عمران خان! تم نے اچھا نہیں کیا

جمعرات 18 ستمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

میں نے اپنے بیٹے ارسل کو اس کے مستقبل کے تمام خدو خال سے آگاہ کر دیا ہے ۔ میں نے اسے بتا دیا ہے کہ بیٹا میرے والد اور تمہارے دادا جنرل ایوب خان اور پھر ذولفقار علی بھٹو کے ووٹر تھے اور ان کی جدوجہد انہی دونوں صاحبان کو برسراقتدار دیکھنے کیلئے تھی ۔ اسی طرح میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ایک سیاسی اور مذہبی جماعت کے ساتھ وابسطہ ہوں اس جماعت میں خاندانی سیاست کا تصور موجود نہیں ہے اور یہ اعلائے کلمة للہ کی بالادستی کیلئے کوشاں ہے مگر پھر بھی انسانی اور تنظیمی لغزشوں سے مبرہ قرار نہیں دی جاسکتی۔

میں نے ارسل کو ہدایت کی ہے کہ میرے بیٹے ابھی سے حمزہ شہباز شریف اور اس کے بیٹوں سے مراسم قائم کرنا شروع کر دو ۔ اسی طرح ہفتے میں ایک دو بار بلاول بھٹو ذرداری کو بھی ای میل کر دیا کرو۔

(جاری ہے)

اگر تعلیم میں سے کچھ وقت بچ جائے تو مریم نواز کے ٹویٹ اکاؤنٹ پر بھی خوشامدی پیغامات ضرور پوسٹ کیا کرو ۔ اور ہاں مونس الٰہی پر فی الحال وقت ضائع مت کرنا ان کے اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہیں ۔

میں نے ارسل کو اپنے حلقے کے ایم این اے کا نام بتا کر تاکید کی ہے کہ بیٹا! ایم این اے کے اپنے ہم عمر بیٹے سے خوب راہ ورسم بڑھاؤ کیونکہ کل کو اسی نے ایم این اے بننا ہے ۔ اسے سمجھانے کی خاطر استدلال پیش کرتے ہوئے اسے کہا ہے کہ بیٹا دیکھو! جنرل ضیاء الحق اگرچہ حادثاتی مگر قصداََ اقتدار میں آئے تھے وہ فضائی حادثے کا شکار ہوئے تو کچھ عرصہ بعد برخودار جناب اعجاز الحق منظر عام پر آگئے اور بار بار وزیر بنتے رہے ۔

اسی طرح ایبٹ آباد کے عوام نے پہلے صدر ایوب پھر ان کے بیٹے گوہر ایوب اور اب ماشاء اللہ عمر ایوب کو برسر قتدار دیکھا ہے ۔ بھٹو فیملی کا تو زکر ہی چھوڑو جناب بھٹو دنیا سے گئے تو نواسوں اور پوتوں تک سیاست کے در کھول کر کے گئے ۔ فیصل آباد کے شیر علی کے بعد اس کا بیٹا عابد شیر علی ماشاء اللہ نہ صرف ممبر قومی اسمبلی ہے بلکہ وہ بجلی اور پانی کا چھوٹا وزیر لگا ہو اہے ۔

اسی طرح گوجرانوالا کے غلام دستگیر کی طبعیت ناساز رہنے لگی تو انہوں نے اپنے بیٹے خرم دستگیر کو پہلے ایم این اے اور پھر وزیر لگوا دیا ۔ سیالکوٹ کی بات کریں تو وہاں خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر جنرل ضیاالحق کی مجلسِ شوری کے رکن تھے انہوں نے آرام کرنے کا قصد کیا تو اپنے فرزند ارجمند خواجہ آصف کو آگے بڑھا یا ۔ لاہور کے خواجہ رفیق شریف اور بھلے مانس انسان تھے تاہم دنیا سے رخصت ہوئے تو بیٹوں نے والد محترم کی جگہ سنبھالی اور اب لاہور کی کافی پراپرٹی بھی سنبھال چکے ہیں ۔

کامونکے کے خان عبدلوکیل خان زمین سے زیر زمین منتقل ہوئے تو سیاست بڑے بیٹے رانا شمشاد خان کو منتقل کر گئے ۔ احمد نگر کے حامد ناصر چٹھہ خود بھی سیاست میں فعال ہیں اور ماشاء اللہ دونوں بیٹے احمد چٹھہ اور فیاض چٹھہ سیاست میں ان کی جانشینی کا ”حق “ادا کررہے ہیں ۔ میں نے ارسل کو پھول نگر والی بات بھی بتا دی ہے کہ رانا پھول کے بیٹوں نے تو سیاست میں وہ نام کمایا کہ شہر کا نام ہی اپنے والد کے نام پر رکھ لیا۔

یعنی اب بھائی پھیرو نہیں پھول نگر ۔ ملتان کا زکر میں نے جان بوجھ کر کیا تاکہ اسے سمجھ آجائے کہ یوسف رضا گیلانی کے بعد ان کا پڑوسی نہیں بلکہ ان کا حقیقی بیٹا قادر گیلانی ایوان اقتدار کا مکین بننے کو مضطرب ہے۔ڈیرہ غازی خان کی کھوسہ اور لغاری خاندان کی روایت کے حوالے سے بھی میں نے اسے آگاہ کر دیا ہے کہ فاروق لغاری کے بعد اویس لغاری اور ذولفقار کھوسہ کے بعد دوست محمد کھوسہ وزیر بننے کے مزے اڑا چکے ہیں ۔


ارسل کہتا ہے بابا میں نے بھی ایم این اے اور ایم پی اے بننا ہے۔ میں نے اسے بتایا ہے کہ بیٹا تمہیں ایم پی اے یا ایم این اے بنانے کیلئے تمہارے باپ کے پاس کروڑوں روپے نہیں ہیں اور ویسے بھی ہم رعایا طبقہ ہیں اور صاحبان سیاست حکمران طبقہ ہیں ۔ ہماری قسمت میں کاتب تقدیر نے محض ووٹ ڈالنا اور اپنا استحصال کروانا لکھا ہے جبکہ حکمران طبقہ نے اپنی لوح قسمت میں استحصال کرنا اور اقتدار سے لطف اندوز ہونا لکھا ہے ۔

مگر ارسل میری بات سے اتفاق نہیں کرتا وہ کہتا ہے ”بابا! نہیں ہماری قسمت میں رعایا ہونا نہیں لکھا بلکہ ہم وہ بے ہمت اور مایوس لوگ ہیں جنہوں نے اپنی حالت کو اپنی قسمت تصور کر رکھاہے ۔ بابا! ہم کب تک ان جاگیر داروں ، وڈیروں ، ملکوں، خواجوں اور چودھریوں کی رعایا بن کر جئیں گے ؟۔ یہ غلام ابن غلام بننے کی ریاضت کب ختم ہوگی ؟ ۔ ہمارے جیسا عام آدمی اپنی قسمت کے فیصلے خود کب کرے گا ۔

ہم چند خاندانوں کے آگے کب تک گروی رہیں گے ؟ ۔ “ارسل کی باتیں سن کر میں سمجھ گیا تھا کہ میرا بیٹا عمران خان کی تقریریں سننے لگ گیا ہے ۔ اسے عمران خان نے گمراہ کر دیا ہے ۔میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی بیٹا پلیز عمران خان کی باتیں چھوڑ جماعت اسلامی کے امیر کی باتیں سماعت کیا کر وہ درویش اور فقیر آدمی ہے وہ کبھی حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ۔

جماعت کا امیر بیچاراچیخ چیخ کر کہہ رہاہے کہ سسٹم کو بچانا ہے اگریہ دھرنے جاری رہے تو سسٹم کے ڈی ریل ہونے کا خدشہ ہے ۔ لہذا میرے بیٹے عمران خان کی باتوں میں مت آؤ اور پارلیمنٹ کے اندر موجود”انجمن دفاع جمہوریت“کی باتیں دل لگا کر سنو۔ کیا تم نے دیکھا نہیں چودھری نثار اور چودھری اعتزاز نے جمہوریت کی خاطر کس قدر بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک دوسرے کے چور اور کرپٹ ہونے والے ثبوت عوام اور میڈیا کے سامنے پیش نہیں کئے ۔

ارسل میری کسی بات پر کان نہیں دھرتا اور ایک ہی بات کہے جاتاہے بابا!سراج الحق کس سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں جس سسٹم کے تحت باپ کے بعد بیٹا ایم این اے اور ایم پی اے بنتا ہے ، کروڑوں اور اربوں کے قرض ہڑپ کر جانے والوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے کی بجائے پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں۔ سراج الحق اس سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں جس کے تحت شرابی ، زانی، قبضہ گروپ اور کاذب اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں؟ ۔

میں سمجھ چکا تھا کہ میرا بیٹا مکمل طور پر عمران خان کی باتوں میں آگیا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا عمران خان یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ میں نے ارسل کو سمجھانے کی کوشش کی ترک کی اور جماعت اسلامی کے امیر کے استقبالیہ پروگرام میں شریک ہوکر ”مرد مومن مرد حق ۔۔۔۔سراج الحق سراج الحق کے نعرے لگانے لگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :