ڈیم بناؤ ، ملک بچاؤ!

جمعہ 26 ستمبر 2014

Muhammad Usman Haider

انجینئر عثمان حیدر

اگلی عالمی جنگ پانی کیلئے لڑی جائے گی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک نہ کرنے والوں کیلئے مستقبل کے منظر نامے میں غلامی کے سوا کوئی جگہ نہیں ۔فہم و فراست رکھنے والی حکومتیں کئی دہائیاں پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر کے اپنے بچاؤ کے اقدامات کا آغاز کر چکیں۔ چین، امریکا، بھارت اور برطانیہ وغیرہ نے پانی پر اپنی گرفت مظبوط کرنے کیلئے اپنی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دے رکھی ہے اور اپنی اِس استطاعت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پانی کی کمی ان کی مملکت کیلئے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے اوریہ کہ پانی پر گرفت ان کی اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ دوسروں پر برتری کی بھی ضامن ہے۔جو ممالک پانی کو ذخیرہ کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے وہ نہ صرف موجودہ دور میں مسائل کا شکار ہیں بلکہ مستقبل میں بھی غلامی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔

(جاری ہے)

بد قسمتی سے وطن ِعزیز پاکستان بھی اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کے سبب اسی خطرے سے دوچار ہے۔


پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے وافر مواقع کے باوجود نہ صرف پانی کی کمی کے خطرے سے دوچار ہے بلکہ گزشتہ کئی برس سے سیلاب کی تباہ کاریوں کی بھی زد میں ہے۔2010,2007 اور حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان تقریباََ60 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے ۔ مگر افسوس کہ پے در پے ہونے والے اس قدر شدیدنقصانات کے باوجود ہمارے ملک کے حکومتی ایوانوں میں براجمان شخصیات کی توجہ نئے ڈیم بنانے کی طرف مبذول نہیں ہوئی۔

اگر اس حوالے سے کبھی ہلچل محسوس ہوئی بھی تو وہ محض وقتی ردِعمل ثابت ہوئی۔ جب سیلاب اپنی تباہ کاریاں شروع کرتا ہے تو میڈیا میں اٹھنے والے شور کی وجہ سے کچھ دن تو حکومتی وزراء اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کی طرف سے نئے ڈیم بنانے کے بیانات تواتر سے آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر جونہی سیلابی پانی تباہی کی ہولناک داستانیں اپنے پیچھے چھوڑتا ہوابحیرہءِ عرب کے سپرد ہو جاتا ہے تو کچھ ہی دن بعد نئے ڈیم بنانے کا موضوع ”رات گئی، بات گئی“ کے مصداق اگلے سیلاب کے آنے تک سرد خانے میں چلا جاتا ہے۔


”انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز“ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل ملا کر 154ڈیمز ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کا بھی بیشتر حصہ پیدا کر رہے ہیں۔جبکہ زیرِتعمیر اور مجوزہ ڈیمز کی تعداد 24تک ہے۔ مگر اس وقت بھی یہ تعداد پاکستان کی تونائی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ اگر ہم باقی دنیا پر نظر ڈالیں تو وہ اس میدان میں کہیں آگے نکل چکے ہیں۔

مستقبل کی سپر پاور اور دنیا میں تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے ملک عوامی جمہوریہ چین میں اس وقت 22265ڈیمز موجود ہیں، امریکا میں9262، بھارت میں4710 ، سپین میں1267، کوریا میں1205، جاپان میں1121، جنوبی افریقہ میں915، کینیڈا میں793،برازیل میں635، ترکی میں625،فرانس میں597، اٹلی میں549، میکسیکو میں536، برطانی میں517 اور آسٹریلیا میں 507 ڈیمز موجود ہیں۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ محض ڈیمز کی تعداد کی بناء پر ہم پانی کے ذخائر کا اندازہ نہیں لگا سکتے مگر فی کس پانی کی ضروریات کے لحاظ سے بھی ہم مذکورہ بالا ممالک سے تقریباََ اتنا ہی پیچھے ہیں جتنا کہ ڈیمز کی تعداد کے لحاظ سے۔

ایشیا ئی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی کمی کا شکار ہونے کی حد کے بہت قریب پہنچ چکا ہے جو کہ سالانہ1000 مکعب میٹر فی کس تک ہے۔ جبکہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس کے لحاظ سے سالانہ5000مکعب میٹرپانی میسر تھا جو کہ اب تقریباََ آخری حد1000مکعب میٹر تک رہ گیا ہے اور مستقبل قریب میں یہ حد 800 مکعب میٹرفی کس سالانہ تک گرنے کا خطرہ ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس محض 30 دن کے ذخائر موجود ہیں۔جبکہ مقررکردہ حد کے مطابق 1000 دن تک کے ذخائر موجود ہونے چاہئیں تھے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان اس وقت کس مقام پر کھڑا ہے اور ابھی ہمیں اس میدان میں کتنا طویل سفر طے کرنا ہے۔
اگر ہم صرف بھارت سے ہی اپنا موازنہ کریں تو آبادی کے تناسب کے اعتبارسے پاکستان میں اس وقت کم از کم785 ڈیمز ہونے چاہئیں تھے ۔

یا پھر اسی تناسب سے تربیلا اور منگلا جیسے چند بڑے ذخائر ہونے چاہئے تھے جیسا کہ کالا باغ ڈیم۔کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اپنی لوکیشن اور لاگت کے لحاظ سے پاکستان میں ایک آئیڈیل ڈیم کی حیثیت رکھتا ہے مگرافسوس کے ہم نے اس منصوبے کو سیاست کی نظر کر کے اسے شروع ہونے سے پہلے ہی دفن کر دیا۔ وگرنہ اب بھی بامقصد بات چیت اور عملی کاوشوں کے ذریعے صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے اعتراضات کو دور کر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔

اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سے3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی بلکہ دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کا بھی ہمیشہ کیلئے سدِ باب ہو جائے گا اور سالانہ لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گر کر ضائع ہونے سے بھی بچ جائے گاجسے ہم زراعت سمیت دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔
موجودہ حکمران اگر میٹرو بس منصوبے پر دن رات کام کر کے اسے چند ماہ میں پایہِ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں تو نئے ڈیم بنانا بھی ان کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہئے۔

موجودہ اور آنے والی حکومتوں پر لازم ہے کہ پہلے سے زیرِ تعمیر بھاشا ڈیم ۱ ور داسوڈیم وغیرہ کی بر وقت تکمیل کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم سمیت مزیدنئے ڈیمز کی تعمیر کو بھی میٹرہ بس کی طرح ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے اور کم سے کم عرصے میں مکمل کر کے مملکتِ پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور توانائی کے بد ترین بحران سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منظر نامے میں اپنی بقاء کو یقینی بنایا جا ئے۔وگرنہ تاریخ کبھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :