لوٹا

جمعرات 2 اکتوبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”میں جس سیاسی جماعت کا ووٹر اور سپوٹر ہوں ، اس سے مجھے بے پناہ محبت ہے ، اس کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کرتا، میرے کچھ فیملی ممبر اوربہت ہی قریبی دوست مجھ سے اختلاف کر تے ہیں اور مجھ سے کھری کھری سنتے ہیں، نہ صرف کھری کھری سنتے بلکہ ان میں کئی ایک پٹ بھی جاتے ہیں، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے لیڈر کی شان میں کوئی گستاخی برداشت کروں، میرا بس چلے تو میں ان کالم نگاروں کے قلم توڑدوں،جو میری پسندیدہ سیاسی جماعت کے خلاف لکھتے ہیں، ان اینکروں کا منہ توڑ دوں جو میرے لیڈر پہ پھبتیاں کستے ہیں ، میں ان کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتا ،البتہ اپنا موڈ بحال رکھنے ، اپنا بلیڈ پریشر نارمل رکھنے کے لیے نہ تو ایسے کالم پڑھتا ہوں نہ ایسے ٹاک شوز دیکھتا ہوں، میں ایک سیاسی ورکر ہوں، جمہوریت پسند شہری ہوں ،جمہوریت نے مجھے آزادی رائے کا حق دیا ہوا ہے ، میں یہ حق ڈنکے کی چوٹ استعمال کرنا چاہتا ہوں ، کرتا ہوں اور جو اس کو نہیں مانے گا میں اس کی ایسی تیسی کردوں گا۔

(جاری ہے)


####
”میں ایک وزیر ہوں ، ظاہر ہے وزیر ہونے کے ناتے اپنی جماعت کی پالیسیوں اور نظریات کا دفاع کرنے کی مجھ پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس کااحساس اورخیال رکھتا ہوں کہ کب مجھے کیا کہنا ہے ، چوں کہ ہمارا ملک اخبارات اور ٹی وی چینل کے معاملے میں خود کفیل ہے اس لیے ایک ایک دن میں نا جانے کتنے رپورٹر اور نمایندے مختلف معاملات میں میری رائے لینا ضروری سمجھتے ہیں، مجھے رائے دینا پڑتی ہے اور دینی بھی چاہیے آخر میڈیا بھی تو ریاست کا ایک ستون ہے، ہم نے مل کر ہی اس ملک کو چلاناہے نا! بعض لوگوں کا خیال ہے مجھے اپنے محکمے کے متعلق ہی میڈیا کے نمایندوں سے بات کرنی چاہیے لیکن یہ کہنا میرے خیال میں ضد وعناد اور بخیلی کی وجہ سے ہے، میں وزیر ہوں کوئی مذاق نہیں ، اگر یوں ایک ایک، دو دو ٹکے کے لوگوں کی خواش اور منشاء پر چلتا رہا پھر تو کر لیا کام میں نے ، مسئلہ صوبائی ہو یا وفاقی، میرے محکمے سے متعلق ہویا نہ ،مجھے اس پر بات کرنے کے لیے کسی سے ہدایت لینے کی ضرورت نہیں ، ہاں پارٹی کے سربراہ مجھ سے جواب طلب کر سکتے ہیں، اور مجھے بیان سے روک بھی سکتے ہیں، لیکن میں چوں کہ ان کی ہی ترجمانی کرتا ہوں ،اس لیے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔


####
”جی کیا کہاآپ نے میں لوٹا ہوں؟ منہ سنبھال کے بات کیجیے ، میں لوٹا ووٹا نہیں، جیتا جاگتا ، ایک انسان ہوں، جی انسان ، میں سیاسی ورکر ہوں ، وقت اور حالات کے ساتھ چلتا ہوں،وقت اور موسم بھی تو ایک سے نہیں رہتے وقت ہی کو لیجیے ، کبھی صبح کہلاتا ہے ، کبھی شام ، کبھی دن کبھی رات ، کبھی سہ پہر اور کبھی دو پہر، موسم کو دیکھیں ، اس کو بھی کسی کل چین نہیں ، کبھی اس کو گرمی چڑھتی ہے، کبھی ٹھنڈ کہلانا پسند کرتا ہے ، کبھی بہار بن کر جھومتا ہے اور کبھی خزاں کہلانے پر فخر کرتا ہے، کبھی بارشیں ہوتی ہیں ،کبھی برف کی مدد سے لوگوں کا مزاج پوچھتا ہے، اس کو تو کوئی لوٹا نہیں کہتا، وقت کو بھی کوئی لوٹا نہیں کہتا، میں تو پھر بھی انسان ہوں، مجھے کیوں لوٹا کہا جائے بھلا! میرا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے ،جس ذریعے سے کروں جس طریقے سے کروں، عوامی نمایندہ ہوں ، جمہوریت میڑی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، ہمیشہ ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہوں، عوام میری قدر کرتے ہیں ، مجھے چاہتے ہیں، جو فیصلہ کرتا ہوں ان کے مشورے سے کرتا ہوں، اگر ان کو مجھ پر اعتراض نہیں تو کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی مجھے کیا فکر ، بھلے سے جو کہے کہتا رہے ، آپ بھی منہ سنبھال کر بات کیا کریں۔

بڑے آئے لوٹا کہنے والے!“
####
”مجھ بد نصیب کو جمہوریت کہتے ہیں، سیاست میری سوکن ہے کہیں کا نہیں چھوڑا اس نے مجھے، میری وہ مٹی پلید کرتی ہے کہ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہوں اور کئی کئی پہر روتی ہوں، لیکن کیا کروں اس نے اپنے ساتھ اپنے پورے خاندان کو ملا لیا ہے ، اس کے اپنے سگے بھائی بھی کم نہیں اوپر سے کئی خالا زاد ،کئی چچا زاد ،کئی ماموں زاد اور کئی پھوپھی زاد ، پھر دور پار کے کزن بھی ڈھیر سارے ہیں اس کے ، میرے چہرے پر جھڑیاں پڑ گئی ہیں، میرا رنگ وروپ اجڑ گیا ہے ، تبھی تو آپ مجھے پہچان نہیں پائے، کیا کروں سوائے دھکوں اور ٹھوکروں کے اور مجھے کچھ نہیں ملا ، جس کو اپنا مہربان سمجھا ،اسی نے لاتیں ماریں، مکوں سے پیٹا ، تھپڑ برسائے ، مجھ پر تھوکا ۔

آہ مجھ بد نصیب کا نہ ماضی شان دار ، نہ حال جان دار اور نہ مستقبل پائے دار، جب لوگ بن سنور کر ، اجلے اجلے کپڑے پہن کر میری تعریف کرتے ہیں جی چاہتا ہے ان کم بختوں کا منہ نوچ لوں، ایسے جھوٹے ، فریبی اور فراڈیے ہیں کہ کیا بتاؤں آپ کو میں! کاش کوئی میرا ساتھ بھی دیتا، لیکن جن پہ تکیہ تھا جب وہی ہوا دینے لگیں تو کسی اور پہ کیا بھروسا!“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :