کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں ؟

جمعرات 18 ستمبر 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں ؟
اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا۔

گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشیکا اظہار کر کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

خانہ جنگی کی دھمکی کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔

لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیطرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔

پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔


عمران کے دھاندلی زدہ حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت کے روز اول سے لے کر اب تک تمام سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یک زبان ہیں کہ دھونس اور دھمکی سے نواز حکومت کو گھر بھیجنا ممکن نہیں۔ پچھلے ایک مہینے سے عمران اور قادری تاریخوں پر تاریخیں دیے چلے جا رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ اگر تیس دن کی بجائے ہمارے انقلابی تیس مہینے تک بھی دھرنا دیے بیٹھے رہیں تو جب تک ’وہ ‘ اشارہ نہیں کریں گی نواز حکومت اپنا بوریا بستر نہیں سمیٹے گی۔

اور اتنا تو نئے پاکستان کے نوخیز سیاسیے بھی جانتے ہیں کہ ’ان ‘کے آنے کے بعد اصولوں کی سیاست کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیا جاتا ہے اور سیاست دانوں کی ایک نئی پود اگائی جاتی ہے جو جی حضوری اور مالش کرنے میں یدِطولیٰ رکھتی ہے۔ قادری صاحب جیسوں کے مونہہ میں تو ایسے کسی نظام کا سوچ کر پانی بھر آنا سمجھ میں آتا ہے لیکن عمران جیسا کھرا اور بے باک سیاست دان اس کنوئیں میں چھلانگ کیوں لگا نا چاہتا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔


حکومت کو للکارتے للکارتے اب عمران خان پاکستانی ریاست کے تمام اداروں کو بھی آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔ اپنی تقریروں میں پارلیمنٹ ، عدلیہ ، سول بیوروکریسی اور پولیس کے لتے لینے کے بعد اب عمران عملی طور پر میدان میں کود پڑے ہیں ۔ اگلے روز تھانے پر ریڈ کر کے انہوں نے اپنے ماننے والے نوجوانوں کو جس سلطان راہیانہ سیاست کا درس دیا ہے اس کے پاکستانی سیاست اور سوسائٹی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

تھانوں میں پکڑ کر لائے گئے ملزموں میں سے کون مجرم ہے اور کون بے قصور اس کا فیصلہ اگر عدالتوں کی بجائے سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کرنے لگیں تو پاکستان کو طوائف الملوکی کی دلدل میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
انقلابی دھرنے اور بے عملی کا شکار حکومت حالات کو اس نہج کی طرف دھکیل رہے ہیں جہاں ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے فوج کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گااور موجودہ حالات میں فوج غیر جانبدار رہ کر اسی ناگزیر موڑ کا بڑے ٹھنڈے دل سے انتظار کر رہی ہے ۔

عمران خان قادری کے جنونی پیرو کاروں کے آسرے پر بیٹھے ہیں لیکن شاید وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ قادری کا یہاں کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ۔ ملک انتشار کی دلدل میں گرے یا خانہ جنگی کے دھکتے الاؤ کا شکار ہو قادری صاحب نے کان لپیٹ کرکینیڈا کوچ کر جا نا ہے ۔ آمریت کو مسلط کروانے کا طعنہ ہو یا ملک کو انتشار کی بھٹی میں جھونکنے کا الزام عمران کی سیاست یہ وار سہہ نہیں پائے گی اور بقول جاوید ہاشمی ساری زندگی وضاحتیں دیتے گزار دے گی! عمران کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انا اور جمہوری پاکستان کی بقا میں سے کوئی ایک ہی جانبر ہو پائے گا ۔ فیصلے کی اس گھڑی میں اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کس پر کس کو قربان کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :