدود اربعہ بھی بتا رہے تھے اور اس نوجوان کو یہ بھی کہہ رہے تھے ۔ مجھے کل ہی میرا ایک دوست کہہ رہا تھا ۔ ”بچوں کو مُنہ نہ لگایا کرو۔“ اور خود بزرگ حنیف عباسی کی عقل میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ میاں صاحب کی شاہانہ زندگی کا بوجھ قومی خزانے پر پڑتا ہے۔

میاں صاحب کا جاتی عمرہ قومی وسائل میں چوری چکاری سے بنا ہے جب کہ طاہر القادری کا قومی خزانے کے ساتھ کوئی دور کا تعلق واسطہ بھی نہیں ہے اور یہی حال عمران خان کے گھر کا ہے۔جو پاکستان کے قومی وسائل میں چوکے چھکے مار کر نہیں بنا۔میں اپنی ذاتی زند گی میں رجائیت پسند انسان ہوں،لیکن اپنے وطن عزیز کے نا گفتہ بہ حالات کے پیش نظر اپنے نام نہاد قومی لیڈران کے کرتوت دیکھتے اور ڈھٹائی پر مشتمل اُن کی باتیں سن کر میرے ہاتھ سے رجائیت کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔


قارئین کرام ! آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کے یہ جمہوریت کو بچانے والے لوگ کون ہیں؟ #یہ مُنہ کالے بھڑیئے اپنی اپنی کرپشن کی گٹھڑیاں کھلنے نہیں دینا چاہتے ۔ورنہ ان سے کوئی پوچھے یہ کس جمہوریت پر فدا ہیں ؟ کیا یہ جمہوریت کے نام پر تماشا نہیں کہ کل کا بچہ بلاول بھٹو زردار ی چئیرمین پیپلز پارٹی کی حیثیت سے جب پارٹی کی میٹنگز میں چیئر کرتا ہے تو اس کے سامنے سفید بالوں والے بزرگ سیاست دان، جنہوں نے پاکستا ن پیپلز پارٹی میں اپنی زندگیا بِتا دی ہیں، اپنے نواسوں اور پوتوں کے ہم عمر بلاول کی باتین بڑے مودب ہو کر سن رہے ہوتے ہیں۔

لعنت ہے ایسی جمہوریت پر ، اُدھر مسلم لیگ (ن) کی جمہور یت پسندی کا تماشا بھی دیکھ لیں،جو پوری حکومت کا نظم و نسق اپنے خاندان میں رکھے ہوئے ہیں، جب سے میاں شہباز پر قتل کا مقدمہ بناہے، انہوں نے اپنے نو عمر بیٹے حمزہ شریف کو ڈپٹی چیف منسٹر پنجا ب کا عہدہ دے دیا ہے ، جب کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حمزہ شریف سے لاکھ درجے بہتر اور سنئیر سیا ست دان موجود ہیں، لیکن وہ میاں برادران کے خاندان سے نہیں ہیں۔


ادھر محترمہ مریم نواز اپنے باپ کے پالے ہوئے غنڈوں کے ہاتھوں ” گو نواز گو “ کے نعرے بلند کرنے والوں کی مار کٹائی کرنے والے کسی ممبر آف پارلیمنٹ بٹ صاحب کی حرکت پر شرمندہ ہونے کی بجائے فرماتی ہیں۔ ہمار ے شیروں کے ساتھ الجھنے والوں کا یہی حشر ہو گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کے شیر پنجاب والد صاحب کو جنرل مشرف نے پکڑ کر اندر کر دیا تھا تو اس وقت بھی مریم نواز نے کہا تھا۔

” مشرف ! میرے با پ کو چھوڑ دوٴ،وہ تمہیں معاف کر دیں گے “ لیکن شیر کی کھال میں چھپے ہوئے نواز شر یف مشرف سے معافی مانگ کر سعودی ارب چلے گئے تھے۔بھٹو کی طرح، جنہوں نے اپنے خاندان کو منع کر دیا تھا کہ کوئی بھی جنرل ضیا سے معافی نہ مانگے،پھانسی گھاٹ تک کا سفر کرنا تو دور کی بات رہی، چند دن جیل میں رہ کر خود پر بنے ہوئے مقدمے کا سامنا بھی نہیں کر سکے تھے۔

لیکن وہ آج بھی شیر ہیں۔
گجرات میں ایک غیر جمہوری واقعہ کے حوالے سے میاں صاحب کے گلوں بٹوں پر مشتمل پنجاب پولیس سے ایک سوال ہے کہ کتنے لوگوں پر ”گو نواز گو “ کی وال چاکنگ کے مقدمے بناوٴ گے ؟
تم آ ٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو ؟ جیسے بے سرو پا الزام کے مصداق عمران خان پر ایک الزاقم یو ٹرن لینے کا بھی ہے۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مکمل ذات صرف اللہ سبحان و تعالی کی ہے۔

میں نے کبھی نہیں لکھا کہ عمران خان ایک مکمل اور بے داغ انسان ہیں۔ہاں یہ ضرور مانتا ہوں کے اس وقت ان کے مقابل جو لوگ ہیں ۔اُن ڈاکووٴں اور لٹیروں کے مقابلے میں لاکھ درجے بہتر اور کھرے انسان ہیں۔بقول حسن نثار صاحب کے عمران خاں خود کھائے گا نہ کسی کو کھانے دے گا۔لیکن جس طرح اندھیرے میں الّو خوش رہتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں لا قازنونیت ، غربت و افلا س اور لوٹ کھسوٹ کے اندھیروں میں خوش رہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمن تو ایک ایسے علالم دین ہیں۔جنہوں نے اپنی کہہ مکرنیوں سے ثابت کر دیا ہوا ہے کہ ،” پٹھان کا پوت ، گھڑی میں ماشا ، گھڑی میں بھوت “ اب تو شرجیل میمن نے بھی میا نوالی میں عمران خان کے جلسے میں عمران خان کیا کہہ رہے ہے ؟ سننے کے بجائے جلسے میں شریک خواتین کے سرخی پاوٴڈر پر ہی نظر رکھی ہے۔یہ ہم مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان ہی ہیں جو خواتین کو بھوکی نگاہوں سے گھورتے ُاور ان کی باتیں کرتے ہیں۔

یہاں مغرب میں تو کسی کو نظر بھر کے دیکھنے کو بد تمیزی میں شامل کیا جاتا ہے۔بہر کیف، شکر ہے انہوں نے جلسے میں شریک لوگوں پر ہلا گلا پسند ہونے کا فتویٰ صادر نہیں فرما دیا۔لوگوں کو عمران خان کے یو ٹرن تو یاد آتے ہیں ؛لیکن لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہماری غیر آئینی پارلیمنٹ میں ہمارے معززا پارلیمانی ممبران ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات بھی لگاتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

اعتزا احسن نے تو دھاندلا کہا ہے۔ لیکن وہ سب دھاندلی ززدہ پارلیمنٹ کو توڑنے کے لئے تیار نہیں۔یہاں تک کہ الیکشن کمیشن بھی الیکشن میں بے قاعدگیوں کا اعتراف کرنے کے بعد اپنے رپورٹ کو واپس لینے پر مجبور ہو گیا ہے۔جس نے عمران خان کی اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ جب تک میاں نواز شریف وزیر اعظم ہیں۔کہیں اور کسی بھی ادارے میں انساف نہیں ہو سکتا۔

کالم کی طوالت آ رھے آ رہی ہے ورنہ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں کہ انسان نے کہا کچھ اور مجبور ہو کرکیا کچھ۔۔
آج عمران خان پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ کیسے نیا پاکستان بنائیں گے۔؟ ان کے ساتھ تو وہی لوگ کھڑے ہیں۔جو ”اسٹیٹس کو“ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ایسے الزام لگانے والے لوگ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ جب اللہ سبحان و تعالی مسائل کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی کسی قوم پر احسانِ ِ کریمی کرنے لگتے ہیں تو پھر معجزے رو نما ہوتے ہیں۔

جس طرح قیام پاکستان کا معجزہ رو نما ہوا تھا جبکہ قائد اعظم  کو چند مخلص ساتھیوں کے علاوہ اپنے ساتھیوں کی اکثریت کے بارے میں کہنا پڑا تھا۔” میں جس بھی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں کھوٹے سکے ہی نکلتے ہیں“ چونکہ قائد اعظم خود با اصول اور کھرے انسان تھے۔پاکستان بن گیا۔ انشا اللہ ، نیا پاکستان بھی ضرور بنے گا۔قیادت با اصول اور مضبوط ہو تو کھوٹے سکے بھی کھرے ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یا قافلے سے الگ ہو جاتے ہیں۔پیران پیر جاوید ہاشمی کی مثال ہمارے سامنے ہئے۔جنہوں نے عمران خان پر جو دو بنیادی الزام لگائے ہیں۔ان دونوں میں سے تا حال ابھی اتک فوج عمران کی امداد کے لئے آئی ہے اور نہ ہی کسی بیرونی طاقت نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے۔ لیکن انہیں ان کی اپنی ہی باتوں نے ننگا کر کے معاملہ فہم پاکستانیوں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے کہ میں نے ا پنے بچوں کو وصیت کر دی ہوئی ہے کہ میں جب مر جاوٴں تو مجھے مسلم لیگ کے پرچم میں دفن کرنا۔

انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس مسلم لیگ کے پرچم کا ذکر کر رہے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ انہو ں نے بانی پاکستان کی مسلم لیگ کے پرچم کا ذکر کیا ہو گا۔اگر یہ سچ ہے تو پھر انہیں بانی پاکستان کی زند گی کے بارے میں کچھ پڑھ بھی لینا چاہیے تھا۔ ایک بار کانگرس کے ایک نمائندہ لیڈر کے دفتر میں کام کرنے وا لے کسی مسلمان نے مسلمانوں کے خلاف ایک سازشی خط کی کاپی قائد اعظم کو ہیش کی تو انہوں نے اُ سے اپنے دفتر کے ساتھ بد دیانتی قرار دیتے ہوئے اُسے بری طرح ڈانٹ پلا دی تھی۔

بحوالہ” شہاب نامہ “ اس کے علاوہ قائد اعظم کی قومی خزانے کے ساتھ دیانت کے ایمان افروز قصے بھی ان کی زندگی میں لعل و جواہرات کی طرح چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر انہو ں نے مسلم لیگ (ن) کے پرچم میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو انہیں مبارک ہو کہ پانی ڈھلوا ن کی طرف ہی بہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :