خدرا تاریخ کو مسخ نہ کریں

اتوار 14 ستمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ اس وقت جب ملک بحرانوں سے دوچار ہے اپنی ناپاک سوچ اور عزائم سے باہر آنے کو تیار نہی ،ملک اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں ، دھرنوں ،آئی ڈی پیز جن کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے کہ مسائل سے دوچار ہے اور مزید یہ کہ دہشت گردی کی لہر میں ایک بار پھر تیزی آرہی ہے،ایسے ماحول میں بھی یہ افراد تاریخ پاکستان پر حملوں سے باز نہی آرہے،گذشتہ دنوں ایک کالم نگار نے طاہر القادری کے آڑ میں ہرزاہ سرائی کرتے ہوئے لکھا” پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو جنگ کے بجائے ووٹ کے ذریعے بنے،پاکستانی جنیاتی لحاظ سے جمہوری اور لبرل لوگ ہیں،ہندوستان کے مسلمانوں نے آزادی کیلئے جمہوری جدوجہد کی،علماء کے بارے میں لکھتے ہیں” آپ کو جواہر لال نہرو کے ساتھ علماء کی تصویریں ملیں گی قائد اعظم کے ساتھ نہی،آخری بات لکھتے ہوئے موصوف پیشن گوئی کرتے ہیں”ہم مسلمان جو اسلامی ریاست تخلیق کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت ۵۸ اسلامی ممالک میں کسی جگہ موجود نہی ،ہم مسلمان وہ ریاست چودہ سو سال میں تخلیق نہیں کرسکے ہم یہ پاکستان میں کیسے تخلیق کرینگے:
آہا ؟یہ ہے اس ملک کا کالم نگار جو ملک ایک نظریے کی بنیاد پر قیام کیا گیا تھا،خیر ذاتی تنقید کے بجائے میں موصوف نے جو تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اس پر اپنے قارئین سے چند معروضت بیان کرنا چاہتا ہوں ،موصوف نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنے کی کوشش کی ہے پہلے تو الفاظ پر ہی غور کرلیں، تخلیق کرنا اور نافذ کرنے کا فرق معلوم نہی، اسلامی نظام مکمل ہے تخلیق کی ضرورت نہی صرف نافذ کرنا ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد بنا ہے ،یہ ملک فرنگی(انگریز)نے ہمیں طشتری میں پیش نہی کیا یہ برصغیر جس پر ہماری صدیوں سے حکمرانی تھی اسے ہم سے ہی میر جعفر و میر صادق جیسے غداروں کے ذریعے چھینا گیا تھا،اور اس کو آزاد کرنے کے لئے ۱۸۵۷ میں جنگ آزادی کی عظیم جنگ لڑی گئی، اس میں ناکامی کے بعد ہزاروں علماء کو پھانسیوں پر لٹکایا گیا اور سینکڑوں علماء کو کالا پانی نامی جیلوں میں بھیجا گیا،مولانا محمود الحسن ہوں یا مولانا جعفر تھانسری،مولانا قاسم نانوتوی ہوں یا مولانا حسین احمد مدنی،یا مولانا عبیداللہ سندھی یہ سب فرنگی سے برسر پیکار رہے،ان اکابرین نے شاملی کے معرکے کے بعد تحریک ریشمی کو منظم کیا،کلکتہ سے امرتسر تک سینکڑوں علما کو درختوں پر لٹکایا گیا،چودھری صاحب یہ تاریخ بھی کبھی پڑھ لینا ،اگرفرنگی شیکسپیئر، لینن، اسٹالن، کارل مارکس، ٹالسٹائی اور برنا ڈ شاہ جیسے ناول نگاروں اور ادیبوں سے فرصت ملے؟
اور یہ کہنا اور لکھنا کہ پاکستانی قوم جنیاتی طور پر لبرل ہے ،یہ اس سے بڑاجھوٹ ہے ہمارے بڑوں نے یہ ملک لا الہ الا اللہ کے نعرے اور اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کے عظیم مقصدکے لئے قربانیاں دی تھی اور یہ کلمہ ہی ہے جو ہمیں اکھٹا رکھ سکتا ہے ورنہ ہمارے درمیان کچھ بھی مشترک نہی۔

لاکھوں افراد نے اسی عظیم مقصد کے لئے ہجرت کی تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظام ہوگا(مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا)خودقائد اعظم محمد علی جناح نے کئی مواقع پر فرمایا: ۸ مارچ ۱۹۴۴ کو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ؛ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا تھاجس دن ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا؛۔نظریہ پاکستان کو دوسرے لفظوں نظریہ اسلام کہا جاتا ہے اس کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات وقوانین کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی تشکیل پاکستان میں ہوسکے ،دوسری جگہ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۳ کو کراچی میں مسلم لیگ کونسل سے خطاب ہے اس میں بابائے قوم نے کہا؛وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ۔

وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملت کی عمارت استوار ہے ،وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے،وہ رشتہ ،وہ چٹان اور وہ لنگر خداکی کتاب قرآن کریم ہے مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد ہوتا جائے گا ،ایک خدا ایک کتاب ،ایک رسول اور ایک امت یہی ہمارانعرہ ہے؛۔بابائے قوم کے ان الفاظ پر ذرا غور کریں کیا ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ ان اقوال پر عمل کیا؟پاکستان بننے کے بعد ۲۱مارچ ۱۹۴۸ کو ڈھاکہ اسٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا؛ اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ خواہ آپ کچھ بھی ہو اور کہیں بھی ہو آپ بحیثت مسلمان ایک قوم ہیں،آپ نے جو مملکت قائم کی ہے وہ کسی پنجابی،بنگالی،سندھی ،پٹھان کی نہی ہے ،بلکہ آپ سب کی ہے،میں آپ سے کہونگا کہ صوبائیت سے چھٹکارا حاصل کرلیجیے کیونکہ جب تک یہ زہر پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں موجود رہے گا آپ کبھی عظیم قوم نہیں بن سکیں گے اور آپ وہ سب کچھ حاصل نہ کرسکیں گے جو میری خواہش ہے کہ آپ حاصل کرلیں۔


قائد اعظم محمدعلی جناح کی اور بھی اس طرح کی تقاریر موجود ہیں مگر لبرل فاشسٹ دانش فروش چند ٹکوں کی خاطر پاکستانی قوم کو جنیاتی طور پر لبرل کہتے ہیں،نظریہ پاکستان کے خلاف اتنا گردوغبار اٹھایا جارہا ہے کہ نئی نسل کو آزادی کی عظیم جدوجہد کا مقصد سمجھنا مشکل ہوگیا ہے،اور یہ کام حکومت کے زیر سایہ اسکولوں ،کالجز اور یونی ورسٹیز میں لبرل اساتذہ کررہے ہیں جہاں نوجوان نسل کو کنفیوزڈ کرنے کیلئے بتایا جاتا ہے کہ تین وازراتوں پر اتفاق نہ ہونے سے پاکستان معرض وجود میں آیا،نظریہ پاکستان ایک لبرل ڈیموکریٹ ریاست کانام ہے۔


اور یہ کہنا کہ قائد اعظم کی علماء کے ساتھ تصاویر نہی ہیں ایک اور تاریخی جھوٹ ہے ،بڑے بڑے لیڈروں کی موجودگی میں پاکستان کا پرچم کراچی اور ڈھاکا میں لہرانے والے دونوں حضرات علماء دین تھے جی ہاں کراچی میں علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکا میں علامہ ظفر احمد عثمانی نے سب سے آزادی کے بعد پاکستان کاپرچم لہرایا،اور قائد اعظم نے کئی مواقع پر علامہ اشرف علی تھانوی  سے تحریک آزادی میں مشاورت کی ۔


ہاں البتہ اس مملکت خداداد میں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکا اور ہمیشہ اس کی راہ میں روڑے اٹکایے گئے البتہ پاکستان کے آئین میں اور قرار داد پاکستان میں واضح تحریر ہے کہ ملک کا نظام اسلامی کیا جائے گا اور اسلام کوتمام اداروں میں نافذ کیا جائے گا ،اور یہ کہنا کہ ہم چودہ سو سال میں اسلامی ریاست قائم نہ کرسکے تاریخ اسلام سے لاعلمی ہے اور کچھ نہی ،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ موصوف کو اس بات کی تنخواہ ملتی ہو کہ اسلام اور اسلامی نظام کے خلاف لکھو یہ الگ بات ہے،مگر اپنے خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنا کب سے جمہوری اور لبرلز کا وطیرہ بن گیا یہ الگ داستان ،پھر کبھی اس پر نظر ڈالیں گئے اللہ پاکستان کو ان مشکلوں سے نکالے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :