شکست خوردہ حکومت

جمعرات 2 اکتوبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

کسی گدھے کو کہیں سے شیر کی کھال مل گئی ۔گدھے کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ اَب یہ کھا ل پہن کر جنگل کے تمام جانوروں پر حکومت جماؤں گا ۔ لہذا اس نے ایسا ہی کیا ۔” گدھے شیر“ کو دیکھتے ہی تمام جانور دم دبا کر بھاگ جاتے ۔ ایک دن ”گدھا شیر “ گاؤں کے قریب ہی کھیتوں میں جا نکلا ۔کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور ان کے بچے اسے اصلی شیر سمجھ کر ڈر گئے او ر وہاں سے بھاگ نکلے ۔

بالآخر کسانوں نے آپس میں اکٹھ کیا اور اس بناوٹی شیر پر ڈنڈے برسائے ۔ ڈنڈے پڑنے پر اس کے منہ سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازیں بر آمد ہوئیں ، اس طرح اسکی اصلیت سامنے آگئی ۔
موجودہ حکومت پر بھی اسی طرح ” جمہوریت “ کی کھال چڑھی ہوئی تھی جو عمران خان اور دوسرے پارٹی ممبران کی تقاریر نے نواز شریف اور رفقائے حکومت کے کارناموں کو منظر عام لاکر اتار کر الگ کر دی ہے۔

(جاری ہے)

اندر سے ” آمریت “ ، ”فراڈ“ ، ”دھوکا دہی“ ’کرپشن‘ اور نجانے کون کون سے چہرے بے نقاب ہوئے ۔
موجودہ حکومت کے بارے میں اگر کہا جائے کہ شکست خوردہ حکومت اپنی بیساکھیوں کے ساتھ دردر کے دھکے کھا رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کسی بھی حکومت کا شیرازہ تو در حقیقت اسی وقت بکھر چکا ہوتا ہے جب وہ مظاہرین اور دھرنے کے شرکاء کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو راستے میں کنٹینرز رکھ رکھ کر روکنے کی کوشش کرتی ہے۔

اور ایسا ماضی میں ہو چکا ، لہذا اصولی طور پر یہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اور اب تو جگہ جگہ سے بے عزت بھی ہورہی ہے ۔
حال ہی میں نواز شریف صاحب سیلاب زدگان کی داد رسی کرنے چنیوٹ اور جھنگ تشریف لے گئے تو عوا م نے ”گو نوازگو “ کے نعرے لگائے ۔کل کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سیلاب متاثرین نے ڈی ۔سی ۔او آفس چنیوٹ کے سامنے دونوں اقتدار کے دیوانے بھائیوں کے خلاف تحریک کاآغاز کر دیا جن کا نعرہ ہے ”گو فراڈ گو “ ، ” گو نواز گو “ ۔

علاوہ ازیں کل ہی کی تازہ ترین خبر کے مطابق حمزہ شہبازنے الحمراء ھال کے اندر ٹوٴ رزم کے فنکشن کی صدارت کی اور جب وہ عمران خان کے خلاف بولنا شروع ہوئے تو عوام نے ایسا بالکل برداشت نہ کیا اور حمزہ شہباز کے خلاف بپھر گئے اور ”گو نواز گو “ ، ” گو حمزہ گو “ کے نعروں سے ہال گونج اٹھا ۔ انتظامیہ نے بھر پور کوشش کر کے غضبناک عوام سے حمزہ کی جان بچائی۔


عوام اس سے قبل اسی شریف خاندان کو اپنے خیر خواہ خیال کرتے رہے ہیں ۔ دراصل پاکستان کی بھولی بھالی عوام کو ہرگز اس بات کا علم نہ تھا کہ آخر حکومتی ڈکیت عوام کی دولت کو کس طرح ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ عمران خان نے عوام کو حکومت کے کالے کرتوتوں سے پردہ ہٹا کر حکومت کا اصل روپ عوام کے سامنے کر دیا ۔ اب پاکستانی عوام بالکل جاگ گئے ہیں ۔ اپنے حقوق کا شعور رکھتے ہیں اور کبھی بھی دوبارہ ایسے لٹیروں سے لٹنے والے نہیں ۔

دوسری طرف عمران خان کی جرأت اور براداشت یاStaminaقابل تعریف ہے ڈیڑھ ماہ سے کنٹینر میں ایک عزم کے ساتھ رہنا اور ساتھ ساتھ دوسرے شہروں میں جانا اور رات کو واپس آکر پھر سے عوام کو جگانا ، واقعی ایک عظیم لیڈر کی جرأت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں پہاڑ جیسا بلند و طاقتور حوصلہ دیا ہے جس کے آگے انہیں لالچ دینے والی طاقتیں ہیچ ہو چکی ہیں۔
سابقہ الیکشن میں جو کچھ ہوا سے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہر عاقل و بالغ ، بچہ و بوڑھا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ دھاندلی نہیں بلکہ ”دھاندلا“ ہوا ہے ۔

نادرا کے چیئر مین طارق ملک نے الیکشن میں ہونے والے دھاندلے کا پردہ چاک کر کے عوام کو سب کچھ بتا دیا ہے ۔ اب بھی اگر کوئی نہ سمجھے تو اسکا نفسیاتی علاج ہی ہونا چاہیئے ۔
استعفیٰ دینے میں نواز شریف کی جانب سے جو دیر ہے وہ پی ۔ ٹی ۔ آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے حق میں جارہی ہے ۔ آئے روز کسی نئی کرپشن سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور حکومت کے ہتھکنڈے عوام کے سامنے آجاتے ہیں ۔

حکومت کے خلاف عوام کی نفرت کا اظہار تو ملاحظہ فرمایئے کہ موبائل فون پر کوئی بھی میسج آتا ہے تونیچے لکھا ہوتا ہے ”گو نواز گو “ ۔ کسی جیالے نے تو ہزار کے نوٹ پر قائد اعظم کی تصویر کو Animateکر کے ” گو نواز گو “ تک کہلوا دیا ہے ۔
”گو نواز گو “ کا نعرہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ بچے بچے کی زبان پر آچکا ہے ۔ لوگوں نے ”گو نوازگو“ کے لطائف بنا چھوڑے ہیں ۔

مجھے موبائل SMS پر لطیفہ ملتا ہے ، ” ایک پٹھا ن بکرا ذبح کرتے ہوئے کنفیوز ہوگیا اور بھول گیا کہ کیا پڑھنا تھا ۔تھوڑی دیر سوچا ، ذہن میں نہ آیا تو چھری بکرے کی گردن پر رکھ کر زور سے چلانے لگا اور اونچی آواز میں پڑھنے لگا ” گو نواز گو “ ،”گو نواز گو “، ”گو نواز گو “ ․․․․․․․․
اسی طرح میرے ایک دوست کو موبائل SMS کے ذریعے ایک بڑا شگفتہ سا لطیفہ یوں وصول ہوتا ہے ، ”نواز شریف صبح سویرے تیار ہو کر اپنی زوجہ محترمہ سے کہتے ہیں ”ڈارلنگ گڈ مارننگ ، میں آفس جارہا ہوں ، بیگم نیند کی حالت میں بغیر آنکھیں کھولے کہتی ہیں ، ”گو نوزا گو“․․․․․
جب کوئی قوم اس حد تک جا گ جاتی ہے تو فرعونیت کا خاتمہ یقینی ہوتا ہے اور نواز شریف کو ہی ووٹ دے بیٹھنے والے عوام اب کفِ افسوس مل رہے ہیں اور اس حکومت کو بالکل بھی برداشت نہیں کر رہے ۔

وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کے دیئے گئے پیسوں کے ساتھ نواز شریف اور ان کا جتھہ ہواؤں میں اڑیں، بیرون ملک مہنگے ترین ہوٹلوں میں عیش کریں اور کھابے کھائیں بلکہ عوام اب حکومت سے کوڑی کوڑی کا حساب لینا چاہتے ہیں۔ استعفے میں جتنی دیر ہو رہی ہے حکومت کا پھندا اتنا ہی تنگ ہو رہا ہے ۔
نواز شریف کے لیے ایک نیک مشورہ ہے کہ اس نام نہاد حکومت سے استعفیٰ دے کر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر کی راہ لوکیونکہ عوام ابھی تک تو زبان سے کام لے رہیے ہیں، اس سے اگلا مرحلہ عوام کے چھتر اور” لمبے بوٹوں “ کے ٹھڈے بھی ہو سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :