سوشل میڈیا اور طوفانِ بدتمیزی

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Qaiser Awan

قیصر اعوان

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے2013 کے انتخابات میں ستّر لاکھ ووٹ لے کر پاکستان کے سیاسی پنڈتوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھاکہ پاکستان کا آئندہ وزیرِاعظم کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان ہو گا۔ لیکن وہ بڑے کہتے ہیں کہ شہرت اور دولت ہر ایک کو راس نہیں آتی، آپ نے دیکھا ہوگا کہ رات ورات مشہور ہو جانے والے اکثربڑے بڑے اداکار، فنکار اور کھلاڑی اپنے آپ کو رنگ برنگے سکینڈلز میں اُلجھا کر دیکھتے ہی دیکھتے اپنا عُروج زوال میں بدل لیتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں رہتا۔

بڑی بڑی کامیاب شخصیا ت اپنے ایک غلط فیصلے کی بدولت ناکامیوں کے دلدل میں دھنس جاتی ہیں اور انہیں کوئی نکالنے والا بھی نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا یا ہونے والا ہے یااُن کے رفقاء یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو جائے، میں اس لا حاصل بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا، کیونکہ میرا آج کا موضوعِ انتخاب عمران خان نہیں بلکہ ٹھندے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اُن کے وہ چیتے ہیں جو سوشل میڈیا کے میدانِ جنگ میں اپنے محترم قائد کی شان کے برخلاف بولنے کا سوچنے والوں کوبھی اپنی قوتِ گفتارسے چیر پھاڑ کے رکھ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)


اسلام آباد کے ایک چوک میں سما جانے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی سونامی شاید حکومت کوتو اتنا پریشان نہ کر سکی جتنا آجکل سوشل میڈیا پر آئے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے اِن چیتوں کے طوفانِ بدتمیزی نے پریشان کر رکھا ہے۔ ہرصحافی، ہر اینکر ، ہر تجزیہ کار ، ہر بلاگراور یہاں تک کہ ایک عام آدمی کوبھی کچھ لکھنے اور کچھ بولنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے، ضرب تقسیم کرنی پڑتی ہے کہ کس بات پر کتنی گالیاں پڑیں گی اور ان گالیوں کی شدت قابلِ برداشت ہوگی بھی کہ نہیں۔

گالیاں بھی ایسی ایسی کہ خُدا کی پناہ، گویا ہر ورائٹی کی گالی دستیاب ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں اپنے آپ کو باشعور کہنے والا اورسب سے زیادہ پڑھا لکھا ہونے کا دعویداریہ طبقہ اظہارِرائے کی آزادی کو صرف اپنی جاگیر سمجھ بیٹھا ہے؟ کیوں اپنی لمبی چوڑی ڈگریوں کو اپنی عقلمندی کی ضمانت سمجھ لینے والے یہ لوگ عقل کی کوئی بات سننے کے بھی روادار نہیں؟ کیوں اپنے آپ کو حق اورسچ کے امین سمجھ لینے والے یہ احباب سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص ہی جھوٹا، بِکاوٴ اورغدار ہے اوراُس کیخلاف غلیظ زبان استعمال کرنا ان کا فرض العین؟ آپ کاجواب کچھ بھی ہو لیکن میرے نزدیک اس کا نہایت ہی مختصراورسادہ جواب ہے، ”سیاسی ناپختگی اور تجربہ کی کمی“۔

اور صرف یہی ایک وجہ ہے کہ میں اور میرے جیسے کئی اورحضرات اپنے ان جذباتی بہن بھائیوں کی گالیوں کا جواب دینا تک مناسب نہیں سمجھتے۔ بلکہ پچھلے دنوں توTwitter پرایک معروف صحافی اور ٹی وی اینکر کو لوگ کسی بات پرگالیاں نکال رہے تھے اور وہ موصوف اسے مسلسلRe-tweet کرے جارہے تھے کہ دیکھو میری شان میں یہ قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اُن نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے 2013 کے انتخابات میں پہلی دفعہ ووٹ کا حق استعمال کیا۔

اپنی کم عُمری اور سیاسی ناپختگی کے باعث میرے یہ دوست سیاست کے داوٴپیچ سے ابھی ناواقف ہیں۔ انہیں شایدیہ معلوم نہیں کہ سیاست میں حُرفِ آخر کچھ نہیں ہوتا، آپ جتنی زیادہ لچک کا مظاہرہ کریں گے سیاست میں آپ کی کامیابی کے امکانات بھی اُتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ میں نے اپنی ہوش میں صرف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست دیکھی ہے، ایسی رقابت کہ اللہ بچائے، گویا ایک دوسرے کو نوچ ڈالنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں، مگر ایسا وقت بھی آیا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والوں کو اپنی اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے ٹانگیں پکڑتے بھی دیکھا، آصف علی زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰ کرنے والوں کو لاہور میں ہی ظہرانے پر بلاتے بھی دیکھا۔

صدرپرویز مشرف کو اپنی محبوب قائدمحترمہ بے نظیربھٹو کا قاتل کہنے والوں کواُسی پرویز مشرف کوپورے سرکاری اعزازکے ساتھ رخصت کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اپنی اسی محبوب قائد کے قتل کا ذمِدار قاف لیگ کو ٹھہراتے ہوئے قاف لیگ کو قاتل لیگ قرار دینے والی پیپلز پارٹی کو اُسی قاتل لیگ کو اپنا اتحادی بناتے ہوئے بھی دیکھا۔ آج لاہور میں مرنے والے چودہ معصوم لوگوں کے قتل کا ماتم کرنے والے چوہدری شجاعت حسین کو اپنے دورِحکومت میں لال مسجد میں مرنے والی معصوم بچیوں کے قتل پر خاموش تماشائی بنے بھی دیکھا۔


چلیں دوسروں کو تو رہنے ہی دیں، عمران خان صاحب کسی دور میں شیخ رشید کواپنا چپڑاسی رکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے اور اس بات کا اظہار اُنہوں نے ایک ٹاک شو میں اس دُعا کے ساتھ کیا تھا کہ یا اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنانا۔ آج وہی شیخ رشید صاحب ہیں جو اُن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، ہر بات پر اُن سے مشورہ ہوتا ہے، اُن کی کانوں میں کی گئی سرگوشیوں پربڑے بڑے فیصلے بدل دیے جاتے ہیں۔

”عمران خان کی اگر حکومت آگئی تو یہ بہن بھائی کا نکاح بھی جائز قرار دے دے گا“، اس بیان کے خالق بھی کوئی اور نہیں بلکہ آزادی مارچ کے موقع پر تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنیوالے جناب جمشید دستی صاحب ہیں۔ یہ وہی جمشید دستی ہیں جنہوں نے اپنا استعفیٰ بھرے مجمعے میں پڑھ کر سنایا تھا تا کہ کوئی بھی شخص عمران خان کے لیے اُن کی وفاداری کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھ سکے۔

بیشک بعد میں اُنہوں نے اپنی ماں کی ناراضگی کی وجہ سے اپنا استعفیٰ کا فیصلہ واپس لے لیا لیکن اس سے اُن کی وفاداری پر حیرت انگیز طورپر کوئی اثرنہیں پڑا۔
ایک سچا آدمی۔۔۔ ہاشمی ہاشمی کا نعرہ لگانے والے، ان کے نون لیگ چھوڑنے اور تحریکِ انصاف میں شمولیت پر باغی باغی کہہ کربھنگڑے ڈالنے والے ، آج اس نہ جھکنے والے بزرگ سیاستدان کو غدار اور داغی کے القابات سے نواز رہے ہیں مگریہ بھی نہیں جانتے کہ اگر عمران خان نے جاویدہاشمی صاحب کو ایک مرتبہ پھر منا لیا تو پھر یہ کونسا نعرہ لگائیں گے اور کس منہ سے لگائیں گے۔

ایسی کئی اور مثالیں ہیں بتانے کو لیکن جگہ کی کمی کے باعث بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میری خان صاحب کے متوالوں سے گزارش ہے خدارا اپنی سوچ کو محدود کرتے ہوئے اپنے آپ کو بند گلی میں مت لے جائیں، ابھی آپ کو سیاست میں آنے والے بہت اُتار چڑھاوٴ دیکھنے ہیں، ابھی آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ وعدے کرنے اور نبھانے میں کتنا فرق ہوتاہے ۔ وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ،
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میں ناچیز شیخ رشید صاحب کی طرح کوئی پیشنگوئی تو نہیں کر سکتا لیکن اتناضرور کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں کبھی اگرنوازشریف اور عمران خان کی جماعت کا حکومت سازی کے لیے اتحاد ہو گیا تو بڑی بڑی باتیں کرنے والے اور اپنے مخالفین کو گالیوں میں نہلا دینے والے سوشل میڈیا کے یہی چیتے آپ کو کھسیانے ہو کر کھمبے نوچتے دکھائی دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :