الجھا الجھی

جمعہ 26 ستمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

پاکستان 1947میں بنا، جتنا بنا ،جیسے بنا، جس نے بنایا،جیسا بنایا،سب کو مل کر سنبھالنا چاہیے تھا،لیکن سنبھالا نہ گیا، چناں چہ 1971میں چھوٹا کر دیاگیا، چھوٹا کرنے میں سب نے ہی تھوڑا تھوڑا حصہ لیا، سیاست دان پیش پیش رہے ،فوجی بھی پیچھے نہ رہے ،ہندوستان کو پتا چلا کہ یہ لوگ ملک سنبھال نہیں پارہے تواس کا دل بلیوں اچھلنے لگا، گویابلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا، ا س نے چھوٹا کرنے میں نہ صرف تعاون کیا بلکہ سرپرستی بھی کی اور پھر طنز بھی کرڈالاکہ” لو! ہم نے چھوٹا کردیا ہے اب اس کو سنبھال کے دکھاؤ“ ۔

اب وہ بھی سنبھالا نہیں جا رہا،سمجھ ہی نہیں آرہی کیسے سنبھالیں، کیسے چلائیں۔کبھی کہتے ہیں صدارتی نظام ہونا چاہیے ،کبھی خیال آتا ہے مشاورتی نظام ہو، کبھی مارشل لاء لگانے کی سوجھتی ہے کبھی جمہوریت اچھی لگنے لگتی ہے۔

(جاری ہے)


کہاجاتا ہے 5سال پہلے فوجی اور سیاست دان سر جوڑ کر بیٹھے کہ کب تک ادلا بدلا چلے گا، کچھ طے کرتے ہیں۔سیاست دان غصہ فوجیوں پر غصہ کرنے لگے ” تم لوگ بار بار مارشل لاء لے کر کودپڑتے ہو۔

“ فوجی بولے:” تم لوگ چلا ہی نہیں سکتے“ ، سیاسی کہنے لگے:” تم موقع تو دو، چلا کر دکھائیں گے۔“ طے ہوا کہ کم از کم 3الیکشن تک مارشل لاء نہیں لگے گا، طے تو ہو گیا مگر خفیہ خفیہ، کوئی لکھت پڑھت نہ ہوئی ، دو انتخاب ہو چکے اب فوجی بھائی چاہتے ہیں کہ جلدی سے تیسرا بھی کر لیا جائے ،سیاست دان چاہتے ہیں 5سال کی مدت پوری کر کے الیکشن کروائیں گے، انتظار تو موت سے بھی بری اور کڑوی چیز ہے ، اس لیے الجھا الجھی جاری ہے۔


####
چلو نظام تو جو ہو،سو ہو لیکن ملک کے صوبے اورانتظامی حصے کتنے ہوں ،اس میں بھی اختلاف ،کبھی ون یونٹ، کبھی 4صوبے، 4 کم لگنے لگے تو پانچویں کی بات چلی ، پانچواں بے چارہ بیچ میں لٹکا ، اور اٹکا ہوا ہی ہوتا ہے کہ ایک نئی ہوک اٹھتی ہے کہ ایک صوبے کا تو نام ہی غلط رکھ بیٹھے ہیں، چلیں نام تبدیل کریں، کئی سال جھگڑنے کے بعد ایک نام پہ چاروناچار اتفاق کر ہی لیا گیا:”خیبر پختون خواہ“ اب یہ نام تو خیر جیسا بھی ہے لیکن ہے بڑا بڑا سا،بہت سارے لوگ ویسے ہی ”خ“ نہیں بول پاتے اور یہاں تین تین ”خ“ جمع ہو گئے ۔

خیال آیا : ”کے پی کے “ کہہ لیتے ہیں ،لیکن جنہوں نے نام رکھا تھا وہ بگڑتے ہیں کہ:”نام سیدھا لو ، کے پی کے کیا ہوتا ہے ؟“۔” ارے بھئی نام ہی اتنا لمبا ہے ،اوپر سے مشکل بھی۔“ لیکن وہ کہتے ہیں :”مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں ، بنانا مشکل تھا بنا کے دکھا یا، نام بدلنا مشکل تھا ، بدل کے دکھایا دیا، اب یہی لینا پڑے گا، جو بگاڑے گا،اس کی ایسی تیسی۔

ارے ایسی تیسی تو نہ کرو۔اچھا نہیں کرتے مگر بگاڑنے نہیں دیں گے، جس کو مشکل لگتاہے، کوشش کرتا رہے آسان ہو جائے گا۔ “
خدا خدا کرکے نام کا مسئلہ حل ہوا، اب پھردوبارہ وہی جھگڑا کہ اور صوبے بنانے چاہییں، کون بنائے کیسے بنائے ، پہلے ایک کو کاٹ کے پھینکا اب کہاں سے لائیں نئے صوبے؟ بازار میں تو ملتے نہیں، کوئی دوسرا ملک ہمارے صوبوں کے لیے اپنی زمین کیوں دینے لگا۔

ارے بھئی نئے کا یہ مطلب نہیں کہ رقبہ بڑا کیا جائے ، رقبہ تو یہ بھی شایدکچھ زیادہ ہی ہے، بس اسی کو تقسیم کر کے نئے صوبے بنا دو ۔ اب یہ کام کون کرے، کیسے کرے ، ایک ایک صوبے میں سے کتنے اور بنیں ، کہاں کہاں بنیں ، کس بنیاد پہ بنیں ۔
####
نئے صوبوں کی خواہش والے آگے آجائیں ، لیجیے آگئے ۔ آپ سب اپنے موجودہ صوبے کی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں، تاکہ پتا چلے کتنے لوگ آپ کے ساتھ ہیں، اگر اسمبلی میں آپ کا کوئی ممبر نہیں تو نئے صوبے کی خواہش دبا کے بیٹھیں، پہلے نمایندے اسمبلی میں بھیجیں، جن کے نمایندے ہیں، وہ تعداد شو کریں، دوسری جماعتوں کے لوگوں کو راضی کریں، جب تعداد اتنی ہو جائے کہ قرارداد کامیاب ہو جائے تو بتائیں ووٹنگ کریں گے ، قرارداد کامیاب ہو جائے تو بڑی اسمبلی میں بھیجیں گے ، وہاں زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ بیٹھتے ہیں، وہ اس پر بات اور بحث کریں گے، تا کہ کل کلاں کوئی نیا مسئلہ نہ ہو ،بحث کے بعد نئے صوبے پر رائے لی جائے گی ، مطلوبہ تعداد میں مثبت رائے بنی تو سینٹ میں بھیجیں گے ،وہ لوگ بھی اسی طریقے پہ عمل کریں گے ،وہاں بھی طے ہو گیا تو پھر صدر پاکستان دستخط فرمائیں گے۔

جو طریقہ ہم نے بتایا ہے اس میں کچھ تفصیل اور بھی ہے لیکن اتنا کچھ تو کرنا ہی پڑے گا، صوبہ بنانا ہے حلوہ نہیں بنانا، یہ نہیں کر سکتے تو اپنی اپنی چونچ بند رکھیں، بڑے آئے صوبے بنانے والے۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :