مرتضی بھٹو کی شہادت کے اسباق

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

18ستمبر 1996کو کراچی میں دو ہلکے درجے کے بم دھماکے ہوئے جس میں معمولی سا جانی ومالی نقصان ہوا۔اسی دن کراچی میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ۔یہ ایک خونی ڈرامے کی تیاری کا حصہ تھاجس کا سکرپٹ ریاست کی انتہائی طاقتور اور بے لگام ایجنسیاں نے لکھا تھا ،ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی اور حساس اداروں کی زیر نگرانی اس سکرپٹ کے مطابق اگلے دن خون کی ہولی کھیلی جانی تھی۔

19ستمبر کی رات ضلع سرجانی ٹاؤن میں پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے چیئرمین 42سالہ مرتضے بھٹو نے اپنے ایک جلسے میں بہت ہی جوشیلی تقریر کی اور ریاستی اداروں کو چیلنج کیا کہ وہ ان کو بغیر وارنٹ کے گرفتار نہیں کرسکتی ۔مرتضی بھٹو پچھلے کئی دنوں سے اپنے قریبی ساتھیوں کی پولیس حراست،تشدد اور شہید بھٹو پارٹی پر الزامات سے خاصے خفا تھے اور بار بار ریاست اور اسکے اداروں کو للکار رہے تھے۔

(جاری ہے)

انکے بہت سے ساتھیوں بالخصوص علی سنارہ پر دھشت گردی اور غیر ملکی مدد کے الزامات لگا کر انکی تشہیر کی جارہی تھی،انہی الزامات کی آڑ میں گرفتاریاں اور تشدد کیا جارہا تھا۔یہ اس دور میں کیا جارہا تھا جب مملکت خداداد کی وزارت اعظمی پر میر مرتضی بھٹو کی سگی بہن بے نظیر بھٹوفائیز تھیں اور سند ھ میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور سید عبداللہ شاہ وزیر اعلی سندھ تھے۔

19ستمبر1996کومیر مرتضی بھٹو کی رہائش گاہ 70کلفٹن کراچی کے بالکل قریب اور ڈی۔آئی جی کراچی شعیب سڈل کے بنگلے کے سامنے سپیڈ بریکر پر پولیس اور رینجر نے تین گاڑیوں پر مشتمل مرتضی بھٹو کے قافلے کو روکا۔ مرتضی بھٹو اپنی گاڑی سے نکلے اور ایک آفیسر سے بات کررہے تھے کہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان پر فائرنگ شروع کردی گئی ،گولیاں مرتضی کی گردن،چھاتی اور پیٹ میں لگیں اور وہ زمین پر گرگئے۔

اسی دورران انکی جیپ کے پچھلے حصے پر بھی فائرنگ ہوتی رہی جو کہ تیس منٹ سے زائد جاری رہی ۔اس فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور موجودہ (اس وقت کی)وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو اور انکے چھ ساتھی عاشق جتوئی،رحمان بروہی،سجادحیدر،عبدلستارراجپر،یارمحمد بلوچ اوروجاہت جوکھیو بھی اس جان لیوا حملے میں زندگی کی بازی ہارگئے۔

میر مرتضی بھٹو کی ریاست کے ہاتھوں ہلاکت، دوغلط انتہاؤں کے منفی نتائج کا کھلا اظہار ہے۔ ایک انتہا ،محنت کش طبقے کے ساتھ کے بغیر اور مسلح جدوجہد کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست اور اسکے سفاک اداروں کو شکست دینے کا عزم اور انفرادی دھشت گردی کی ہے،جس کا انتخاب شعوری یا لاشعوری طور پر میر مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے اپنے والد اور پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد کیا تھا۔

دوسری انتہا،مفاہمت کی سیاست ،جس کی پھر انتہاؤں کو اپنالینے ،پارٹی کے بنیادی منشور ،نظریات اور مقاصد کو خیر بادکہنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چئیرپرسن بے نظیر بھٹو ریاست کا دل نہیں جیت سکیں اور اپنے دونوں بھائیوں کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بعد خود اسی خونخوار ریاستی اداروں کا شکار ہوگئیں۔ مارکسی اساتذہ نے ہمیشہ واضع کیا ہے کہ کسی سرمایہ دار ریاست سے زیادہ دھشت گرد طاقت ،کوئی نہیں ہوتی، اس لئے اس کو شکست مزدوروں اور کسانوں کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کے ذریعے دی جاسکتی ہے ،اس کے علاوہ کسی قسم کی انفرادی مسلح جدوجہد ،چھاپہ مارلڑائی یا سماج میں انقلابی نظریاتی پہنچائے بغیر کسی قسم کی مہم جوئی سے ریاستی دھشت گردی کے راستے ہموار ہوتے ہیں ۔

ایک مسلح حملہ ،ریاست کو سینکڑوں حملوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔ مسلح حملے یا ان کا تاثر،فیصلہ کن نتائج حاصل کرلینے والی سیاسی جدوجہد کو بے پناہ مسائل اور شکست وریخت کا شکار بناسکتی ہے ۔پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کے سیاہ اور خونی دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر بائیں بازو کے کارکنان نے بے مثال دلیری،جراء ت اور عزم سے سالہا سال مسلح جدوجہد کی ۔

اس جدوجہد کا محور اور مرکز میر مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم ”الذوالفقار“ نامی تنظیم تھی۔چونکہ اس تنظیم کے قائم ہونے کے سالوں میں بھٹو برادران کے دائیں بائیں مختلف نظریات اور سیاسی بیک گراؤنڈ رکھنے والے خواتین و حضرات تھے ،جنکے نظریات کی وضاحت کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان میں ہونے والی چند ایک حملوں سے ہوتی ہے جس میں ریاست اور فوجی حکمرانوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس کے جواب میں فوجی جنتا نے پاکستان کے محنت کشوں اور سیاسی کارکنان کی خونی کی ہولی کھیلنے سے اجتناب نہیں کیا۔

سیاسی کارکنان سے پاکستان بھر کی جیلیں بھر دی گئیں،شاہی قلعے میں ظلم وستم کی داستانیں رقم کی گئیں اور پورے ملک میں دھشت کی فضا طاری کردی گئی۔ ایم آرڈی کی تحریک جس کی(بطورخاص سندھ میں ) شدت نے فوجی جنتا کے پاؤں اکھاڑ دیے تھے ،حتہ کہ جنرل ضیاء الحق اور اسکے قریبی جرنیلوں نے اپنے اہل خانہ کو دبئی منتقل کردیا تھااور تاثر تھا کہ اب اس ملک میں فوجی آمریت کو اکھاڑا جاسکتا ہے ۔

مگر مارچ 1981میں کراچی سے پشاور جانے والے پی آئی اے کے طیارے کو اغوا کرکے کابل لے جایا گیا،جس کی ذمہ داری الذوالفقار نے اپنے ذمہ لے لی تھی ،نے ایم آرڈی کی تحریک کا عملاََ دم نکال کر رکھ دیا تھا۔تیرہ دن کی اس اغوا کی کاروائی کے دوران ایک فوجی آفسر کے مارے جانے پر فوج بہت برہم ہوئی ،(بعد ازاں ایک فوجی عدالت نے مرتضی کو موت کی سزا سنادی تھی)ملک بھر میں ہڑتال کی کال اس طیارے کے اغوا کی خبر کے بعد بغیر واپسی کے اعلان کے خود بخود ختم ہوگئی اور پورے ملک میں ریاستی جبر کے ایک نئے اور خوفناک دور نے جنم لیا جسکے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں کارکنان کو عقوبت کدوں میں دھکیل دیا گیا۔

الذوالفقار کاجنم جس غصے اور انتقام کے جذبے سے ہوا تھا وہ اسکو ایک مکمل سیاسی ،نظریاتی اور مارکسی پروگرام سے ہمکنارنہیں کرسکتا تھا۔ ریاستی جبر اور انتقامی کاروائیوں کی نہ ختم ہونے والی لہروں نے نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان سے ان کا حال اور مستقبل چھین لیااور یہ تحریک اور تنظیم بغیر کسی اعلان کے اپنے اختتام کی طرف بڑھ گئی۔

ایک لمبے سیاسی تعطل اور بے عملی کے بعد مرتضی بھٹو کی پاکستان میں دوبارہ آمد 1993ء میں ہوئی جب پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم تھی۔اپنی گرفتاری،رہائی ،الیکشن اور سیاسی جدوجہد کے دوران پھر مرتضی بھٹو نظریاتی تذبذب کا شکاررہے۔ ایک طرف ریاست ان سے انتقام لینے کے درپے تھی دوسری طرف ایک علیحدہ پارٹی کے غلط فیصلے نے ان کو ایک بڑے سیاسی رجحان سے کاٹ کر ایک علیحدہ گروپ میں رہنے پر مجبور کردیا۔

پیپلز پارٹی کا کارکن مرتضے کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ پی پی پی کا کارکن مرتضی سے محبت کرتا تھامگر پارٹی کے دوحصوں کی تقسیم نے پارٹی کارکن کو بہت دکھی کیاوہ نہ اپنے مرکزی سیاسی رجحان سے علیحدہ ہوسکتا تھا جہاں اس نے بہت قربانیاں دیں تھیں اور طویل سیاسی جدوجہد کی تھی اور نہ ہی مرتضے بھٹو کی پارٹی کو ایک مدمقابل اور مخالف پارٹی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار تھا۔

دوسری طرف مرتضی بھٹو پیپلز پارٹی کے بنیادی اور تاسیسی پروگرام (جس کو بے نظیر بھٹوترک کرچکی تھیں) کو شہید بھٹو پارٹی کا پروگرام قراردینے کے باوجود غیر متذبذب رویہ اور انداز سیاست اختیار نہیں کرسکے۔ایک طرف وہ اپنے ماضی کی مسلح جدوجہد اور جارحانہ رویے کو سیاسی زندگی سے نہیں نکال سکے دوسری طرف بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر جس قسم کے الزامات لگاتے رہے اس سے کئی درجہ زیادہ مفادپرستی کے شکار اور ضیاء الحق کے وزیر رہنے والوں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی کی مرکزی قیادت میں آنے سے نہیں روک سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام پر عمل درآمد کسی سرمایہ دارانہ پارلیمانی نظام کا حصہ بن کر یا اقتدار حاصل کرکے نہیں کیا جاسکتا ،اس نقطے پر بھی وہ واضع پوزیشن اختیا رنہ کرسکے،وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ 1967-68کی طاقت اور پارٹی کا بننے کے چند مہینوں بعد ہی ایک وسیع پارٹی کی شکل اختیار کرلینے کی حقیقی وجہ سرمایہ دارانہ ریاست یا اسکے اداروں کی حاکمیت تسلیم کرنے کی بجائے ان سے بغاوت اور سوشلسٹ انقلاب کے راستے پر چلنے کا عندیہ دینے کی وجہ سے تھی۔

اس راستے سے انحراف کا نتیجہ ”تحریک نظام مصطفی“،فوجی بغاوت،محنت کش طبقے کا پارٹی سے عملاََ لاتعلق ہوجانا اور پارٹی چیئرمین کا جذوی اقدامات کے ردعمل میں ریاست کے ہاتھوں قتل ہوجانا تھا۔سرمایہ دارانہ ریاست کے طبقاتی کردار، منتقم مزاجی اور ہلاکت خیزی کے حقیقی کردار سے چشم پوشی کرنے سے نقصان کے نتائج کے علاوہ کچھ نہیں برآمد ہوسکتا ،مسلح افراد کے جتھوں پر مبنی سرمایہ دارانہ ریاست نہ صرف اپنے نظام اور حکمران طبقے کا تحفظ کرتی ہے بلکہ اسکے خلاف متذبذب اور ادھوری جدوجہد کرنے والوں پر کبھی ترس نہیں کھاتی۔

یہ تو خود بھٹو نے ہی کہا تھا کہ اسکے خلاف ریاست،حکمران اور فوجی جنتا اس لئے لڑنے پر اتر آئی ہے کہ اس نے پوری بغاوت(انقلاب) کی بجائے متحارب طبقوں کے مابین ”آبرومندانہ“ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس مفاہمت نے پہلے بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو سے انتقام لیا،دوسری طرف انتہاپسندی اور ادھورے نظریاتی عمل نے شاہ نواز اور میر مرتضی بھٹو کی جان لے لی۔

یہ تاریخ کے اسباق ہیں،ماتم کے لئے نہیں ،سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے۔مرتضی بھٹو کی دلیری،دیانت داری،سچائی اور جان سے گزر جانے کے سچے عزم کے باوجود ،نظریات،لائحہ عمل اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں تک رسائی نہ پانے کے خوفناک مضمرات، نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے کروڑوں حامیوں بلکہ اس خطے میں ایک کامیاب طبقاتی جنگ کرنے کے خواہش مند دیگر کروڑوں محنت کشوں کے لئے تاریخ کا ناگزیر سبق ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :