اپنا اپنا پاپی من بدلو تبدیلی آجائے گی

منگل 30 ستمبر 2014

Naveed Kazmi

نوید کاظمی

آج کل ذو معنی لفظوں پر مشتمل نعرہ زبان زدعام ہے کہ تبدیلی آگئی ہے۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہتبدیلی کس چڑیا کا نام ہے جو بھیس بدل بدل کر اپنے رنگ دکھاتی ہے؟ یا پھر یہ وہ قسمت کا ہما ہے جو خوش قسمت لوگوں کے سر بیٹھتا ہے؟تبدیلی ہے کیا؟ کیا صرف چہروں کی تبدیلی؟ نام نہاد سیاسی پارٹیوں کی تبدیلی؟ یا پھر کرسی ء اقتدار پہ براجمان ان داتاؤں کی تبدیلی؟ آخر کیا ہے یہ تبدیلی؟۔

خان صاحب اور قادری صاحب کی کوشش قابل ستائش ضرور ہے۔ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا احساس عام عوام میں بیدار کرنا کسی جہاد سے کم تو نہیں پر تبدیلی کہاں آئی ہے۔ نہ لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہواہے نہ پرائم منسٹر سے لیکر ریڑھی والے تک اپنی معاشی، مذہبی، ثقافتی ذمہ داریوں کا احساس پیداہوا ہے۔

(جاری ہے)

خان صاحب اور قادری صاحب کے تبدیلی کے نعرے کو اس حد تک کامیابی ضرور تصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک عام آدمی میں وہ شعور بیدار کر دیا ہے جو ناپید ہو تا جا رہا تھا۔

یہ شعور بیورو کریسی، وی آئی پی کلچر اور باقی ٹائی کی ناٹ کھینچے بابوؤں کو ابھی ہضم نہیں ہو پا رہا؟
تبدیلی یہ ہے کہ تمام سرکاری و نیم سرکاری ادارے اپنے دفاتر میں آویزاں اس آیت پر دل سے عمل شروع کردیں کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور آج کے بعدکسی بھی ادارے کے سربراہسے لیکر ایک چپڑاسی تک کوئی بھی رشوت لیتے پکڑاگیا تو فوراًنوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔

یاکسی کرپٹ آفیسر نے اپنے اپکواحتساب کے لیئے پیش کردیا ہوکے اسنے اس ملک کو لوٹا ہے نقصان پہنچایاہے اور اسے اب احساس تبدیلی ہو گئی ہے اور سزا کے لیے تیار بھی ہے تاکہ باقی لوگوں کے لیے مشعل راہ بن جائے ۔یا کوئی کرپٹ افسر رشوت سے توبہ کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دے کہ میں کبھی رشوت نہیں لوں گا ۔ اور ہر سزا کے لیے تیار رہوں گا۔


کسی پولیس اسٹیشن میں ایک عام آدمی کو عزت ملنا شروع ہو گئی ہو۔ بغیر رشوت سفارش کے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کیلئے پولیس نے سنجیدگی دکھانا شروع کردی ہو۔ پولیس آفیسر توایک طرف کسی سپاہی نے ہی اپنے آپکو عوامی خدمتگار مان لیا ہو۔تبدیلی کا حقیقی مفہوم تو یہ ہے کہ وطن عزیز کی پولیس یہ تہیہ کر لے کہ کسی بھی کام کو بناء رشوت و سفارش سر انجام دیں گے ۔

اور اس فقرے کی عملی تعبیر بنیں گے کہ " پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی"۔ تھانہ کلچر ختم تو دور کمی ہی آگئی ہو۔عام آدمی کو ہمت مل گئی ہو کہ وہ پولیس کو اپنا مسیحامان سکے کیونکہ جو رویہ اور سلوک پولیس والے عام آدمی سے کرتے ہیں وہشہنشاہ اپنی رعایاسے بھی نہیں کرتے۔ کسی پولیس افسر نے ایک عام آدمی کو ایک جاگیردار، سیاستدان یا کسی طاقتور کے مقابل اہمیت دی ہو اور اسے انصاف دلوانے کے لئے عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہو۔

تبدیلی تو یہ ہے کہ ایک پولیس افسر کسی غریب کی بیٹی کی لٹی عزت کی خاطر کسی وڈیرے کے بیٹے کو حوالات میں پہنچا دے اور اس کا کوئی بڑا افسر اسے" رعایت" کرنے کا فون نہ کرے۔
54 بچے ایک ہسپتال میں جعلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے تڑپ تڑپ کے جان کی بازی ہار گئے۔ہسپتال یا حکومت میں سے کسی نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے اپکو احتساب کے لیے پیش کیاہو۔

سزا کے لئے کوئی تیار ہو گیاہو۔ جعلی ادویات بنانے والی کسی فیکڑی نے احساس جرم کرتے ہوے فیکڑی بندکرکے اپنے اپکو قانون کے حوالے کر دیا ہو۔تبدیلی کی لہر کا اثر تو تب واضح ہو جب 54 ننھی جانوں سے کھیلنے والوں کوعدل کے ترازو پہ لا کہ انصاف کی بھٹی میں پگھلایا جائے۔پر انصاف تو یہاں صرف انکوملتا ہے جو میڈیا پر چل جائے نہیں تو سالہا سال کیس لٹکا رہے گا اور اسکی تاریخ ہی نہیں ملے گی کیونکہ نام نہاد قومی ایشوز کے حوالے سے مقدمات کورٹس اور میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں عام عوامی مسائل کی نہ شنوائی نہ تاریخ مل جائے تو کبھی عدالت حکومت پر اور حکومت اپنے ماتحت اداروں پر الزام دالتے رہتے ہیں اور پستا عام آدمی رہتاہے۔

تبدیلی تو تب آئے جب ہر خاص و عام کو انصاف اسکی چوکھٹ پر ملے۔ ایک مزدور کے بیٹے کو اسی طرح اسکی نوکری پر بحالی ملے جس طرح چیرمین PCB کے لیے عدالتیں اور حکومت دست و گریباں ہوتے رہے۔
کسی تکفیری جماعت نے اعلان کیا ہو کے انہیں تبدیلی کا احساس ہو گیاہے انہوں نے ناحق لوگوں کا خون بہایاہے اور آئندہ وہ کسی ایسے عمل میں نہ خود شامل ہوں گے نہ اسکی حمایت کریں گے۔

تبدیلی کا اثر ایک عام آدمی تک تو تب پہنچے گا جب مخالفانہ فتوؤں کی بارش رک جائے یا اس میں کمی آ جائے۔ اور کشت و خون کا بازار گرم کرنے والے اپنے گناہوں پہ نادم ہو کر خود کو عوام کی عدالت میں لے آئیں۔
اگر ایسا یا اس جیسا کچھ رونمانہیں ہوا تو پھر تبدیلی آئی کہاں ہے یا اگر آ ہی گئی ہے تو اسکا ثمر عام عوام تک کب اور کیسے پہنچے گا۔ حقیقی تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہم اپنے اپکو نہیں بدلیں گے۔

صاحب اقتدار سے لیکر عام عوام تک ہر کسی کو اپنی اصلاح کرنی ہو گی کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے دائرہ سے باہر نکلناتو دور سوچ بھی نہیں پا رہا۔ ہر کوئی بس یہ چاہتاہے کہ اسکا گھر بچ جائے باقی پورے شہر میں آگ ہی کیوں نہ لگ جائے کوئی پرواہ نہیں۔
جب تک احساس کا جذبہ ہر کسی میں بیدار نہیں ہو جاتا طاقتور کا کمزورکیلیے، حکمران کارعایا کے دکھوں، پریشانیوں ، تکلیفوں، ضرورتوں کا عام آدمی کا عام آدمی کے لئے ۔

جب تک ہمارے اندر سے لالچ حوس اور منافقت ختم نہیں ہو جاتی۔ تبدیلی ایک لغت کے طور پر تو استعمال ہو سکتی ہے عملی تصویر شاید نہ دیکھی جا سکے۔
جس دن میں نے اپنے پاپی من کو تبدیل کرلیا اس دن واقعی اس ملک میں تبدیلی آجائے گی۔ کوئی ریڑھی والا اپنے ٹکے کے لئے کسی کو گندی سبزی، فروٹ نہیں بیچے گا۔ پولیس والے دکھی کی داد رسی ایسے کریں گے جیسے وہ دکھ اسکو ملاہے۔

سیاستدان عوام کے مسائل ایسے حل کریں گے کے انہی مسائل سے وہ خود دوچار ہوں۔ سرکاری آفس میں سائل کو ایسے معوانت ملے گی جس طرح سرکار اپنے لئے حاصل کر لیتی ہے۔ کوئی جماعت کسی کو ناحق قتل نہیں کرے گی نہ کفر کے فتوے لگائے گی کیونکہ یہ سب جو ہے وہ صرف پاپی من ہی ہے جو یہ سب کروا رہاہے اور جب تک تبدیلی من میں نہیں آئے گی معاشرے میں لانے کا سوچنا بھی خام خیالی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :