بکرے سے مکالمہ

منگل 30 ستمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

بکرے کو چھت پر باندھنے کا مشورہ میرا ہی تھا ۔ میرا خیال تھا کہ بچے چونکہ اس سے چھیڑ چھاڑ کریں گے لہذا ایسے میں جب بکرا ”احتجاج“کرے گا تو کم ازکم ہم اس کے احتجاج سے محفوظ رہیں گے۔ یہ رات کا پہر تھا جب میں غالب کے اس شعر کی عملی تصویر بنا ہوا تھا کہ”نیند کیوں رات بھر نہیں آتی“۔ خیال آیا نیند سے الجھنے کی بجائے بکرے کا حال دریافت کرتے ہیں ۔

سو میں جیسے ہی چھت پر گیا بکرے نے اپنی مخصوص بیں ۔۔۔بیں سے میرا استقبال کیا گویا اسے میری رفاقت اختیار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور وہ مجھے خوش آمدید کہہ رہا تھا ۔جب میں نے قریب ہو کر اس سے حال دریافت کیا تو مجھے حیرت ہوئی وہ مجھ سے میری زبان میں مخاطب ہے ۔ بکرے نے مجھے اپنے قریب آتے دیکھا تو کہنے لگا”بلگن صاحب سنائیں کیا حال ہیں ؟“۔

(جاری ہے)

میں نے جواب میں عرض کیا ”بس اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے اس نے بڑا نواز رکھا ہے ۔ یہیں سے اندازہ کر لو میں نے تمہیں پچاس ہزار روپے میں خریدا ہے ۔ سارے محلے میں میری دھاک بیٹھ گئی ہے ۔ جب محلے دار مجھ سے تمہاری قیمت دریافت کرتے ہیں تو میں فخر سے بتاتا ہوں کہ میں نے یہ بکرا پچاس ہزار میں خرید اہے ۔ اور تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں میں نے تمہاری فوٹو کھینچ کر فیس بک پر بھی لگا دی ہے ۔

اب پاکستان اور بیرون پاکستان میرے تمام جاننے والوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ میں اتنا مہنگا بکرا ذبح کرنے جا رہا ہوں “۔ میری بات سن کر بکرا گویا ہوا ”کیا بات ہے جناب کی ۔ ظاہر ہے جب تم نے اتنے زیادہ پیسے ادا کئے ہیں تولوگوں کو معلوم بھی ہونا چاہئے وگرنہ نیکی کر کے دریا میں ڈالنے کا کیا فائدہ ۔ مگر آپ سے انتہائی ادب سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں پلیز مجھے ذبح نہ کرو اور واپس کھیتوں میں جانے دو “۔

بکرے کی بے ہودہ خواہش سن کر میں نے کہا”واہ بھئی واہ ،تم مجھے احمق سمجھتے ہو؟پچاس ہزار روپے خرچ کے میں تمہیں چھوڑ دوں اور عید پر قربان نہ کروں ۔ تمہاارا خیال ہے کہ میں قربانی کے ثواب سے محروم رہ جاؤں ؟”۔بکرے نے اپنا منہ میرے کان کے نزدیک کیا اور کہنے لگا”یار میری بات غور سے سنو!قربانی کا ثواب تو تمہیں ویسے بھی نہیں ملنے والا، ایسے میں میری جان بچا کر کم از کم مجھ پر احسان ضرور کر سکتے ہو“۔

اب کی بار تو میں تقریباََ چیخ پڑا” اللہ کا خوف کرو قربانی کا ثواب مجھے کیوں نہیں ملنے والا ، تم کب سے مفتی بن گئے ہو جو مجھے شرعی معاملات میں رہنمائی فرما رہے ہو؟۔خبردار جو عید کے دن تک یعنی اپنے گلے پر چھری چلنے تک اس نوع کی بے ہودہ بات کی“ ۔بکرافرمانے لگا آپ کو برا لگا ہے نا؟۔ سچ کا یہی مسئلہ ہے اس کا سامنا کرنے سے تکلیف اور درد کا احساس ہوتا ہے ۔

اللہ کا خوف مجھے نہیں آپ لوگوں کو کرنا چاہئے ۔ تم سب لوگ خود کو اور اپنے رب کو دھوکہ دیتے ہو ۔ قربانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس چیز کی قربانی ؟۔ میرے گلے پر چھری چلا کر مجھے قربان کرتے ہو ، مگر اپنی لذت اور خواہشات نفس کی پرورش کرتے ہو۔میری قربانی دیتے ہو اور انا کو بچا کر رکھ لیتے ہو ، میرے گلے پر چھری چلاتے ہو اور مگر شیطانی اعمال کو مسلسل پال پوس رہے ہو“۔

میں نے بکرے کا کان مروڑتے ہوئے کہا ” بکرے اب بس کر دے ۔بہت سن لی میں نے تمہاری تقریر۔ تم اس بات کو فراموش کر رہے ہو کہ یہ سنت ابراہیمی ہے ۔مانا کہ ہم گنہگار ہیں مگر سنت تو سنت ہوتی ہے اس کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ گنہگار ہو یا مومن “۔ بکرے نے ادائے مخاصمانہ سے اپنا کان چھڑایا اور دوبارہ گویا ہوا ۔” کیابات ہے حضور کی۔

سنت ضرورادا کرنی ہے مگر صرف اپنی مرضی کی سنت ۔ جس سنت کی ادائیگی سے نفس پر چوٹ پڑتی ہو اس کی ادائیگی سے باز رہنا ہے ۔ جس سنت سے مال و دولت میں بظاہر کمی واقع ہوتی ہو اس سے پرہیز کرنا ہے اور جس سنت سے معاشرے میں واہ واہ ہوتی ہے اسے ملحوظ جان رکھنا ہے ۔جناب کے نزدیک سنت کے اپنے ہی معیار ہیں “۔ میں نے عاجز آکر کہا ”اوئے دیوانے بکرے میں سنت ابراہیمی کی بات کر رہا ہوں تم بات کو کہاں گھما رہے ہو؟“
بکرے نے اپنے اگلے پاؤں پر وزن ڈالا اور اٹھتے ہوئے کہنا لگا”بینگن صاحب ! میں بھی سنت ابراہیمی کی بات کر رہا ہوں ۔

(میں نے فوراََ احتجاج کیا اوئے بینگن نہیں بلگن کہو)
بکرے نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا معاف کرنا زرا زبان پھسل گئی تھی ۔ تو میں عرض کر رہا تھا ابراہیم کی ذات مطہرہ میں تمہیں صرف بکرے یا دنبے کو ذبح کرنے والا عمل یاد ہے باقی ان کی حیات مبارکہ کے کسی پہلو کی اقتدا کرنا تم پر فرض یا سنت نہیں ۔ بکرے کو ذبح کرنے کا عمل تمہیں یاد رہ گیا مگر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لٹانے کو تم نے فراموش کر دیا ۔

انہوں نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی مگر تم نے اولاد کی خاطر اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو تہس نہس کر دیا۔ اولاد کی خوشحالی کی خاطر جھوٹ بولتے ہو، حرام مال کماتے ہو، سود کھاتے ہو ۔
حضرت ابراہیم  نے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جو تابناک نظیر قائم کی ہے کیا اس کی اقتدا کی ضرورت نہیں ؟۔ تم اپنے حکمرانوں کی ناراضگی کے خوف سے ان کے سامنے حق بات کہنے سے خوف کھاتے ہو جبکہ ابراہیم  حق گوئی و بے باکی کی عملی تصویر بن کر آتش نمرود میں کود پڑے ۔

ابرہیم  کی جانور قربان کرنیو الی سنت تمہیں یاد رہی گئی مگریہ بھول گئے کہ انہوں نے حق گوئی کی پاداش میں اپنے آبائی وطن اور گھر کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔ آج تم گھر بنانے اور اسے تمام آسائشوں سے آرستہ کرنے کیلئے حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز ہو گئے ہو ۔ حضرت ابراہیم  نے اپنے غیر مسلم باپ کے ساتھ بھی جب مکالمہ کیا تو احترام کو ملحوظ رکھا اور اپنی نگاہیں باپ کی نگاہوں سے بلند نہیں ہونی دیں مگر تم کیا کرتے ہو۔

عید کے دن بھی اپنے بوڑھے باپ کو گھر کی ڈیوڑھی پر ٹوٹی چار پائی پر بٹھائے رکھتے ہو اور ساری توجہ اور محبت اپنی اولاد پر نچھاور کرتے ہو۔ حضرت ابراہیم  جب تک کسی مہمان کو اپنے ساتھ شامل نہ کرلیتے کھانا تناول نہ کرتے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اسی پیغمبر کے نام پر جانور ذبح کر کے سارا گوشت فریج میں محفوظ کر لیتے ہو جبکہ تمہارے محلے کے غریب اور مفلس عید کے روز بھی دال سے روٹی کھاتے ہیں ۔

کس سنت کی بات کرتے ہو ؟ یار تسلیم کر لو کہ تم جانوروں کو قربان سنت کیلئے نہیں معاشرے میں اپنی ناک بنانے کیلئے کرتے ہو۔ تم نے علامہ اقبال کا شعر نہیں سنا ؟ ”تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں “اور خود اللہ رب العالمین نے عید الاضحی کی قربانی کے حوالے سے سورة حج میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ
''اللہ کو ہر گز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون مگر اسے تمھاری طرف سے تقوی پہنچتا ہے''
میں نے بکرے کی باتیں سننے کے بعد فیصلہ کیا کہ میں بکرے کی خوبصورت باتیں سننے کے باوجود اسے آزاد نہیں کروں گا بلکہ اس عید پربکرے کے ساتھ ساتھ خواہشات نفس کی بھی قربانی کروں گا۔

میں اپنی انا کی قربانی کر کے چار سال سے ناراض اپنے حقیقی بھائی سے صلح کرلوں گااورمیں اپنی بہنوں کو وراثت میں حصہ دے کر اپنے لالچ کی قربانی کروں گا۔میں اپنی بوڑھی ماں کو اپنے گھر واپس لا کر اس کی خدمت کر کے بیوی کی اجارہ داری کی قربانی کروں گا۔ شائد اس طرح میں قربانی کی اصل روح تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :