ہم ،ابا جی اور رشتے دار

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Fauzia Bhatti

فوزیہ بھٹی

بنیادی طور پر دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں
دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں
-1میں اپنا فیورٹ ہوں انسان
-2اچھے انسان۔۔۔۔اپنی عافیت چاہتے ہیں تو دونوں سے بچیں
یوں تو ہم جلد باز ہرگز نہیں ہیں۔انتہائی سکون اور بے حد chillہو کر ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پتہ نہیں یہ ہمارے بزرگ جو ہوتے ہیں نا ان کو کونسے کونسے سے زمانے کا تمام حصہ ازبر ہوتا ہے ۔

سچی بات تو یہ ہے پڑھے لکھے ماں باپ ہمیشہ آپ کی ایک آنے (پیسے )کی قدر نہیں کرتے ۔آپ دنیا میں بھلے ہی عزت سے جانے جاتے ہوں ان کے سامنے آپ کی ٹکے کی ویلیو نہیں ہوتی ۔ وہ ایک گھسا پٹا لطیفہ ہے نا کہ افسر کو گھروالے کہتے ہیں کہ" افسر ہوئیں گا تے بار ہوئیں گا اور باہر والے کہتے ہیں کہ افسر ہوئیں گا تے گھرہوئیں گا" سو ہی حساب ہو جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایسے میں ہمارے جیسے لوگ ایک عجیب و غریب زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
انگریزی کی ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ friends you can choose but relatives you can't۔ اگر آپ شہر میں رہنے والے وہ واحد رشتہ دار ہیں جن کے تمام عزیز "پنڈ" میں رہتے ہیں تو یقیناً آپ کا گھر بھی سال کے چھ مہینے لاری اڈا بنا رہتا ہو گا۔کبھی کسی کا جنرل ہسپتال میں آپریشن ہوتا ہے تو کوئی عمرے پہ جا رہا ہوتا ہے۔

کوئی رشتہ دار اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آ ٓپ کے گھر منتقل ہو گیا ہے تو کسی کے سسرال میں شادی ہے اور انہیں آپ سے ملنے کا شوق چرایا تھا۔آپ یقیناً ایسے جملے بھی سنتے ہوں گے:۔
-1آپ نے تو کبھی یاد ہی نہیں کیا
-2ہاں جی بڑے لوگ ہو گئے ہیں
-3ہم ہی آتے ہیں ہمیشہ آپ سے ملنے
یہ سب بھی ایک ایک فرض کی گئی تکلیف کا حصہ ہوتے ہیں مگر وہ لوگ ۔

۔۔۔ وہ رشتے دار جو آپ کو وڈے ماموں کا بچہ یا بچی سمجھ کر مستقبل میں پھانسنے کا ارادہ رکھتے ہوں ان کے سامنے یہ تکلیف بہت ہی کم ہے۔ایسے رشتہ داروں سے کم سے کم سامنا کریں۔یہ ایک خاص قسم ہوا کرتی ہے آپ کا واسطہ ایسے رشتے داروں سے پڑ ہی جاتا ہو گا جو یوں تو ہر دم لاؤنج میں بیٹھے رہتے ہیں مگر عین لنچ یا ڈنر کے موقع پر ایک دم سے یا تو غائب ہو جاتے ہیں تاکہ ان کو آوازیں دی جا سکیں اور ان کی اہمیت کا اندازہ ان کو کرایا جا سکے یا وہ احتیاطً نماز کی نیت باندھ لیتے ہیں کہ نخرہ بھی ہو جائے اور کھانا بھی رج کے ٹھنڈا ہو جائے جب سب کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے تو وہ انتہائی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہاں! ارے آپ لوگ شروع کر لیتے میں نے تو صرف چار فرض ہی پڑھنے تھے اور پھر گھنی سی مسکراہٹ سے میز کے سیٹ ترین برتن آگے پیچھے کرنے لگتے ہیں۔

ایسے چول اور ڈھیٹ لوگوں کو" میں اپنا فیورٹ ہوں کہا جاتا ہے" ۔ان میں کئی ایک خوبیاں ہوتیں ہیں جو کہ قابلِ مذمت سے زیادہ قابلِ مرمت ہوتیں ہیں۔جیسے یہ عیدی کے ہزار دو ہزار نوٹوں کو ہمیشہ بھری محفل میں دینا پسند فرماتے ہیں اور اس پر ہی بس نہیں یہ نوٹ آپ کو ہمیشہ کھول کر پکڑاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں بری دکھائی جاتی تھی۔عیدی دینے کا یہ انداز انتہائی سلو موشن ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک شفقت بھری سنجیدہ مسکراہٹ آپ پر اچھال کر یہ بتایا جاتا ہے "کہ پتر تیری سب چولاں دے باوجود ایس عید وی میں تینوں عیدی دے دتی اے "خیر ہم تو ٹھہرے سدا کے ڈھیٹ۔

اس قماش کے لوگوں کو ہم دل میں فوری جوابی کاروائی کے طور پر "ہنہ وڈی عیدی"کہہ کر اپنا بلڈ پریشر(جو کہ ہمیشہ ہمارے قدموں میں ہی گرا رہتا ہے) نارمل کر لیتے ہیں۔ایسے لوگ گہرے سبز رنگ کا سوٹ جس پر گلابی کڑھائی ہو ضرور ہی پہنتے ہیں۔ کسی بیاہ شادی میں جانے لے لئے ہمیشہ نیا جوڑا سلواتے ہیں ،تیار ہونے میں انتہائی دیر لگاتے ہیں ۔اگر صاحب ہیں تو سلک کی ہری بھری ٹائی جس پر استری کا نشان واضح ہو پہنتے ہیں۔

آپ کا ان کو تیار دیکھ کر اور ان کا آپ کو تیار دیکھ کر "ہاسا" نکل جاتا ہے ۔یہ اور بات کہ آپ کو یہ خیال آتا ہے کہ" لو دسو یار اینی دیر بعد وی اے گھٹا گھولیا اے خیر نال؟ "اور ان کو خفت سے ہنسی آتی ہے کہ میں کچھ زیادہ ہو تیار شیار ہو گیا ہوں/ہو گئی ہوں۔ان سب لوگوں سے باتیں جتنی کروانی ہیں کروا لیں۔ضرورت یا فرائض کی انجام دہی کے وقت یا تو ان موڈ خراب ہوتا ہے یا ان کی آپ کو پہچاننے والی یاد داشت دہی لینے چلی جاتی ہے۔

چلو یہ سب بھی ٹھیک ہے مگر دنیا والو۔۔۔! ستم چیک کرو ذرا کہ انہی رشتہ داروں سے ہم سب کے ابّا یا امّاں ڈرتے بہت ہیں۔ان کی آمد و رفت پر ہمارے آباؤ اجداد کی گھوریاں اس درجہ بے باک ہو جاتی ہیں کہ ہر گھوری پر ایک "چھانٹے " کی زور دار آواز آتی ہے۔ہمارے جیسے مزاج کے کئی ایک اکھڑ قاری اس تکلیف کو محسوس کر سکتے ہیں۔
یوں تو ہم گھر بھر میں اس طرح گھومتے ہیں جیسے کوئی پے انگ گیسٹ ۔

ہر جگہ سے گزرتے ہوئے درودیوار پر اچٹتی نگاہ ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم پر رشتے داروں کا رتّی برابر بھی رعب نہیں مگر کبھی کبھی یونہی ازراہِ پنگا ہم کچھ نہ کچھ نوٹ کرتے ہی رہتے ہیں اورکبھی سوچ ہی لیں تو اپنا سر دُکھتاہے اور جب سوال کرنے پہ آئیں تو سامنے والے کا۔بچپن سے اب تک ہمیں جس چیز نے بڑا تنگ کر مارا ہے وہ ہمارے تشخص کی لڑائی ہے۔ ہم مسلمان پہلے ہیں پھر پاکستانی ہونا زیادہ ضروری ہے گھر میں بیٹی ہوتے ہیں باہر جا کر انسان بننا پڑ جاتا ہے ۔

گھر میں نِکّے ترین اور باہر عظیم ترین۔ مگر یہ ان آنٹیوں کی گھوریوں اور مسکرا مسکرا کر جواب دینا ہم پر کیوں تھوپا جاتا ہے ۔ ہر مہمان کو بادشاہِ چین جیسی عظمت کیوں دیں بھئی؟ اور ان کی سب حرکتوں سمیت ان کو بقائمی ہو ش و حواس عزت بھی بخشیں؟یہ سوالات ہمارے ذہن میں سر پٹک پٹک کر ہماری رہی سہی ذہانت کا بھی مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔اب ساری دنیا کے تھاپے کھانے سے بہتر ہوتا ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل اپنے نظریاتی دشمن ابّا جی (جنہیں ہمیں ابّا۔

ا۔ا۔ا۔ی۔ی۔ی کہنے کا بڑا شوق ہے) کے پاس لے جاتے ہیں حکایتیں اور مثالیں دے کر بات کرنے عادی ہیں۔ ہماری ہر حرکتِ بے برکت کے بعدان کی مثال تو اس طرح تیار ہوتی ہے جیسے ان کو الحام ہو گیا تھا کہ اب ان کی ہونہار دختر نیک اختر ضرور ہی یوں کرنے والیں تھیں انہوں نے بے تحا شہ بستی(بے عزّتی) آمیز مثالیں ہماری پیدائش سے لے کر اب تک ہمیں نو بجے کے خبرنامے کی طرح بلاناغہ سنائیں ہیں مگر ان کی ایک انتہائی تازہ مثال اعلیٰ طریقے سے ہماری طبیعت صاف کر گئی ہے۔

پہلے پہل تو تو ایک لمبی بحث کے بعد وہ فرما دیا کرتے تھے"تم صرف میری بیٹی ہو"اس بات پر ہم اینٹھ کر منہ کچھ اور پھلا لیا کرتے تھے کہ لو بھلا ہم آدم زاد ہیں جانتے ہیں"جیہڑا اے راز تُسی افشا کیتا اے" خیر !!! "ہم آدم بیزار ہیں۔۔۔ لوگوں سے الرجی ہے آپ جانتے ہیں ناہو گا ان کا پتر فوج میں ہمارے لئے کیوں محاذ کھولتے ہیں؟"کے بار بار اٹھائے جانے والے سوال سے تنگ آکر جتنی دیر میں ابّا نے ریموٹ پر میوٹ کا بٹن ڈھونڈنے کے بعد اسے ہوا میں قدرے بلند کر کے دبانے کے بعد جو ہماری طرف اپنا رخِ روشن کیا تھا تو ہم نے اندر ہی اندر اپنے
سیانے جن (imaginary friend)سے پوچھ کر خدا جھوٹ نہ بلوائے 10کے قریب جوابی وار بھی تیار کر لئے تھے۔

لیکن جب ہمارے ظالم ابّا جی نے بات کرنے سے پہلے ایک جاندار سی مسکراہٹ دی ہے تو ہم سمجھ گئے کہ آج ہمارا دن ہرگز نہیں ہے۔
(ترجمہ)
ابّا جی :۔آپ کو پتہ ہے کہ اگر آپ کنوئیں میں گرنے لگیں تو کونسی چیز ایسی ہے جو آپکو وہاں اندر گرنے سے روکے گی بھی اور زیادہ کوشش کریں گے تو نکال بھی سکتی ہے؟
ہم:۔ہیلی کاپٹر؟؟؟ نئیں نئیں، رسّی؟؟؟ نئیں نئیں۔

۔۔آ۔آ۔آ۔آ۔ریسکیو1122؟
ابّا جی:۔A Donkey،گدھا عرفِ عام کھوتا۔جب
آپ گدھے کو کانوں سے پکڑ لیں تو وہ کبھی آپ کو کنوئیں میں گرنے نہیں دیتا اس وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ الٹا چلتا ہے یعنی پیچھے کی جانب۔
ابّا جی کی بات سنتے ہی ہم صوفے پر ذرا پیچھے کی جانب سرکے ہی تھے کہ انہوں نے کہا تمہاری نسل کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ بیک گئیر لگا کر دم لیتے ہو۔

اَڑ جاؤ تو تمہارا کوئی علاج نہیں ہے۔پڑھ پڑھ کر بول لیتے ہو سمجھتے نہیں ہو۔حوصلے سے بات سنا کرو بیچ میں مت ٹوکا کرو۔انسانوں کو اسٹڈی کیا کرو پھرسمجھا کرو۔
اب اندازہ کریں کہ گہری لپ اسٹکیں لگائی آنٹیوں سے جبراً ہنس مسکرا کر بات کرنے کے باوجود ہم جیسے مظلوم لوگوں کو اندر سے پڑھ لینا ہمارے بزرگوں کی زیادتی ہے کہ نہیں؟لے دے کر ہم ہی اڑیل ڈکلیئر ہو جاتے ہیں۔

اب معصوم سے اچھے سے ابا جی کو کون بتائے کہ یہ مکسڈ قسم کے "اواذار"اور "سیلف پریسنگ "قسم کے لوگوں سے ہم اور ہمارے جیسے آپ سب کی بننے سے تو رہی ۔باقی رہا "اٹ کھڑکا"تو وہ ہم دھرنے دیکھ دیکھ کر سیکھ ہی گئے ہیں ۔ جہاں تک رہی لوگوں کو اسٹڈی کرنے کی نصیحت تو وہ تو ہم سیکھ ہی گئے ہیں کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں
-1میں اپنا فیورٹ ہوں انسان ۔۔۔رشتے داروں جیسے
-2اچھے انسان۔۔۔ ابّا جی جیسے
اور اتنا بھی سمجھ ہی گئے ہیں کہ دونوں سے دوری میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
پاکستان کا خیال رکھئے یہ آپکا ہے۔اللہ سبحان و تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :