کاکا کی کہندا ایں،کجھ نیں بدلو گا

جمعرات 18 ستمبر 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

سیاست پر بہت بات کر لی اب سے ہم بات صرف کھانا پکانے کی تراکیب ، باغبانی ، ٹریکٹر کے پرزوں اور موسم کے حال پر کریں گے ۔ جیسے کہ آج لندن کا موسم ابر آلود تھا ، اسلام آباد میں گرمی تھی ، ڈھاکہ میں بارش ہوئی اور دہلی میں تیز ہوائیں چلیں ، یا پھر آلو پالک میں کتنی مرچ پڑتی ہے ، انڈے میں سبزی کیسے پکتی ہے ، احمد کی کھیر مکس کو کتنی آنچ درکار ہوتی ہے یا پھر کسانوں کو کس قسم کا ٹریکٹر خریدنا چاہیے اور اچھی باغبانی کے لیے اچھی کھاد کہاں سے ملتی ہے ؟ شائد اسطرح مسائل حل ہو جائیں، شائد اس طرح سب خوش رہیں ، شائد اس طرح نظام بدل جائے ، شائد اس طرح غریب کی تقدیر بدل جائے ، شائد اس طرح کارخانے پھر سے چل پڑیں اور شائد اس طرح راتوں رات ملکی قرضے معاف ہو جائیں۔

شائد اس طرح سیلاب میں ڈوبے غیر اہم لوگ زندہ ہو جائیں ، شائد اس طرح مٹی سونا اگلے اور شائد اس طرح یورپ کے سارے حکمران پاکستان سے قرضہ لینے آئیں ، پاکستان دیتا نہ تھکے اور یہ مانگ مانگ کر تھک جائیں ۔

(جاری ہے)

شائد اس طرح پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لندن، نیو یارک ، پیرس میں لمبی قطاریں لگ جائیں اور جس ملک میں پاکستانی جائے سب اٹھ کر کھڑے ہو جائیں اور کہیں " وہ دیکھو کون جا رہا ہے ، ایک پاکستانی ، ایک کامیاب پاکستانی جس کے ملک کا موسم اچھا ، کھانے کی ڈشیز لذیذ ، باغیچے ہرے بھرے اور ٹریکٹر فراری کی سپیڈ سے چلتے ہیں " وغیرہ وغیرہ ۔


چلو آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ بات بہبود آبادی ، تعلیم بالغاں ، غالب کی شاعری اور جنید جمشید پر کریں گے یعنی ہم کہیں گے کہ پاکستان ایک ایسا عظیم ملک ہے کہ جہاں کے اچھے موسم میں اور صحت مند ماحول میں پیدا ہونے والے بچے کوہ پیما ، قانون دان ، سائنس دان اور حکمران بنتے ہیں اسی لیے دنیا بھر سے مائیں بچوں کو جنم دینے کے لیے اسلام آباد ، لاہور ، ملتان ، کراچی، کوئٹہ ، مستونگ ، زیارت ، پشاور ، سوات یا مری میں بیڈ بک کروا رہی ہیں ۔

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم بالغاں اس قدر پر اثر ہے کہ دنیا کے تمام ان پڑھ بالغان پاکستان کی انسٹی ٹیوٹس میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے جدہ ، قاہرہ ، استنبول ، مراکیش اور شارجہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔ ہم غالب کی شاعری پر بات کرتے کرتے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرزا غالب کو آ م بہت پسند تھے اور دنیا کے بہترین آ م ملتان میں اگتے ہیں ، ملتان پاکستان کی ثقافت کا ایک تاریخی شہر ہے اس شہر میں ملتانی حلوہ تیار کیا جاتا ہے جو صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے ۔

اچھی صحت اور مضبوط جسموں والے والدین کی اولادیں صحت مند اور چست ہوتی ہیں اور صحت مند جسموں پر خوبصورت کرتے اچھے لگتے ہیں اور پاکستان میں اچھے لباس جنید جمشید پر ہی دستیاب ہیں ۔ اب سوچیں اس کے کتنے فائدے ہونگے ۔ غالب کا نام لیا تو انڈیا پاکستان تعلقات اور ادب کا ایک نیا سویرا طلوع ہو گا ، تعلیم بالغاں ، بہبود آبادی کا ذکر ہمیں چاند پر لے جائے گا اور جنید جمشید کے کرتے کا ذکر کرتے ہی مذہبی حلقے بھی خوش اور فیشن کرنے والے بھی خوش ۔


چلو آج سے عہد کرتے ہیں ہم نے صرف بحث اور تکرار اس بات پر کرنی ہے کہ انڈیا کا کون سا ایکٹر پاکستان کے کس پروڈکٹ کا برانڈ ایمبیسیڈر ہے ، کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی کتنے کامیاب ہیں اور میرا کا اگلا بیان کیا ہو گا ۔ اب اس کے فوائد بھی سن لیں ۔ جب ہم یہ کہیں گے کہ کرینا کپور موبائل فون ، شاہ رخ خان شیمپو ، سونالی بیندرے صابن اور کیترینہ کیف شربت کا اشتہار کرنے کے لیے پاکستانی ایڈ کمپنیوں کے چکر کاٹ رہے ہیں تو اس سے ثابت ہو گا کہ ہماری مصنوعات کس قدر مشہور ہیں اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ میٹرو ملن اگر بتی ، لاڈو صابن ، دانے دار چائے ، پیڈسٹل فین اور پاکستانی سپاری بھی خوب بکے گی، آرڈر دینے والے سال سال قطار میں لگے رہیں گے بلکہ کچھ مال تو بلیک میں بھی بکے گا ۔

یہ بھی ممکن ہے کے ہالی وو ڈ کے ایکٹر بھی ویزے کی درخواست دیں مگر ورک پرمٹ دستیاب نہ ہوں ۔ جب ہم کرکٹ کی بات کریں گے تو پی سی بی کی تعریف خود بخود ہو جائے گی اور ہم نہ صرف دنیا کو
بہترین کریکٹر سپلائی کرنے کے قابل ہونگے بلکہ کاونٹی کھیلنے انگلینڈ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، انڈیا ، سری لنکا ، ساوتھ افریقہ اور ویسٹ انڈیز جیسے ملک پاکستان آنے کی درخواست کریں گے اور ہم ان کی درخواست پر غور کرنے کا سوچیں گے ۔

جب ہم میرا کے اگلے بیان کو زیر بحث لائیں گے تو اس سے معاشرے میں ادب کو فروغ ملے گا ،علم گھر گھر عام ہوگا اور پاکستان کا دنیا میں امیج بلندی کو چھونے لگ جاے گا ۔
ذرا سوچیں بل گیٹس ، روپرٹ مرڈوک ، لیری پیج ، مارک ذکر برگ، انیل امبانی ، مکیش امبانی ، شہزادہ الولید بن طلال ، لکشمی متل اور ایسے سینکڑوں کھرب پتی پاکستان میں اپنا ہالیڈے ہاوٴس بنانے آئیں گے اور ہم انہیں مرضی سے زمین بیچیں گے ۔

کتنی خوشحالی اور کتنا سکون ہو گا ۔
چلو آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم نے عمران خان ، طاہر القادری ، عزت مآب جناب نواز شریف صاحب، جناب آصف علی زرداری ، چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ساتھ عبدا لرحمان ملک ، پی آئی اے ، سٹیل مل ، سانحہ لاہور، سیلاب کی تباہ کاریوں ، محترمہ مریم نواز و محترمین بلاول زرداری ، شہباز شریف ، خواجہ آصف ، خواجہ سعد ، چوہدری نثار ، پرویز رشید اور قبلہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی کیونکہ یہ سب مقدس ہیں ۔

آج کے بعد ہم نے کسی بھی فورم پر ان بدبو دار عام پاکستانیوں کے حق میں بھی کچھ نہیں کہنا جو اسلام آباد میں بغیر وجہ کے بیٹھے ہیں اور پارلیمان کے باہر اپنی شلواریں سکھا رہے ہیں۔جب مسئلہ ہی کچھ نہیں ہے تو یہ شور شرابہ فضول ہے ۔
وہ اور بھی بہت کچھ کہتا بلکہ آج وہ موڈ میں لگتا تھا اس لیے مزید بات کرنا چاہتا تھا مگراس کے ساتھ بیٹھے ستر یا پچتہر سالہ بزرگ نے اس بیس سالہ نواسے یا پوتے کو ٹوکا اوربولا "کاکا کی کہندا ایں،کجھ نیں بدلو گا، چل مینوں چا پلا تے اپنڑا کم کر " ایک نوجوان اپنی فرسٹریشن طنزیہ انداز میں اپنے نا نا یا دادا کے سامنے نکال رہا تھا اور یہ با با جی بے فکری سے اپنی چائے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ میں پیچھے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں " کاکا کی کہندا ایں،کجھ نیں بدلو گا "۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :