دھرنے اورفاٹا

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ملک کے کئی علاقوں میں دھرنے شروع ہوچکے ہیں، عمران خان اور طاہر القادری کے بعد لاپتہ افراد کے بازیابی کے لئے دو دھر نے جن میں ایک اسلام اباد میں آمنہ مسعود جنجوعہ کی سر براہی میں ایف سیکس میں تین دن جاری رہا اور اب کراچی میں اہلسنت والجماعت کی جانب سے دو دن تک دھرنا جاری رہا مگر میڈیا کی توجہ حاصل نہ کرسکا،اس صورت حال جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں وہ فاٹا کے متاثرین ہیں جن کی حالت زار انتہائی خراب ہے اور حکومتی مشنری کی توجہ سے محروم ہے صرف آرمی اور چند این جی اوز کے امدادی سرگرمیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا،یہ صورت انتہائی خطرناک ہے فاٹا کے اس وقت تقریبا بیس لاکھ کے لگ بھاگ آئی ڈی پیز اپنے علاقوں سے باہر کسمپرسی کی زندگی گذرنے پر مجبور ہیں ، انھیں یہ امید تھی کہ عید الاضحی اپنے علاقوں میں منائے گے مگر ملکی سیاست نے ان کی واپسی کو براہ راست نقصان پہنچایا،ان کی امیدیں دم توڑ گئی ،اس صورت حال نے کاروبار سے لیکر تعلیم تک ہر شعبہ متاثر نظر آتا ہے اور اب تو بنوں کے مقامی اساتذہ تنظیم نے بھی کہا ہے کہ اسکولوں کو خالی کیا جائے کیونکہ اس سے ان کے بچے بھی تعلیم سے محروم ہورہے ہیں اور ان کا تعلیمی سال متاثر ہورہا ہے،لہذاحکومت فی الفور ان کے لئے متبادل انتظام کرے۔

(جاری ہے)


میں چند روز سے فاٹا میں ہوں قبائلی عوام شدید پریشانی سے دوچار ہیں دہشت گردی کے خلاف فاٹا اس جنگ سے براہ راست متاثر ہے مگر اس کے بارے میں توجہ کم ہے سڑکوں سے لیکر صحت ہر شعبے میں پولیٹکل انتظامیہ غافل ہے اور فاٹا سکرٹریٹ کو سب اچھا کی رپورٹ بھجی جارہی ہے،پشاور میں بیٹھے افسران ان علاقوں میں جانا گورا نہیں کرتے، گورنر صاحب جو کہ شروع میں فعال نظر آئے اب وہ بھی پشاور تک محدود ہوگئے ہیں اور بیورو کریسی کے رپورٹس پر دستخط کرنے مصروف ہیں اس وقت پورے فاٹا کا تعلیمی نظام تباہی سے دوچار ہے ،اور اس جنگ سے اسکولز کے طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں سینکڑوں اسکولز میں اساتذہ کی کمی ہے،طلبہ کو کئی سو کلو میٹر دور پشاور جانا پڑتا ہے اور اس کی استعاطت ہر بچے کو میسر نہی جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں کی تعلیم ادھوری رہے جاتی ہے ۔

ہمارے ہاں دوہرا معیار ہے ،اگر میڈیا میں آجائے تو پھر کچھ ہوجاتا ہے ورنہ وہ افراد مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔پہلے بھی ایک بار لکھ چکا ہوں ہر سال بجٹ میں فاٹا کے نام پر رکھے فنڈز رکھے جاتے ہیں،مزے کی بات فاٹا کے نام پر خصوصی فنڈز بیرونی امدادی ادروں سے بھی وصول کی جاتی ہے اور ہر دن اس کے اشتہارت چلائے جاتے ہیں،سمجھ میں نہی آتا کہ یہ فنڈز اور اسکالرشپس کن کو دی جاتی ہیں شائد اس میں بھی ریوڑیوں کی تقسیم والا فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرآج اس دور میں جب فاٹا کی صورت حال نتہائی خراب ہے اور اس وقت بھی ان کے دیگر مسائل کے ساتھ ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع فراہم نہ کئے گئے فاٹا کا تعلیمی نظام قیام پاکستان سے نظر انذاز کیا جارہا ہے ،پرائمری اسکول کا نظام بھی فعال نہی جس کی وجہ سے ہزاروں بچے اس زیور سے محروم رہے اور ہیں،سوات کی ملالہ اور تعلیم کے نام پر شور کرنے والے این جی اوزفاٹا پر خاموش کیوں ہیں ان کو اس جنگ سے متاثر سینکڑوں معذور بچے نظر نہی آتے ان کو صرف فاٹا ایک پہلو کیوں نظر آتا ہے َ؟شائد ان کو تنخواہ اسی پروپیگنڈے کو فروغ دینے کی ملتی ہے۔


اس وقت میں فاٹا کے کئی علاقوں سے ہوتے ہوئے صدہ کرم ایجنسی پہنچا ہوں اور فاٹا کے دیگر علاقوں کی طرح مسلم لیگ (ن) نے اسے بھی نظر انداز کیا ہوا ہء ٹو ل ٹیکس کے نام پر کئی جگہ ناکے ہیں جبکہ ہر چند کلو میٹر کے بعد چیکنگ کے نام پر قبائیلی عوام کو پریشان کیا ہوا ہے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے ٹل جو کہ تین قبائیلی ایجنسیوں کو ملاتا ہے اس کے تینوں راستوں پر طویل قطاریں آپ کو نظر آتی ہیں اور جس سے عوام شدید متاثر ہیں بیمار افراد بھی انتظار کرنے پر مجبور ہیں اور اگر کوئی غلطی سے یا مجبوری سے لائن سے آگے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ انتہائی بداخلاقی کا سلوک کیا جاتا ہے،جس سے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے،قبائلی عوام کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بہت امید تھی مگر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کے پاس قبائلی عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے منصوبہ بندی نہیں ہے وہ بھی گورنر کے زریعے فاٹا کو چلا رہی ہے عوام سے رابطہ کم ہوتا جارہا ہے
اس وقت فاٹا کے مختلف علاقوں میں جانا ہواصرف ایک واقعہ شیئر کرنا کرنا چاہتا ہوں تری منگل کے قریب ایک گاوں صرصرنگ ہے اس کے اسکول میں سرکاری اساتذہ کبھی کبھار آنا پسند کرتے ہیں ۔

یہ فاٹا میں تعلیم کی صورت حال ہے اور مزے کی بات جہاں اسکولز اور اساتذہ اگر موجود بھی ہیں تو ان کی کاکردگی صفر ہے ،میٹرک پاس اردو بول اور تحریر نہی کرسکتے جس کی وجہ سے والدین اور بچوں میں تعلیم کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت کم بچے تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور بچے کام کاج پر لگ جاتے ہیں ،حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح فاٹا میں جدید اسکولز اور ادارے قائم کرئے اور اس پر کڑی نگرانی کرے تاکہ فاٹا میں تعلیمی شرح میں اضافہ ہو سکے ہوں ۔


ایک اور اہم اپیل عید الاضحی کے اس پر مسرت موقع پر جہاں پنجاب بھر میں سیلاب متاثرین کی امداد کی اشد ضرورت ہے ان کے ساتھ ساتھ ادارے این جی اوز اس خوشی کے موقع پر اپنے قبائیلی بھائیوں کو بھی یاد رکھیں،تاکہ ان کے مصائب اور غم کم ہوسکیں اسلام ہمیں ایثار اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ،قربانی اور اسلام لازم ملزوم ہیں آگے بڑھیں اور اپنے حصے کی قربانی کریں زندہ قومیں آفات اور جنگوں کے وقت متحد اور ایک ہوتی ہیں تاریخ کے اس نازک موڑ پر پورے قوم کا امتحان ہے اللہ ہمیں ایک کر دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :