آج کا مسئلہ …بھوک ،بیماری،بل اور بجلی

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Muhammad Mumtaz Baig

محمد ممتاز بیگ

ہمارے ملک میں بارشیں دعاؤں اور اذانوں سے آتی ہیں اور اذانوں اور دعاؤں سے ہی ختم ہوتی ہیں ۔ بارشیں نہ ہوں تو خشک سالی ہو جائیں تو سیلاب۔ میٹرو بس منصوبہ نہ ہو تو ٹریفک کے مسائل اور اگر ہو تو نکاسی آب کامسئلہ ۔بغیر کسی مربوط منصوبہ بندی کے ایڈہاک ازم پر نظام کوچلانا اور مصیبت نازل ہوجانے پر اس کا علاج سوچنا۔ 18سے 20گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ، کم وولٹیج،ناگہانی طور پر بجلی کا بند ہو جانا، عین ادائیگی والے دن بلوں کی آمد،بھاری جرمانے سے بچنے کیلئے فوری طور پر رقم کا بندوبست کرنا ،ڈیجیٹل میٹروں کا نہ سمجھ میں آنے والا نظام،ہر چند دن بعد بجلی کی سبسیڈی میں کمی اور ٹیرف میں ناقابل برداشت اضافہ، بجلی کی کمی بیشی سے الیکٹرک آلات کا جل جانا،عوام ابھی انہی مسائل کا حل سوچ رہے تھے کہ ماہ اگست کا ہوش اڑا دینے والے بل صارفین کو جا پہنچے۔

(جاری ہے)

جس میں40سے 70فیصد اوور ریڈنگ اور 100سے300یونٹ زائد ڈال کر فی صارف کم از کم دو ہزار روپے اضافی بوجھ کے ساتھ عوام سے لاکھوں نہیں کروڑوں روپے ناجائز طور پر وصول کر لئے گئے۔عوام کی اکثریت نے اس پر چپ سادھ لی، منتخب نمائیدوں اور این جی اوز اورصارفین کی انجمنوں نے آنکھیں بند کرلیں، دھرنوں اور لانگ مارچ والوں نے اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی البتہ مساجد میں جمعہ کی تقریروں میں ذمہ داروں کوعوام پر گزرے اس عذاب کو کم کرنے کا ذکرضرور ہوا مگر اس کا کوئی مداواہ نہ ہوسکا۔

غریبوں، بیواؤں، چھوٹے دکانداروں،وکلاء، صحافیوں،کم تنخواہ والے ملازمین اورکم یونٹ استعمال کرنے والوں کو بھی ہزاروں روپے کی مالیت کے بل بھجوا دئے گئے۔بلوں کی درستگی کیلئے دفتر میں پہنچنے والے لوگو ں کی کوئی شنوائی نہیں اور انہیں شدید گرمی میں ادھر ادھر چکر لگوانے کے بعدمیٹر ریڈروں اور انسپکٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑکر دوسرے دن بلا کرنئے چکروں میں الجھاکر بتانا کہ اس دفعہ پورے ملک میں بل ایسے ہی آئے ہیں لہذا جمع کرادیں اگلے مہینے خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔

بجلی کے بل اس دفعہ واقعی صارفین پر بجلی بن کر گرے ہیں۔تمام صارفین بجلی کی قیمت کے علاوہ الیکٹرسٹی ڈیوٹی، پی ٹی وی فیس،جی ایس ٹی اور گزشتہ دس سال سے 10پیسہ فی یونٹ نیلم جہلم سرچار ج(N.J Surcharge) بھی اداکر رہے ہیں دھرنے والوں نے ناقابل عمل سول نافرمانی کاکہہ کہ عوام آئندہ بجلی ٹیلیفون اور گیس کے بل ادا نہ کریں اپنی ذمہ داری ختم کر لی۔ موجودہ حکومت چھ ماہ سے تین سال کے عرصہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئی مگربلندوبانگ دعووں کے باوجود 15ماہ میں ابھی تک سسٹم میں ایک میگا واٹ بجلی بھی شامل نہ کر سکی جبکہ بجلی کے نرخ دگنے اورعالمی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر عوام کیلئے بلوں پر سبسیڈی ختم کر دی گئی۔

اب کم یونٹ استعمال کرنے والوں کوبھی 5 روپے فی یونٹ کی بجائے بجلی16 روپے فی یونٹ کے حساب سے ملا کرے گی۔500روپے والااب 1600روپے اور 5,000روپے والا اب 10,000روپے بل ادا کیا کریگا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ناکامی کی بناء پر ختم ہوئی اب ممکن ہے یہ حکومت موجودہ سیاسی بحران سے تو نکل جا ئے لیکن مہنگائی ، غربت، بیروزگاری اور بجلی کے ظالمانہ اور ناقابل برداشت بلوں اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف اگرعوام سڑکوں پر نکل کر اسلا م آبا د کی طرف چل پڑے توان کو روکنا نا ممکن ہوگایہ اپنے ساتھ سب کچھ ملیامیٹ کرتے ہوئے تمام سسٹم کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں گے ۔

ہمارے 90فیصد سے زیادہ ایم این اے اور ایم پی اے وغیرہ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ مارکیٹ میں دودھ، روٹی، سبزیاں،گوشت اور پھل کس بھاؤ بک رہے ہیں۔ دودھ پچاس روپے فی لیٹر سے 60پھر 70اور اب 80روپے تک جا پہنچا اسی طرح تمام اشیاء کے نرخ بڑھانے والے مادر پدر آزاد کوئی پوچھنے والانہیں کنزیومرز ایسوسی ایشنز غیر فعال اور ناکام ۔ان سب چیزوں کا ایک ہی علاج، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اور سستی بجلی جبکہ سستی بجلی کا ایک ہی حل کہ یہ پانی سے پیدا کی جائے ۔

پانی سے بجلی دو روپے، گیس سے 16، فرنس آئل سے 24 جبکہ ڈیزل سے 34روپے فی یونٹ پیدا ہوتی ہے۔ڈیزل مافیا 34روپے فی یونٹ بجلی پیدا کراکے19روپے میں فروخت کروا رہا ہے جسکی وجہ سے واپڈا ایک دفعہ پھر 534ارب سے زائدکے سرکلر ڈیٹ کا شکار ہو گیا اور وہ وقت اب جلد ہی آنے والا ہے جب گھروں کے کچن کے ماہانہ اخراجات کم اور بجلی کابل زیادہ آیا کرے گا۔
جس ملک کے عوام اپنا پیٹ پالنے کیلئے اپنے گردے اور بچے بیچنے پر مجبور ہوں، فاقہ کشی سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہوں، غربت، افلاس اوربیروزگاری کا شکار ہوں،بارش اور سیلاب سے مررہے ہوں وہاں ہمارے سیاستدان،منتخب نمائندے، میڈیا ہاؤسز،حکمران اور عوام آپس میں دست و گریبان ہوں ، کبھی دلیل کبھی غلیل،کبھی صدارتی کبھی پارلیمانی طرز حکومت،کبھی دھاندلی کبھی جعلی ڈگری ،کبھی صدام کبھی قذافی، ِکبھی بھٹو کبھی ضیاء ، کبھی دھونس کبھی دھمکی ،کبھی ایکا کبھی مک مکا، ،کبھی چندے کبھی کرائے ،کبھی ایمپائرکبھی بالر،کبھی ضدی شہزادہ کبھی کنیڈین شہری کے چکر، نا سمت کا پتہ نا منزل کا نشان اور عوام کو غیر ضروری چٹ پٹے اور روشن خیال پروگراموں اور ٹاک شوز میں الجھا کر پانی، بجلی، گیس،صحت،بچوں کی تعلیم،امن و امان، بیروزگاری،فراہمی و نکاسی آب، دہشتگردی،انتہاپسندی، فرقہ واریت،منشیات کی سمگلنگ،انسداد پولیو، آئی ڈی پیز اوربیرون ملک پاکستانیوں کی حالت زار، بارشوں اورسیلابوں سے بچاؤ اورکرائسس مینجمنٹ (Crises Managent)اور کنفلکٹ مینجمنٹ (Conflict Management) ، سٹاک مارکیٹ ، ایکسپورٹ بزنس، روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور سب سے بڑھ کر دھرنوں سے با عزت واپسی کا سوچنے کی بجائے چار حلقوں چالیس حلقوں، طالبان سے مذاکرات طالبان سے جنگ،پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر چڑھائی، پی ٹی وی پر قبضہ،شاہراہ دستور سے آگے جانے کی تقاریر،نعرے دھمکیاں اور اعلانات ،ڈی چوک پر ڈیرے، خیمے شامیانے اورمہینوں تک قیام کا پلان ۔

اپنی قبریں خود ہی کھودے جانا۔ غیر ملکی دوست سربراہان کے دوروں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے لاتعلقی اور بے غرضی وبے حسی۔ملک سے سرمایہ اورربہترین پڑھے لکھے لوگوں کا باہر چلے جانا۔ 200ارب روپے لگا کر میٹرو بس کا چلانا اور لاہور شہر کو بارش میں ڈوبنے سے بچانے کا نہ سوچنا۔اوراگرنرم ہاتھوں اور صاف کا لر والوں کے ساتھ ساتھ ہم تمام نے ابھی بھی اپنی مجرمانہ غفلت جاری رکھی اپنا قبلہ درست نہ کیا، تباہی و بربادی کا راستہ نہ چھوڑا،عوام اور ملک وقوم کی بھلائی اور صحیح رہنمائی نہ کی تو آئندہ آنے والے دنوں میں ”ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں“۔لیکن اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :